القدس، اسرائیل کا دارالحکومت؟

دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود انتہا پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر اعلان کردہ اپنے فیصلے پر گزشتہ پیر 14 مئی کو عمل درآمد کردیا اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل ہوگیا۔ اس ضمن میں منعقدہ تقریب میں امریکی صدر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی، جب کہ ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کونز، امریکی وزیر خزانہ اور نائب وزیر خارجہ نے بھی اس تقریب میں شرکت کرکے اسرائیل کے ہر قسم کے جارحانہ اور غاصبانہ اقدامات کے لیے بھرپور امریکی تائید و حمایت کا اظہار کیا۔ خود صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے دن کو اسرائیل کے لیے ’’بڑا دن‘‘ قرار دیا ہے، جب کہ ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے یہ مضحکہ خیز بات کہی کہ ہم مشرق وسطیٰ میں امن کے عزم پر قائم ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امن کس طرح قائم کیا جارہا ہے اس کی ایک جھلک اُس وقت دیکھنے میں آئی جب سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کے خلاف احتجاج کرنے والے پُرامن مظاہرین پر غاصب اسرائیلی فوج نے سیدھی گولیاں برسانا شروع کردیں۔ اس براہِ راست فائرنگ کے نتیجے میں ننھے منے معصوم بچوں سمیت 62 فلسطینی شہید اور تین ہزار سے زائد زخمی ہوگئے۔ منگل کے روز ان شہیدوں کو سپردِ خاک کردیا گیا اور فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس ظلم کے خلاف تین دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ جی ہاں سوگ… کاش کوئی اس خون کا بدلہ لینے کا اعلان بھی کرتا۔ اے کاش…!!!
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے برطانوی دارالحکومت لندن میں تقریر کرتے ہوئے اس ظلم کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے، وہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کررہا ہے، اس کی فوج نے غزہ میں نہتے فلسطینی مظاہرین کا قتلِ عام کیا ہے۔ عالمی برادری صہیونی ریاست کے مجرمانہ طرزِعمل کا فوری نوٹس لے۔ ترکی نے احتجاجاً اسرائیل اور امریکہ سے اپنے سفیر بھی واپس بلا لیے ہیں، جنوبی افریقہ نے بھی تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔ باقی کسی ملک کو اس قدر توفیق بھی نصیب نہیں ہوئی۔ کویت نے اس قتلِ عام پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی مگر امریکہ نے اس کی اجازت بھی نہیں دی۔ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا خون کس قدر ارزاں قرار دے دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلامتی کونسل نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل کی تحقیقات کرانے کے لیے کہا تو امریکہ اس درخواست کے بھی آڑے آگیا اور محض تحقیقات بھی نہیں ہونے دیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے نہتے فلسطینیوں پر براہِ راست فائرنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مگر یہ تو انسانی حقوق کی بات ہے، جب کہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے تو مسلمان تھے جو بلاشبہ آج انسان کے درجے سے کہیں نیچے گر چکے ہیں کہ ترقی یافتہ کہلانے والی دنیا جانوروں کے حقوق کو نقصان پہنچنے پر تو صدائے احتجاج بلند کرتی ہے مگر مسلمانوں کا دنیا بھر میں بہتا ہوا خون احتجاج اور تحقیقات کا مستحق بھی نہیں ٹھیرتا۔ کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان، بھارت، برما اور نہ جانے کہاں کہاں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے مگر ’’مہذب دنیا‘‘ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کاش فلسطین میں موت کے منہ میں جانے والے 62 افراد امریکی شہری یا یہودی ہوتے… پھر جو کہرام برپا ہوتا اسے پوری دنیا دیکھتی… لیکن حقیقت اور صداقت یہی ہے کہ خونِ مسلم کی اس ارزانی کا اصل ذمے دار کوئی اور نہیں خود مسلمان ممالک کے حکمران ہیں، جو اپنے عیش و عشرت اور ذاتی مفادات میں اس قدر مگن ہیں کہ امت کے اجتماعی مفاد کو فراموش کردیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل کے اشارے پراسلام، عالم اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف ’’اعلان جنگ‘‘ کردیا ہے۔ لیکن امت مسلم منتشر ہے۔ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر امریکا، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی غلام بنی ہوئی ہے۔ باہم برسرپیکار مسلم حکمران اپنا فرض کب ادا کریں گے۔