توبہ

واصف علی واصف
توبہ کرنے والے کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اللہ سے توفیق مانگنی چاہیے کہ توبہ سلامت رہے۔ توبہ شکن انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ وہ اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ وہ احترام کے تصور سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ دُعا سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ عبادت کی افادیت سے محروم ہوجاتا ہے۔
گناہوں میں سب سے بڑا گناہ توبہ شکنی ہے۔ توبہ شکنی انسان کی شخصیت کو اندر سے توڑ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کا ظاہری وجود بے خراش ہو تب بھی اندر کا وجود قاش قاش ہوجاتا ہے۔
دراصل گناہ بالعموم انسان کو نقصان پہنچانے والا عمل ہوتا ہے۔ انسان نہیں سمجھتا۔ خالق نے جس عمل سے روکا ہے، اس سے رک جانا ہی سعادت کا ذریعہ ہے۔
ادب کی دنیا میں اگر مصنف ایسی کتاب تحریر کرے جس سے قاری میں گناہ کی رغبت یا میلان پیدا ہوجائے، تو ایسی تخلیق گناہ ہی کہلائے گی۔ ایسے گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے۔ مصنف کا عمل تصنیف ہے اور یہ عمل، خیر یا شر کے باب میں اپنا انجام ضرور دیکھے گا۔ گناہوں پر اُکسانے والے کا انجام، گنہگار کے انجام سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ نیکی پر گامزن کرنے کا عمل، نیک اعمال میں سب سے مستحسن عمل ہے۔ ادیب مرجاتا ہے، ادب زندہ رہتا ہے اور ادیب اپنی تاثیر پیدا کرتا رہتا ہے۔
تاثیر پیدا کرنے والا، مرنے کے بعد بھی اپنے نامۂ اعمال میں اپنے قاری کی نیکی بدی کے حوالے سے اضافہ کرتا ہے۔ جس نے جتنے زیادہ لوگوں کو نیک بنایا، اُسے اُتنا ہی زیادہ انعام ملے گا۔
مصنف کو اپنی گناہ ساز اور گناہ پرور تصانیف سے توبہ کرنی چاہیے۔ اگر توبہ قبول ہوگئی تو اُسے نیک تصانیف کا شعور عطا ہوگا، جس سے وہ ہر آنے والے دور سے دعائیں حاصل کرے گا۔ آنے والے زمانوں کی دعائیں یا بددعائیں، جانے والے انسان کے لیے بڑی تاثیر رکھتی ہیں۔
نیت کا گناہ، نیت کی توبہ سے معاف ہوجاتا ہے۔ عمل کا گناہ، عمل کی توبہ سے دور ہوتا ہے۔ تحریر کا گناہ، تحریرکی توبہ سے ختم ہوجاتا ہے۔
جس ڈگری کا گناہ ہوگا، اُسی ڈگری کی توبہ چاہیے۔ صاحبِ تاثیر کی تحریر، اُس کے نامۂ اعمال میں بھی رکھی جائے گی۔ جس انسان کو جو دولت عطا ہوئی ہو، اُس کی بازپرس ہوگی۔ الفاظ کی دولت حاصل کرنے والوں سے ضرور اس دولت کے استعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اگر نصیب یاوری کرے، تو اپنی تحریر کو اپنی نیکیوں میں اضافے کے لیے استعمال کرلیا جائے۔ گزشتہ پر توبہ کا مُدعا ہی یہی ہے کہ آئندہ اپنے الفاظ کے استعمال کو اپنے اعمال کے آئینے میں دیکھا جائے۔
انسان کا پیشہ سیاست ہو یا وکالت، تعلیم ہو یا کاروبار… الفاظ کا استعمال عمل کے میزان میں ضرور دیکھا جائے گا۔
جو انسان جتنا مؤثر ہوگا، اُس کا گناہ اُتنا ہی بڑا ہوگا۔ ہم اپنے گناہوں کو اپنے حلقۂ تاثیر میں سند بنا دیتے ہیں، اور یوں ہم زیادہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اگر توبہ برملا نہ ہو، تو برملا گناہ معاف نہیں ہوتا۔
(’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘)

پروفیسررشید احمد انگوی

جہاں میں بندۂ حُر کے مشاہدات ہیں کیا
تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

یہ ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’نکتۂ توحید‘‘ کا چوتھا شعر ہے۔ پانچ اشعار پر مشتمل اس نظم کا ہر ایک شعر اسی اسٹائل میں سوال کرتا ہے جس کے پہلے مصرعے میں جواب موجود ہوتا ہے مثلاً یہ کہ مسئلہ توحید یقینا سمجھ میں آسکتا ہے مگر تیرے دماغ میں بہت خانہ پڑا ہوتو اسے کیا کہیں۔ اسی طرح لا الٰہ کے حقائق سمجھ آسکتے ہیں مگر سمجھانے والے کے انداز میں پیچیدگیاں بھری ہوں تو کیا کرسکتے ہیں تو علامہ فرماتے ہیں کہ یہ جہان تو خود ایک کھلی کتاب ہے جس کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے بے شمار حقائق سمجھ آسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک کھلے دماغ کا حامل آزاد فطرت انسان ہونا ضروری ہے اس کے برعکس ایک غلام کی نگاہ بصیرت سے محروم اور حقائق کو سمجھنے سے معذور ہوتی ہے اور اس کا یہ اندھا پن اسے کائنات کے کھلے حقائق سمجھنے میں مدد نہیں دے سکتا اﷲ کا فرمان ہے کہ کائنات میں غور و فکر اور تدبر سے کام لو تو ایک بندۂ مؤمن اور مردِ حُر اپنے مالک کے حکم کی روشنی میں کائنات کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کئی علوم دریافت اور لیبارٹریاں ایجاد کر ڈالتا ہے۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
تلوار ہزاروں سال انسانی تاریخ کا اہم سامان رہی کہ یہ قوموں اور قبیلوں کے مابین جینگ و جدال میں فیصلہ کن اور فاتحانہ کامیابیوں کا ذریعہ بنتی رہی مگر علامہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قوم کا اصل سرمایہ تو وہ غیور اور خود دار جوان ہوتے ہیں جو خودی کے جوہر سے آشنا ہوکر اﷲ کے سوا کسی کے آگے جھکنا نہیں جانتے اور اپنے عزائم و جذبوں سے قوم کا سربلند رکھتے ہیں۔ خودی کی یہ فولادی طاقت تلوار سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔