پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے چین نے باضابطہ اعلان تو نہیں کیا مگر دونوں ملکوں کو غیر محسوس طریقے سے قریب لانے کے لیے چین کی کوششوں کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں، جس کا پہلا اشارہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے روس میں ہونے والی جنگی مشقیں ہیں۔ ان مشقوں کی سب سے اہم بات پاکستان اور بھارت کی افواج کی براہِ راست شرکت ہے۔ رواں سال اگست سے ستمبر تک ہونے والی ان مشقوں کا فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ملکوں کے وزرائے دفاع نے کیا تھا۔ ان مشقوں میں روس، چین، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کی فوجوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے بھی ہوں گے۔ ان مشقوں کا بنیادی خیال ’دہشت گردی کا مقابلہ‘ ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو بے اثر کرنا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تیاریوں کا جانچنا اور ممکنہ حملوں کو روکنا بھی مشقوں کا حصہ ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کی افواج گزشتہ ستّر سال سے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں۔ دونوں کے درمیان تین کھلی جنگیں اور بے شمار ادھوری اور درپردہ جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ اب بھی کنٹرول لائن پر کھلی جنگ اور بلوچستان سے وزیرستان تک دونوں کے درمیان درپردہ پنجہ آزمائی جاری ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کو التوا میں ڈال کر تاپی گیس پائپ لائن میں شمولیت پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ یہ گیس پائپ لائن ترکمانستان سے شروع ہوکر افغانستان اور پاکستان سے ہوتی ہوئی بھارت جاکر ختم ہوگی۔ اس طرح پاکستان اور بھارت تاپی منصوبے میں شامل ہوکر ایک بڑی اقتصادی سرگرمی کا حصہ بننے کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کوششوں کے پیچھے عوامی جمہوریہ چین کی کوششیں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کے لیے 1991ء سے شروع ہونے والی امریکی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ ان کوششوں سے دونوں ملکوں کے درمیان معاملات ٹھیک ہونے کے بجائے مزید کشیدہ اور اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالث اور سہولت کار بننے کی خواہش میں دونوں ملکوں کو قریب لانے کی جو کوششیں شروع کیں وہ بالآخر امریکہ کی طرف سے بھارت کی واضح حمایت میں ڈھلتی چلی گئیں۔ جوں جوں امریکہ ایک فریق کے طور پر بھارت کا حامی اور طرف دار بنتا گیا اُس کی ثالث اور سہولت کار کی حیثیت متاثر ہوتی چلی گئی۔ امریکہ کی کوششوں پر سے پاکستان کا اعتماد کم ہوتا چلا گیا جو اب شک اور مخاصمت کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
چین دنیا کی ایک بڑی اور متبادل اقتصادی طاقت کے طور پر جہاں دنیا میں اپنا لوہا منوا رہا ہے وہیں وہ دنیا کے کئی تنازعات میں ثالثی اور سہولت کاری کے لیے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں چالیس فیصد علاقے کا کنٹرول رکھنے کے لیے طالبان کو سیاسی مفاہمت کی راہ پر لانے کی کوشش کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ چین اربوں ڈالر سے پاک چین اقتصادی راہداری کا جو ڈول ڈال چکا ہے اُس کی کامیابی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن ناگزیر ہے، مگر وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ دونوں ملکوں میں امن کی ہر راہ کشمیر سے ہوکر گزرتی ہے۔ کشمیر ڈوکلام کی طرح زمین کے ٹکڑے اور کچھ پہاڑوں اور وادیوں کا نام نہیں، بلکہ زندہ انسانوں کا مسئلہ ہے، اور وہ انسان اس وقت سر پر کفن باندھے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ انسانوں کی یہی موجودگی اور آزادی کی تمنا کے لیے تڑپتے اور دھڑکتے ہوئے دل کشمیر پر ثالثی کو امریکہ سے چین تک ہر عالمی طاقت کے لیے مشکل ترین کام بنا چکے ہیں۔
چین اور پاکستان دونوں بھارت کو سی پیک میں شمولیت اور اس اقتصادی سرگرمی سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت دے چکے ہیں۔ اب یہ اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ بھارت میں ایک اقتصادی سرگرمی کے طور پر سی پیک سے فائدہ اُٹھانے کی سوچ پیدا ہورہی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی ایک دانشور سدھیندر کلکرنی جو ماضی میں بی جے پی سے وابستہ رہ چکی ہیں، کا ایک اہم مضمون سامنے آیا ہے۔ ’’جناح کا خواب بھارت کی سی پیک میں شمولیت سے ہی پورا ہوسکتا ہے‘‘کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں پاک بھارت تعلقات کے لیے قائداعظم، مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے بیانات کے حوالے دئیے گئے ہیں۔ سی پیک کو دو عظیم ایشیائی طاقتوں (چین، پاکستان) کا جیو اسٹرے ٹیجک اور جیو اکنامک منصوبہ قرار دیتے ہوئے تیسری عظیم طاقت (بھارت) کو اس میں شامل ہونے کا مشورہ دیا گیا۔ مضمون نگار لکھتی ہیںکہ سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کے بارے میں بھارت کی رائے آہستہ روی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہے،کچھ باشعور ہندوستانی سمجھنے لگے ہیں کہ سی پیک کس طرح پاکستان کے انفرااسٹرکچر کو جدیدیت کی طرف لے جارہا ہے اور پاکستان کس طرح ٹائیگر اکانومی کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسی طرح کئی سمجھ دار پاکستانی سی پیک میں بھارتی شمولیت کے فوائد کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس معاشی ترقی سے پاکستان چین پر اپنا انحصار کم کرسکتا ہے۔ مضمون نگار کے مطابق سی پیک میں بھارتی شمولیت چین، پاکستان اور بھارت تینوں کے لیے جیت ہی جیت کی صورتِ حال پیدا کرے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی سطحی مذاکرات ہوں۔ پاکستان اور بھارت کا تعاون دونوں کو ماضی کی قید سے آزاد کرکے تابناک مستقبل کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ ڈوکلام کی کشیدگی کے بعد چین اور بھارت مذاکرات بھی تعمیری سمت
میں گامزن ہیں۔ چین میں بھارت کے نو تعینات سفیر گوتم بمبا والا جو پاکستان میں بھی ہائی کمشنر کے طور پر کام کرچکے ہیں ’’سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ نامی اخبار کو انٹرویو کے دوران یہ واضح کرچکے ہیں کہ بھارت چین کے خلاف بننے والے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ بھارت چین کو تعمیر وترقی کے عمل میں حریف یا مقابل نہیں بلکہ ساجھے دار سمجھ رہا ہے۔ اس طرح بھارت نے چین کو گھیرنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد میں شامل نہ ہونے کا اشارہ دیا۔ سدھیندر کلکرنی نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں قریب بھی ہیں اور دور بھی!
چین کی طرف سے پاک بھارت معاملات میں ثالث اور سہولت کار کے طور پر داخل ہونے کے بعد یہ سوال اُٹھنا لازمی ہے کہ اس نئی کوشش میں مسئلہ کشمیر کہاں ہوگا؟ چین کی طرف سے اشاروں میں مسئلہ کشمیر پر ہانگ کانگ کے حوالے سے پچاس سال انتظار کرنے کی مثال دی جا چکی ہے، جس کا سیدھا مطلب مسئلے کو کچھ مدت کے فریز کرنا ہے۔ چین کے پاس ڈوکلام ماڈل بھی ہے اور ہانگ کانگ ماڈل بھی۔ یہ وہ تنازعات ہیں جن میں چین خود ایک فریق کے طور پر موجود رہا ہے۔ امریکہ نے پاک بھارت مفاہمت کی کوششوں کے دوران طویل المیعاد قسم کے ماڈل پیش کیے تھے جن میں فلسطین اور شمالی آئرلینڈ شامل تھے۔ گویاکہ مسئلے کو تاریخ اور تدریجی عمل کے حوالے کیا جائے۔ ڈوکلام چین اور بھارت کے درمیان سرحدی حد بندی کا تنازع ہے، اور ہانگ کانگ میں کوئی مقبول تحریکِ آزادی کبھی چلی ہی نہیں۔ یہ سیدھے سبھائو ایک علاقے پر بالادستی کا عمل تھا جس کے لیے چین نے پچاس سال صبر اور انتظار کیا۔ کشمیر پر چین کی سہولت کاری چین کی دوستی سے زیادہ پاکستان کی سفارت کاری کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوسکتی ہے۔