اولیاء اللہ کی سرزمین ملتان کے سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی اخبارات کی سنگل کالم خبر کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں واپس آگئے ہیں۔ انہوں نے اپنی واپسی کا یہ اعلان 11مئی کے تاریخی دن ملتان کے قلع قاسم باغ میں ایک جلسے کے دوران کیا۔ یہ بڑا جلسہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف اور ان کی سیاسی جانشین اور مالیاتی اسکینڈلوں میں ان کی شریک ملزم مریم نواز کے لیے ملتان کے لیگی کارکنوں نے سجایا تھا۔ یہ وہی کارکن تھے جنہیں چھوڑ چھاڑ کر جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے اور اُس وقت انہوں نے کلثوم نواز کی درخواست بھی رد کردی تھی، اور بعض راویوں کے مطابق اس موقع پر کلثوم نواز نے اپنا دوپٹہ جاوید ہاشمی کے پیروں میں ڈال دیا لیکن جنوبی پنجاب کے ایک روایتی اور مذہبی گھرانے کے سیاسی چشم و چراغ جاوید ہاشمی نے روشن سیاسی مستقبل کی امید پر اس کی بھی پروا نہیں کی تھی اور اگلے دن دسمبر 2011ء میں اسی طرح کراچی میں تحریک انصاف کے ایک جلسے میں عمران خان کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے ان کی جماعت میں شامل ہوئے تھے جس طرح انہوں نے اس بار مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں اس پارٹی میں واپسی کا اعلان کیا ہے۔ ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹنے، اہلِ اقتدار کے قریب رہنے مگر ہمیشہ عوامی یا اپوزیشن کی سیاست کرنے والے جاوید ہاشمی نے اس جلسے سے مختصر خطاب کیا۔ جو عملاًعذرِ گناہ، اور اعترافِ شکست تھا۔ مگر اخبارات اور چینلوں نے اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ چنانچہ دیگر اخبارات کی طرح اُس قومی اخبار نے بھی جو ازخود مسلم لیگ (ن) کا ترجمان بنا ہوا ہے اور جس نے جاوید ہاشمی کے لیے سینئر سیاست دان کا سابقہ اختیار کیا تھا، اس سینئر سیاست دان کی خبر سنگل کالم میں شائع کی۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی فوکس نوازشریف اور مریم نواز کی تقریروں پر رکھا۔ جاوید ہاشمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان نہیں کریں گے، کیوں کہ وہ تو ہیں ہی مسلم لیگی… محض چند لمحوں کے لیے اِدھر اُدھر ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی بھول رہے ہیں کہ وہ پورے 6سال اور پانچ ماہ اپنی اس جماعت سے دور رہے ہیں۔ اور اس دوران ایک مخالف سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر دو حلقوں سے نون لیگ کو ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ وہ آج نوازشریف کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نوازشریف میرے لیڈر ہیں، تھے اور رہیں گے۔ یہ بات ایک بار انہوں نے قومی اسمبلی میں بھی اُس وقت کہی تھی جب وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2013ء کی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ انہوں نے قلع قاسم باغ کے جلسے میں اس کا حوالہ بھی دیا کہ انہوں نے تو اسمبلی کے فلور پر بھی کہا تھا کہ نوازشریف ان کے لیڈر ہیں اور رہیں گے۔ مگر یہاں انہوں نے پوری بات نہیں بتائی کہ اس سے ان کی پوزیشن خراب ہوئی تھی۔ لیکن ملتان کے لوگ تو وہ بات نہیں بھولے کہ وہی تو اس کے عینی شاہد ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ قومی اسمبلی میں ایک جذباتی تقریر کے دوران تحریک انصاف میں ہوتے ہوئے جاوید ہاشمی نے یہ کہہ دیا تھا کہ نوازشریف آج بھی ان کے لیڈر ہیں، جس پر اسمبلی اور پارٹی دونوں کے اندر لے دے ہوئی۔ پارٹی کے اندر سے اُن کی توقع کے خلاف شدید ردعمل آیا اور پارٹی قیادت نے بھی اس کا نوٹس لیا، جس پر اگلے ہی دن جاوید ہاشمی نے ملتان میں پریس کانفرنس کرکے نہ صرف اپنے الفاظ واپس لیے بلکہ اسمبلی میں کہے گئے جملوں پر معذرت بھی کی تھی۔ یہ ایک ’’بہادر‘‘ آدمی کی کہانی ہے جو پارٹی کا دبائو چند گھنٹے بھی نہ سہہ سکا۔ شاید انہوں نے یہ بات سوچ سمجھ کر کی ہو، وہ پارٹی کے اندر اور مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں اس کا ردعمل دیکھنا چاہتے ہوں۔ مگر اتفاق سے تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں نے تو اس کی شدید مخالفت کی لیکن مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے خاموشی اختیار کرکے جاوید ہاشمی کو خاصا مایوس کیا تھا۔ انہیں مجبوراً معافی مانگنا پڑی تھی۔ ورنہ وہ نہ تو اس کے عادی تھے اور نہ اس کے لیے تیار۔ انہیں توقع بھی نہیں تھی کہ اس صورت حالسے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ جو بات وہ اسمبلی کے فلور پر نہ کہہ سکے یا مصلحتاً اسے اگلے وقت کے لیے اٹھا رکھا تھا، وہ بات انہوں نے
قلع قاسم باغ کے جلسے میں کہہ دی۔ ان کی یہ بات شاید نوازشریف کو بھی مشکل میں ڈال دے گی۔ جاوید ہاشمی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے یہ تک کہہ گئے کہ جس کی تین حکومتیں گرا دی گئیں، وہ عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہا ہے۔ ان کا اگلا جملہ واقعی بے مثال تھا کہ ایسا لیڈر تاریخ میں کبھی نہ دیکھا۔ جاوید ہاشمی نے بہت بڑی بات کردی ہے، یہ بات ان کے اپنے قد سے بھی زیادہ ہے اور نوازشریف کے قد سے بھی زیادہ۔ عام آدمی یہ سمجھے گا کہ وہ نوازشریف کا مذاق اڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ جملہ کہ تاریخ نے ایسا لیڈر کبھی نہیں دیکھا، گویا نوازشریف نہ صرف تاریخ کا منفرد کردار ہیں بلکہ آج تک کی انسانی تاریخ ان جیسا لیڈر نہیں دیکھ سکی۔ شاید جاوید ہاشمی یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ یہ تاریخ ہی کی نہیں اب تک دنیا میں آنے والے انسانوں کی بھی بدقسمتی ہے، خوش قسمتی کا یہ سنہرا موقع صرف اہلِ پاکستان کو مل سکا ہے۔ قارئین یاد رکھیں کہ گزشتہ دنوں ایک لیگی لیڈر نے نوازشریف کو نیلسن منڈیلا سے ملانے کی بات کی تھی جس پر ایک طوفان اٹھ مچ تھا، پھر ایک ٹی وی پروگرام میں ایک لیگی لیڈر نے نوازشریف کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دی تو پروگرام کے کئی شرکاء کھڑے ہوگئے اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ اینکر کو مداخلت کرکے وقفہ لینا پڑا۔ اب جاوید ہاشمی نے اس سے بھی بڑی بات کردی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر لوگ نیلسن منڈیلا اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نوازشریف کا نام سننے کے لیے تیار نہیں تو وہ انہیں تاریخ کا منفرد لیڈر کیسے مان لیں گے! جاوید ہاشمی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس کی تین حکومتیں گرا دی گئیں وہ عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہا ہے۔ جاوید ہاشمی تصحیح فرما لیں، نوازشریف عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں۔ انہیں اقتدار سے نکالے جانے کا دکھ ہے، واپسی کے لیے وہ عوام کی طاقت استعمال کرنا چاہتے ہیں، ورنہ ان غریب عوام کے لیے اپنے تینوں ادوار میں انہوں نے کچھ نہیں کیا، عام آدمی کو ان کی حکومت سے کوئی ریلیف نہیں ملا، اس کے دکھ ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوئے۔ انہوں
نے عوام کو تو جاتی امراء جانے والی سڑک سے آگے کبھی آنے نہیں دیا۔ عوام کے منتخب نمائندے بھی وزیراعظم آفس، وزیراعظم ہائوس، پی ایم ایل این سیکریٹریٹ اور جاتی امراء میں گھنٹوں خوار ہوکر بھی چند منٹ کی ملاقات نہیں کرسکتے تھے۔ نوازشریف، ان کا خاندان اور پارٹی تینوں نہ ووٹ کو عزت دیتے ہیں اور نہ ووٹر کو۔ یہی کیس تو تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد جاوید ہاشمی آگے بڑھاتے رہے ہیں، ساتھ ہی کرپشن کا الزام بھی اتنی شد و مد سے لگایا ہے کہ شاید اب خود سوچتے ہوں گے۔ جاوید ہاشمی نے سب سے اہم یہ بات کی ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی ہے کہ مرنے کے بعد انہیں (جاوید ہاشمی کو) مسلم لیگ کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ جاوید ہاشمی کو لمبی زندگی دے لیکن موت ایک حقیقت ہے اور ہر آدمی کو اُس کی خواہش کے مطابق دفنائے جانے کا حق بھی حاصل ہے، لیکن جاوید ہاشمی ذرا غور کرلیں، وہ ماضی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پرچم میں لپیٹے جانے کی خواہش کرتے تھے، پھر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو اس کے پرچم میں لپٹ کر دفن ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ صدر ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہوئے تو وہاں بھی اس خواہش کا اظہار کیا، پھر جونیجو مسلم لیگ کے لیے تو وہ لڑنے مرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں وہ اب تک کہتے ہیں کہ وہ ہیں ہی مسلم لیگی۔ تحریک انصاف کے پرچم میں لپیٹ کر دفنائے جانے کی وصیت انہوں نے تحریک انصاف کے کسی لیڈر کو ضرور کی ہوگی۔ اس لیے ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں لمبی زندگی دے لیکن ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ جب یہ مرحلہ آئے تو ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ جمعیت کا پرچم لیے کھڑے ہوں، دوسری جانب رحمت اللہ وردگ یا منظور گیلانی تحریک استقلال کے پرچم کی شکنیں دور کررہے ہوں، جناب اعجازالحق اپنی پارٹی کا پرچم لیے منتظر ہوں، فضہ جونیجو یا اسلم جونیجو مسلم لیگ جونیجو کے پرچم کے ساتھ انتظار میں ہوں، تحریک انصاف والے اپنے پرچم کے ساتھ نعرے لگا رہے ہوں، اور نوازشریف آصف کرمانی کے ہاتھ مسلم لیگ (ن) کا پرچم بھیج کر ٹی وی پر بیٹھے اس خبر کا انتظار کررہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی زندگی دے، لیکن لگتا یہ ہے کہ اب ان کے سیاسی اقدامات مٹی خراب کرنے والے اقدامات ہیں، اور انہیں غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ 2018ء کا انتخاب اپنے حلقہ این اے 149 سے نہ جیت سکے تو شاید انہیں اپنی وصیت جماعت اسلامی کو کرنا پڑ جائے۔