متعدد سیاستدانوں پر ناہلی کی تلوار لٹکتی نظر آرہی ہے

فرائیڈے اسپیشل: آپ بین الاقوامی قانون کے ماہر ہیں، اور عالمی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی قانونی حیثیت اور حساسیت سے بھی واقف ہیں، یہ فرمائیں کہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے، اور بھارت کے رویّے پر پاکستان کو اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے اپنا مقدمہ کیسے اور کن دلائل کے ساتھ پیش کرنا چاہیے؟
قوسین فیصل مفتی: کشمیر برصغیر کی تقسیم کا تصفیہ طلب مسئلہ ہے، اور اقوام متحدہ اس کا ضامن ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کا کیس یہ ہے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کوئی فرق نہیں ہے، کشمیری عوام نے کبھی اپنے ان مطالبات کے حوالے سے کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اپنی مرضی کے مطابق بنیادی حق کے ساتھ زندگی بسر کرنا اُن کا کھلا، واضح اور شفاف حق ہے۔ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق کشمیری عوام کے اس حق کو جائز سمجھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد تلخ ہوتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں اب تک لاکھوں کشمیری مسلمان شہید اور زخمی ہوچکے ہیں، اور ایسے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں تازہ ترین واقعات میں قابض بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے ایک درجن کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ مسلمان ملکوں کی عالمی تنظیم او، آئی، سی نے بھارتی سیکورٹی فورسز کے بہیمانہ مظالم کو انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی قرار دیا اور مذمتی قرارداد بھی منظور کی ہے، لیکن سیاسی لحاظ سے اُس قوت کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا جو اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی فورم کو مجبور کرسکے۔ یہ محاورہ بالکل درست ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، بھارت دو طرح کے قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، پہلا یہ کہ کشمیری عوام کے لیے رائے شماری کا کوئی انتظام نہیں کررہا، دوسرا یہ کہ گھروں میں سرچ آپریشن اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزی ہے، بھارتی فوج پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کا خون پانی کی طرح بہانا شروع کردیا ہے اور مختلف علاقوں میں 20 نوجوانوں کو ریاستی طاقت کے استعمال سے ابدی نیند سلادیا ہے، اور اب انکشاف ہوا ہے کہ پیلٹ گن اور دیگر ہتھیاروں کے بعد اب بھارت نے مقبوضہ وادی میں اسرائیل ساختہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا ہے جو گھروں کو سیکنڈوں میں جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سفارت خانے خاموشی کی دوا پی کر سو رہے ہیں، آرام فرما رہے ہیں۔ بھارت کو سفارتی محاذ پر پاکستان کی جانب سے انتہائی کمزور مزاحمت مل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ دیدہ دلیری دکھا رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا کیمیائی ہتھیاروں کا معاملہ عالمی عدالتِ انصاف کے لیے ایک مکمل کیس نہیں ہے؟
قوسین فیصل مفتی: عالمی عدالتِ انصاف کے کچھ ضوابط ہیں، قوانین، قواعد اور اصول ہیں جن کی پیروی اس عدالت سے رجوع کرنے کے لیے کرنا پڑتی ہے، یہ انسانی اور سیاسی معاملہ ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے ہے، اور بنیادی حق کا معاملہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے اندر ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان جس طرح دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے، یہ تینوں طرز کی حمایت زمینی حقائق کے ساتھ نظر بھی آنی چاہیے۔ ہر حکومت یہ دعویٰ تو کرتی ہے لیکن عملاً کسی بھی عالمی فورم پر بات اٹھاتے ہوئے مصلحت کا شکار بھی ہوتی ہے۔ پاکستان تو کشمیری عوام کا وکیل ہے، کوئی وکیل اپنے مؤکل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے شرماتا اور گھبراتا نہیں ہے، پاکستان کی حکومت کو بھی یہی طرزِعمل اختیار کرنا ہوگا، اور مصلحت چھوڑنا ہوگی۔ ہونا یہ چاہیے کہ عالمی اور مؤثر تنظیمیں بھی بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور مقبوضہ کشمیر میں جائزہ رپورٹیں تیار کرنے کے لیے وفود بھیجیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف فلسطین اور دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں ایسے ایسے مظالم ہورہے ہیں جن کی پہلے کہیں مثال نہیں ملتی۔ سب سے بھاری اور بنیادی ذمے داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود ایک درخواست لے کر سلامتی کونسل میں گئے تھے اور اقوام عالم کے روبرو وعدہ کیا تھا کہ بہت جلدکشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے گا۔ بعد میں بھارتی حکمران ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے آخرکار کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے لگے۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں جب نہتے کشمیریوں نے تحریکِ آزادی کا آغاز کیا تو اسے دبانے کے لیے بہیمانہ مظالم شروع کردیئے گئے۔ دو سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد نئے انداز میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا ہے کہ پوری وادی میں مسلسل احتجاج اور ہڑتالیں جاری ہیں، غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے، حریت قیادت کو نظربند رکھا جارہا ہے، پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے احتجاج کرنے والوں کو اندھا کیا جارہا ہے، اور شہید ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بہت بڑی تعداد زخمیوں کی بھی ہے۔ لیکن کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں۔ تمام تر مظالم کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر کئی سیاسی رہنماؤں، سابق فوجی اور پولیس افسروں نے بھارتی حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنا بہتر ہوگا، کشمیری اب تحریک آزادی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ مودی سرکار نے ایسے تمام مشوروں کو نظرانداز کررکھا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر بھارتی سیکورٹی فورسز کے بہیمانہ مظالم کے خلاف سفارتی مہم کے ذریعے آواز بلند کی جائے۔ خصوصاً اقوام متحدہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی جانب پیش قدمی ہورہی ہے اور نوازشریف نااہل قرار پائے ہیں، ان کے بعد خواجہ آصف اس قانون کی زد میں آئے ہیں۔ یہ فرمائیں اس کیس کے فیصلے کی نوازشریف کیس کے ساتھ کیا مماثلت ہے؟
قوسین فیصل مفتی: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف کو بھی اقامہ اور دبئی کی ایک نجی فرم میں ملازمت کا معاملہ کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کی بنا پر نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان ہی بنیادوں پر سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کو سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے۔ وزیرداخلہ احسن اقبال کی سعودی عرب کے اقامہ اور وہاں ملازمت کی بنا پر نااہلی کے لیے ابرارالحق عدلیہ سے رجوع کرنے والے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: قانون کیا کہتا ہے؟
قوسین فیصل مفتی: قانون بہت واضح ہے۔ پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ نے جو معیار مقرر کردیا ہے اُس کے بعد اثاثے چھپانے والے سیاست دانوں کی جان چھوٹتی نظر نہیں آرہی، اگرچہ شیخ رشید نااہلی کیس میں سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاناما لیکس کیس میں مقرر کیے گئے انصاف کے معیار کو سخت قرار دے چکے ہیں۔ خواجہ آصف کیس میں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کی فاضل بینچ نے قرار دیا ہے کہ وہ بوجھل دل کے ساتھ یہ فیصلہ دے رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم اور پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے تو نہ صرف احسن اقبال بلکہ شیخ رشید کے لیے بھی مشکل گھڑی آسکتی ہے۔آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں ارکانِ اسمبلی کی اہلیت اور نااہلیت کے لیے جو شرائط مقرر کی گئی ہیں ان پر عدالتیں اسی طرح عمل درآمد کرواتی ہیں جس طرح پاناما لیکس کیس میں کروایا گیا ہے تو متعدد سیاست دانوں کے سر پر نااہلی کی تلوار مستقبل میں بھی لٹکتی نظر آرہی ہے جب تک کہ ان آرٹیکلز میں مناسب ترامیم نہیں کرلی جاتیں۔1973ء کے آئین کو بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں انتخابی عمل کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ انتخابی تنازعات کو عدالتوں میں لے جانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، عدالتوں نے اپنے آئینی اختیارات کی اس طرح تشریح کررکھی ہے کہ رٹ اور آئینی درخواستوں کے ذریعے بھی ارکانِ اسمبلی اور عوامی عہدیداروں کی اہلیت کا سوال اعلیٰ عدالتوں میں اٹھایا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا ہونا چاہیے؟
قوسین فیصل مفتی: جہاں تک آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا سوال ہے، اس میں ترمیم سپریم کورٹ کی طرف سے قرار دیئے گئے بنیادی آئینی ڈھانچے سے بادی النظر میں متصادم نہیں ہے، چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 5 رکنی بینچ نے تاحیات نااہلی کیس کے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دے رکھا ہے کہ آرٹیکل 62(1)ایف کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں پر ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں فاضل بینچ نے اس آرٹیکل کو آئین کے بنیادی اسلامی ڈھانچے میں شامل نہیں کیا ہے، اب پارلیمنٹ کو اس آرٹیکل میں ترمیم یا اسے منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اگرمزید احتیاط مقصود ہو تو اس آرٹیکل میں صادق اور امین کی شرط کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایسی ترمیم عمل میں لائی جاسکتی ہے
فرائیڈے اسپیشل: اس سے کیا ہوگا؟
قوسین فیصل مفتی: انہیں کسی عدالت نے آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار نہیں دیا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ جس آئینی آرٹیکل کو سپریم کورٹ یا دیگر اعلیٰ عدالتیں جائز قرار دے چکی ہوں اسے منسوخ یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف مقدمات میں سپریم کورٹ نے صدر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اختیار سے متعلق آئین کے آرٹیکل 58(2)بی کو سیفٹی والو قرار دیا تھا، اس کے باوجود پارلیمنٹ نے اس آرٹیکل کو منسوخ کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے سابقہ فیصلوں کو نظرانداز کردے اور زیرسماعت مقدمے کا حالات وواقعات کی روشنی میں ایسا فیصلہ جاری کردے جو ماضی کے فیصلوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ فوجی عدالتوں کے کیس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو قبول کرنے سے انکار کرچکے ہیں، اور قرار دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کو ہر قسم کی آئینی ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔ پارٹی صدارت کیس میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بینچ نے آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں کیا تھا بلکہ آئین اور قانون کے متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح کرکے قرار دیا تھا کہ اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔