روزے کے بے شمار اخلاقی و روحانی فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انسان میں ضبطِ نفس کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ضبطِ نفس کا مطلب سمجھ لیں، پھر یہ معلوم کریں کہ اسلام کس قسم کا ضبطِ نفس چاہتا ہے، اور اس کے بعد یہ دیکھیں کہ روزہ کس طرح یہ طاقت پیدا کرتا ہے۔ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو، اور نفس کی خواہش و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہوکر رہیں۔ انسان کے وجود میں خودی کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمران کا مقام ہواکرتا ہے۔ جسم اور اس کے اعضاء خودی کے آلہ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کے لیے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طور پر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رد کردے۔ اگر کوئی خودی اتنی کمزور ہو کہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشاء کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کے لیے نفس کی خواہشیں مطالبات اور احکامات کا درجہ رکھتی ہوں تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔ اس کی مثال اُس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آگیا ہو۔ ایسے کمزور انسان دنیا میں کسی قسم کی بھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ تاریخِ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بناکر رکھا ہے، جو خواہشاتِ نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں، جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔
پروفیسررشید احمد انگوی
جنت تیری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
گزشتہ دو اشعار سے ملاکر اسے پڑھیے کہ روح زمین انسان سے خطاب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے خاکی انسان تو جنت سے زمین پر تو آگیا مگر اب وہاں واپسی کے لیے تجھے بہت سخت محنت اور جد وجہد کرنا ہوگی اس جہد مسلسل میں جب تو اپنی خودی کو پہچانتے ہوئے اپن رب کی رضا کی جد وجہد کرے گا تو تیرا رب تم پر اپنا فضل فرماتے ہوئے تجھے جنت کا مستحق قرار دے گا۔ قرآن میں اعلان فرمایا گیا کہ لیس للاانسان الا ماسعیٰ(انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے حصول کے لیے وہ کوشش کرے گا۔) یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ انسان اپنی خودی پہچان کر اپنے رب کی بندگی کا راستہ اپناتے ہوئے اس کے حضور پیش ہوجائے اور مالک کی رضا سے جنت کا مستحق قرار پائے اس انجام کو قرآن کی زبان میں ’’فوزِ عظیم‘‘ یعنی عظیم کامیابی قرار دیا گیا ہے۔
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتحِ باب
یہاں عشق کا لفظ قرآن پاک کے اس بیان کے معنی میں آیا ہے کہ ’’اشد حباً ﷲ‘‘ یعنی بندۂ مؤمن کی محبت سب سے بڑھ کر اﷲ سے ہوتی ہے اور شعر و ادب میں اسے عشق حقیقی کہاجاتا ہے کہ جب توحید کی حقیقت پر پختہ ایمان اور یقین کامل نصیب ہوتا ہے تو کائنات ارضی و سماوی میں ہر چیز پر اﷲ کی ذات و صفات کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے اور اﷲ کریم کا نام ہر مشکل مسئلے کے حل کی کلید بن جاتا ہے۔