بچوں میں غذائی قلت دور کرنے میں وٹامن ڈی کا اہم کردار

ایک اہم سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کو اگر غذا کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار کھلائی جائے تو وہ تیزی سے صحت یاب ہوتے ہیں اور ان میں زبان جاننے اور جسمانی حرکات والا نظام (موٹر سسٹم) تیزی سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ تحقیق پاکستانی اور برطانوی ماہرین نے مشترکہ طور پر انجام دی ہے۔ شدید غذائی قلت یا سیویئراکیوٹ میل نیوٹریشن غذائیت کی کمی وہ شکل ہے جو بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس کے شکار بچوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے، وہ بہت کمزور ہوتے ہیں اور ان کے جسم پر گوشت کی کمی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ چہرے، پیروں اور دیگر اعضا پر سوجن نمایاں ہوتی ہے۔
اگر غذائیت کی کمی والے بچوں میں وٹامن ڈی بھی کم ہوجائے تو اس سے پٹھے اور عضلات گھلنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں توانائی والی غذائیں پیسٹ کی صورت میں کھلائی جاتی ہیں، لیکن اس سے قبل وٹامن ڈی کے اثرات نہیں دیکھے گئے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کو اگر مناسب غذا کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار کھلائی جائے تو اس کے فوری اور بہتر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

موبائل فون کے استعمال سے برین کینسر میں اضافہ

سائنسی جریدے جرنل آف انوائرنمنٹل اینڈ پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق 1995ء سے 2015ء کے درمیان کیے گئے مطالعے سے انکشاف ہوا کہ گزشتہ 10 برس کے دوران دماغ کے کینسر میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ برین ٹیومرکے بڑھتے ہوئے ان واقعات کی وجہ طرزِ زندگی میں تبدیلی اور موبائل فون کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ سائنس دانوں نے ٹیومرکے مطالعے کے دوران دیکھا کہ زیادہ تر ٹیومر دماغ کے پچھلی جانب اور کان سے ذرا اوپری حصے میں پائے گئے۔ دماغ کے بالائی اور پچھلے حصے کے درمیان میں موجود ٹیومر عین کان کے اوپر موجود تھے جس سے ممکنہ طورکہا جا سکتا ہے کہ دماغ کے ٹیومرکی وجہ موبائل فون کا بے دریغ استعمال ہے، اور جیسے جیسے معاشرے میں موبائل کا استعمال بڑھ رہا ہے ویسے ویسے برین ٹیومر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس قسم کے ٹیومر کو glioblastoma کہا جاتا ہے اور یہ دماغ کے بالائی اور پچھلی حصے کے درمیان میں پیدا ہوتا ہے، اور کبھی کبھی ابتدائی طور پر یہ ریڑھ کی ہڈی سے بھی جنم لیتا ہے، تاہم زیادہ تر یہ کان کے اوپری حصے کی جانب پیدا ہوتا ہے جس کی ابتدائی تشخیص مشکل ہوتی ہے، تاہم چکر آنا، دھندلا دکھائی دینا، بے ہوش ہوجانا، یا چال میں فرق آنا اس کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برین ٹیومر سے محفوظ رہنے کے لیے موبائل فون پر طویل باتیں نہ کریں، اور اگر زیادہ طویل کال کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ہینڈ فری استعمال کریں۔

پاکستان میں واٹر ایمرجنسی کا اعلان، قلت ملک کو تباہی کی جانب دھکیل سکتی ہے

پاکستان نے ’واٹر ایمرجنسی‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے تو پانی کی قلت کا بحران ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ میاں شہبازشریف، سید مراد علی شاہ، پرویز خٹک اور عبدالقدوس بزنجو نے بدھ کے روز اسلام آباد میں مشاورت کے بعد ’پاکستان واٹر چارٹر‘ پر اتفاق کیا ہے جس پر وفاق اور صوبوں کے پانچوں نمائندوں کے دستخط موجود ہیں۔ اس چارٹر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5200 مکعب میٹر سالانہ تھی جو کم ہوکر اب ایک ہزار مکعب میٹر سالانہ تک پہنچ چکی ہے جس سے سرکاری طور پر پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 1950ء سے لے کر 1990ء تک کی تین دہائیوں میں انڈس ریور سسٹم سے قابلِ ذکر پانی حاصل کیا گیا۔ اس وجہ سے پاکستان خوراک میں خودکفیل ہوگیا، لیکن ماضی میں جو کوششیں کی گئیں وہ خطرے سے دوچار ہیں۔ اس چارٹر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان موسمی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے ممالک میں شامل ہے۔ ’اگر گلیشیئر کے پگھلنے میں 40 فیصد اضافہ ہوا تو آنے والے دنوں میں ہم شدید سیلابوں کا سامنا کریں گے، جس سے دریاؤں کے سالانہ بہاؤ میں کمی آئے گی۔ اس تمام عوامل سے بارشوں کی طرز میں تبدیلی ہوگی جس سے زراعت اور غدائی ضروریات کا نظام تباہ ہوجائے گا‘۔ پاکستان واٹر چارٹر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق ان بیماریوں کی وجہ سے کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔