بانگِ درا کی نئی تشریح

پچھلے شمارے میں ’اسم قاعل‘ اسم فائل ہوگیا۔ چلیے، وہ جو سرکاری دفاتر میں فائل چلتے ہیں ان پر بھی کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے۔ مُنقاد نہ سہی، انقیاد نوراللغات میں موجود ہے اور اس حوالے سے ایک شعر بھی ہے:
سر جھکائے کیوں نہ پیش تیغ ناز
انقیاد امر واجب تھا ہمیں
امر سے یاد آیا کہ مامور کا مصدر بھی امر ہے اور آمر بھی امر سے ہے۔ لغوی معنیٰ میں ’آمر‘ کوئی بُرا لفظ نہیں بلکہ حکم کرنے والا ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اردو میں ’آمر‘ ڈکٹیٹر کے معنوں میں لیا جاتا ہے اور پاکستان میں ایسے کئی گزر چکے ہیں، آگے کی اللہ جانے۔ آمر اور مامور اس لیے یاد آگیا کہ گزشتہ دنوں حیدرآباد سے ایک قاری کا فون آیا کہ آپ کو ’مامور‘ اور ’معمور‘ کا فرق نہیں معلوم۔ ہم غنودگی میں تھے اس لیے پوری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مشورہ دیا گیا کہ آج (12مئی) کے اخبار میں صفحہ 6 (حیدرآباد) دیکھ لیں۔ سرخی تھی ’’وزیر داخلہ کی سیکورٹی پر معمور اہلکار‘‘۔ ممکن ہے یہ اہلکار معمور یعنی بھرے ہوئے ہوں کہ آخر وزیر داخلہ کی حفاظت کررہے تھے۔ صحافیوں کی اردو جس تیزی سے زوال پذیر ہے اس پر اپنا نہیں دوسروں کا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اور یہ صحافی ایم اے، بی اے ہوتے ہیں، ناخواندہ نہیں۔ کبھی کبھی ایسے لوگوں سے ہم پوچھ لیتے ہیں کہ جس اسکول، کالج سے پڑھ کر نکلے ہو اُس کا نام تو بتائو۔ گوکہ خوب اندازہ ہے کہ نام معلوم ہونے پر بھی ہم کیا کرلیں گے، اساتذہ ہی سے واسطہ پڑے گا۔
اس واقعہ کے راوی کراچی کے ایک بڑے ادیب اور شاعر ہیں کہ وہ جب کوئٹہ گئے تو ایک پی ایچ ڈی استاد سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے لیے علامہ اقبالؒ کو تختۂ مشق بنایا اور سند حاصل کرلی۔ ہمارے راوی نے اُن صاحب سے پوچھ لیا کہ آپ نے اقبال پر کام کیا ہے، کیا بانگِ درا پڑھی ہے؟ اثبات میں جواب ملنے پر پوچھا کہ ’’بانگ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے بڑے تیقن سے بتایا کہ ہمارے علاقے میں تو اذان کو کہتے ہیں۔ اور درا کا مطلب؟ جواب ملا ’’درا بڑے در کو کہتے ہیں‘‘۔ ویسے اذان کو بانگ تو پنجاب میں بھی کہتے ہیں اور ممکن ہے سندھ میں بھی کہا جاتا ہو۔ مرغے کی بلند آواز کو بھی بانگ کہتے ہیں کہ وہ بھی اذان دیتا ہے۔ پہلے مرغے کی بانگ طلوعِ صبح کی علامت ہوتی تھی مگر ہمارا مشاہدہ ہے کہ اب بے وقت بھی مرغے بانگ دیتے ہیں۔ جیسے بے وقت کی راگنی ہوتی ہے، ویسے ہی شاید مرغے کی بانگ بھی ہوتی ہو۔ گائوں کی ایک بڑی بی تو ناراض ہوکر اپنا مرغا بغل میں داب کر گائوں سے جارہی تھیں کہ جب مرغا بانگ نہیں دے گا تو سب پڑے سوتے رہو گے۔ بہرحال بانگِ درا کی یہ تشریح کرنے والے پی ایچ ڈی ہوگئے۔ درا کا مطلب ’’جرس‘‘ ہے جیسے اقبال کا مصرع ہے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
لغت کے مطابق ’دِرا‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’’د‘‘ کے نیچے زیر ہے یعنی صحیح بکسر اول ہے۔ اور اگر دال پر زبر ہو تو اس کا مطلب وہی ہے جو پی ایچ ڈی استاد نے بتایا۔ اردو مرکبات میں درا بمعنی دروازہ مستعمل ہے جیسے ایک درا، سہ درا وغیرہ۔ تو ہمارے ممدوح اتنے بھی غلط نہیں تھے، لیکن اقبال کے بانگ درا کا مطلب دروازے کی اذان نہیں ہے۔
ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور برقی ذرائع ابلاغ تلفظ کے پیچھے لٹھ لیے بغیر پڑے ہوئے ہیں۔ منگل 15 مئی کے ایک کثیر الاشتہار اخبار نے اسرائیل کے حوالے سے تین کالمی سرخی کے ذیل میں لکھا ہے ’’حماس کا انتفادہ کا اعلان‘‘۔ سرخی نکالنے والے نے اس پر غور بھی نہیں کیا ہوگا کہ انتفادہ کیا ہے۔ اصل میں تو یہ ’’انتفاضہ‘‘ ہے۔ عرب ’’ض‘‘ کا تلفظ بھی ’’د‘‘ کی طرح کرتے ہیں۔ خود ہم بھی سورہ فاتحہ میں ضالّین کا تلفظ ذالین کرتے اور ’ض‘ اور ’دواد‘ پڑھتے ہیں۔ عربی تلفظ کا اظہار انگریزی میں DH سے کیا جاتا ہے اور ہم لوگ اسے دواد سے بدل دیتے ہیں اور یوں انتفاضہ، انتفادہ ہوجاتا ہے۔ انتفاضہ کی تحریک تو کئی عشروں سے چل رہی ہے، اب تک اصلاح ہوجانی چاہیے تھی۔ لیکن ممکن ہے کسی نئے نئے صحافی نے سرخی نکالی ہو۔
اخبارات میں فلسطینیوں کے یوم نکبہ کا بہت ذکر ہے۔ یہ لفظ نکبت ہے یعنی فلاکت، مفلسی، تباہی۔ فلسطینی اس دن کی یاد مناتے ہیں جب اسرائیل نے ان پر فلاکت مسلط کی۔
تلفظ کے حوالے سے ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھاکہ ’’شکوہ اور شکوہ‘‘ دونوں ایک طرح لکھے جاتے ہیں لیکن ان کا تلفظ اور معانی مختلف ہیں۔
شِکوہ (شِک وہ) بمعنی شکایت، بروزن دعویٰ۔ یہ فارسی کا لفظ ہے۔ عربی میں شکویٰ ہے اور ’ش‘ پر زبر ہے۔ شکوہ میں ’ہ‘ کا اضافہ اہلِ فارس نے کیا ہے۔ شکوہ بمعنی دبدبہ، شان۔ اس میں پہلے اور دوسرے حرف پر پیش ہے یعنی شُکُوہ۔ یہ بھی فارسی کا لفظ ہے۔میر انیس کا شعر ہے:
ہر جا فرس شُکوہ دکھاتا تھا طور کی
بجلی قدم قدم پہ چمکتی تھی نور کی
ہم کئی بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ ’’سب سے بہترین‘‘ کی ترکیب غلط ہے، صرف بہترین کہنا یا لکھنا کافی ہے۔ اسی بات کو رشید حسن خان نے مزید واضح کیا ہے اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’بہتر اسم صفت ہے، یہ مرکب لفظ ہے اور ’بِہہ‘ اور ’تر‘ سے مل کر بنا ہے۔ ’بہہ‘ کے معنی ہیں اچھا۔ ’تر‘ کے معنی ہیں زیادہ۔ اس طرح بہتر کے معنی ہوئے زیادہ اچھا یا بہت اچھا۔ جب کسی اسم کے ساتھ ’’بہتر‘‘ لایا جائے تو پھر اس کے ساتھ ’’زیادہ‘‘ جیسے لفظ نہ لکھے جائیں۔ مثلاً یہ جملہ کہ ’’زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔‘‘ اس جملے میں زیادہ کی ضرورت نہیں، یوں کہ بہتر کے معنی ہیں زیادہ اچھا۔ بہتر کے ساتھ بہت لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ لغت کے مطابق بِہ فارسی کا لفظ ہے۔ (بکسر اول و ہائے معلقہ)
ایک شعر میں اس کا استعمال دیکھیے:
بھلا ہے یا برا جو کچھ کہ ہے تیری عنایت ہے
ہمیں بجلی کا گرنا بھی بہ از بارانِ رحمت ہے
ہندی میں بھی ایک لفظ ’بِہ‘ ہے (بکسراول) اور مطلب ہے عورتوں کے کان یا ناک کا سوراخ جس میں زیور پہنتی ہیں۔ موتی کا سوراخ۔ اس کا اردو میں استعمال نہیں ہے۔
ایک محفل میں کسی نے ’’ترکی تمام ہوگئی‘‘ کی ضرب المثل استعمال کی تو کچھ لوگ اس کا مطلب پوچھنے لگے کہ کیا یہ ترکی کی حدود یا خلافتِ عثمانیہ ختم ہونے سے متعلق ہے؟ ہماری بھی ترکی تمام تھی البتہ یہ معلوم تھا کہ فارسی محاورے ’’ترکی تمام شدہ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ چنانچہ لغت سے رجوع لائے۔ اس کا ایک مطلب تو سامنے کا ہے یعنی ترکوں کی بولی۔ مزید ایک قسم کا گھوڑا (ترکی و تازی سنا ہوگا)۔ بطور صفت سپاہی پن، مردانگی، غرور، نخوت وغیرہ۔ ترکی تمام کرنا، جیسے امیر کا شعر ہے:
نگہِ ناز کام کرتی ہے
دم میں ترکی تمام کرتی ہے
ترکی تمام ہونے کا مطلب ہے گھمنڈ جاتا رہنا، غرور ڈہنا(غرو کو نوراللغات کے مرتب نے ڈھایا ہے)غرور ڈہنا سے زیادہ عام فہم ہے گھمنڈ نکلنا، خاتمہ ہونا، کچھ باقی نہ رہنا، ساری بہادری و سپاہ گری نکل جانا۔ امیر ہی کا شعر ہے:
اے ترک تُو بھی اب نہ کرے گا کسی کو قتل
میں کیا تمام ہوں تری ترکی تمام ہے
ترکی بہ ترکی جواب دینا بھی ایک محاورہ ہے جیسے ترکی کے صدر اردوان نے دیا ہے، اور امیر خسرو کے شعر کا یہ مصرع تو بہت مشہور ہے کہ ’’زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘۔ ہماری ترکی یہیں تمام ہوئی۔