بھارت کا خوفناک باطن اور ہولناک ظاہر

بھارت کی عالمی ساکھ دو چیزوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ بھارت کی فلمیں اور بھارت کی جمہوریت۔ بھارت کی اکثر فلمیں رومانس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان میں رنگ ہوتے ہیں، روشنی ہوتی ہے، گیت ہوتے ہیں، موسیقی ہوتی ہے۔ یہ فلمیں بتاتی ہیں کہ بھارت سرزمینِ محبت ہے، وہ قدیم ہوکر بھی جدید ہے اور جدید ہوکر بھی قدیم ہے۔ بھارت کی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس جمہوریت میں کہیں فوجی مداخلت کا رخنہ نہیں ہے۔ لیکن بھارت کی فلمیں بھارت کا ایسا امیج ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ رہی بھارت کی جمہوریت، تو اسے موروثیت جیسے سرطان، فرقہ پرستی جیسی ٹی بی اور بدعنوانی جیسی ذیابیطس لاحق ہے۔ بھارت اپنی فلموں کے ذریعے اپنی جو ساکھ یا اپنا جو امیج تخلیق کرتا ہے اس کا بہترین مظہر بھارت کی فلم پورب، پچھم (مشرق و مغرب) کا ایک گیت ہے۔ اس گیت کے بول یہ ہیں:

ہے پریت جہاں کی ریت سدا
میں گیت وہاں کے گاتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
٭
کالے گورے کا بھید نہیں
ہر دل سے ہمارا ناتا ہے
کچھ اور نہ آتا ہو ہم کو
ہمیں پیار جتانا آتا ہے
جسے مان چکی ساری دنیا
میں بات وہی دہراتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
٭
اتنی ممتا ندیوں کو بھی
جہاں ماتا کہہ کے بلاتے ہیں
اتنا آدر (عزت) انسان تو کیا
پتھر بھی پوجے جاتے ہیں
اس دھرتی پہ میں نے جنم لیا
یہ سوچ کے میں اتراتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں
٭
جیتے ہیں کسی نے دیش تو کیا
ہم نے تو دلوں کو جیتا ہے
جہاں رام ابھی تک ہے نَر (مرد) میں
ناری (عورت) میں ابھی تک سیتا ہے
اتنے پاون (مقدس) ہیں لوگ یہاں
میں نِت نِت (جگہ جگہ) شیش (سر) جھکاتا ہوں
بھارت کا رہنے والا ہوں
بھارت کی بات سناتا ہوں

یہ گیت 1970ء میں لکھا گیا، اور اس گیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت نے اپنی فلموں کے ذریعے 20 ویں اور 21 ویں صدی کے کتنے بڑے بڑے دھوکے تخلیق کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے بھارت کی ’’فلمی حقیقت‘‘ کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرما لیں۔ اب آپ بھارت کی ’’اصل حقیقت‘‘ کی چند جھلکیاں ’’نوش‘‘ فرمائیے۔
بھارت کی فلم کا گیت دعویٰ کرتا ہے کہ بھارت کی ریت یعنی بھارت کی روایت ’’پریت‘‘ یعنی ’’محبت‘‘ ہے، چنانچہ بھارت کا رہنے والا بھارت کی ’’بات‘‘ سنانے پر مجبور ہے۔ بھارت کے فلمی گیت کے مطابق بھارت میں اتنی ’’ممتا‘‘ پائی جاتی ہے کہ ندیوں کو بھی ’’ماں‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے جیسے ’’گنگا ماتا‘‘، اور بھارت میں اتنا ’’احترام‘‘ موجود ہے کہ پتھروں کو بھی پوجا جاتا ہے۔ بھارت کے فلمی گیت کے مطابق بھارت میں آج بھی مردوں میں رام اور عورتوں میں سیتا کی جھلک ملتی ہے۔ لیکن اتنے ’’عظیم بھارت‘‘ میں کیا ہورہا ہے، آیئے دیکھتے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی حال ہی میں برطانیہ کے دورے پر پہنچے تو وہاں اُن کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ اس موقع پر برطانیہ کے ممتاز اخبار Guardian میں بھارتی نژاد صحافی اور دانش ور امرت ولسن نے India is a republic of fear کے نام سے ایک مضمون تحریر کیا۔ اس مضمون میں امرت ولسن نے بتایا کہ ہندوتوا کے نظریے کے خالق ونایک دامودر ساواکر نے لکھا ہے:
’’مسلمان عورت کی عصمت دری یا Rape جائز یا Justifiable ہے اور جو ہندو مسلمان عورت کو Rape نہیں کرتا وہ پرہیزگار یا بہادر نہیں بلکہ بزدل ہے۔‘‘ (Guardian-18 April 2018)
اتفاق سے امرت ولسن نے پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کو انٹرویو بھی دیا۔ اس انٹرویو میں بھارت کی ’’محبت‘‘ اور ’’ممتا‘‘ اور ’’دل جیتنے کی صلاحیت‘‘ کا ایک اور ہولناک مظہر سامنے آیا۔ امرت ولسن نے کہا:
’’دو سال پہلے یوپی میں بی جے پی کا ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس میں بی جے پی کے ایک رہنما نے کہا کہ مسلم عورتوں کو Rape کرنا چاہیے۔ اس نے دفنائی گئی مسلم عورت کے بارے میں کہا کہ اسے قبر سے نکال کر اس کا Rapeکرنا چاہیے۔ اجلاس کی صدارت یو پی کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ نارتھ کررہے تھے۔ انہوں نے یہ سب کچھ سنا اور خاموش رہے۔‘‘ (The News, Karachi- Page-2- April 24-2018)
امرت ولسن نے دی نیوز کراچی کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’’بھارت میں خواتین پر ہمیشہ ہی حملے ہوتے رہے ہیں، مگر مودی کی حکومت میں ایک نیا فنامنا تخلیق ہوا ہے، اور وہ یہ کہ عورتوں کی عزت لوٹنے والے عزت لوٹنے کا ’’جشن‘‘ مناتے ہیں اور اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ عصمت دری پہلے بھی ہوتی تھی مگر اس کا ’’جشن‘‘ نہیں منایا جاتا تھا۔‘‘
(The News-24 April-2018)
امرت ولسن نے برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ میں ایک اور ہولناک انکشاف کیا۔ انہوں نے گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں بھارت کی اسکالر تانیکا سرکار کی تحریر کا حوالہ دیا۔ تانیکا سرکار نے اپنی تحریر میں کہا ہے کہ گجرات میں سامنے آنے والی سفاکی کے تین پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ (مسلم) خواتین کے جسموں پر لامحدود تشدد کیا گیا، دوسرا پہلو یہ کہ مسلم خواتین کے جنسی اور تولیدی اعضاء پر خصوصی بہیمیت کے ساتھ حملے کیے گئے، تیسرا پہلو یہ کہ ان کے پیدا شدہ اور پیٹ میں موجود بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا۔‘‘ (گارڈین۔ 18 اپریل 2018ء)
امرت ولسن نے خواتین پر تشدد کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ مسلم بچی کی ہولناک عصمت دری کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سانحہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا، اور اس کا مقصد بکروال کی مسلم برادری کو خوفزدہ کرنا اور علاقے سے بھگانا تھا۔ امرت ولسن کے بقول جب سانحے کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی تو بی جے پی کے لوگوں نے احتجاج شروع کردیا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بھارت میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے اُن پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا دینا کافی ہے، بلکہ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو مارنے کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں۔ مسلمان کا مسلمان ہونا اس کی موت کا سبب بننے کے لیے کافی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ بھارت ہے جسے ’’مہذب‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں محبت کے دریا بہہ رہے ہیں، جہاں انسان کیا پتھر بھی پوجے جارہے ہیں، جہاں ندیوں کو بھی ماں کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور جہاں بھارتی فلموں کے مطابق ہر طرف رومانس ہی رومانس ہے، شاعری ہی شاعری ہے، موسیقی ہی موسیقی ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ جب مودی کو مقبوضہ کشمیر کی کمسن بچی اور یوپی کے علاقے انائو میں ہونے والے Rape کے بارے میں بتایا تو انہوں نے اپنی ’’مقدس‘‘ خاموشی توڑی، مگر انہوں نے ان سانحوں کو صرف ’’واقعات‘‘ قرار دیا اور فرمایا کہ ’’بیٹیوں‘‘ کے ساتھ انصاف ہوگا۔ مگر یہ کہنے والے کو بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو عصمت دری یا Rape کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ کیا یہی ایک ’’عظیم بھارت‘‘ ہے؟ کیا یہی وہ بھارت ہے جہاں بھارتی فلموں کے گیتوں کے مطابق ’’تہذیب کا آغاز‘‘ ہوا؟ ایسا ہوتا تو امرت ولسن کو یہ کہنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا کہ مسلم خواتین کی عصمت دری بی جے پی کا نظریہ یا Ideology ہے۔ کیا انسانیت کی پوری تاریخ میں خواتین کی عصمت دری بھی ’’نظریہ‘‘ کہلائی ہے؟ مگر بہرحال بھارت کا معاملہ یہی ہے۔ مگر یہ تو بھارت کے خوفناک باطن اور ہولناک ظاہر کے بیان کا محض آغاز ہے۔
بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت میں 2014ء سے 2017ء کے دوران ’’مسلم کُشی‘‘ کے واقعات جنہیں عام طور پر ’’فرقہ وارانہ‘‘ واقعات کہا جاتا ہے، میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق صرف یو پی میں ایک دہائی کے دوران 1488 مسلم کُش فسادات ہوئے۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 10 فروری 2018ء)
سول سروس سے وابستہ افراد عام طور پر غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ بھارت میں بیوروکریٹس کی سیاست سے عدم وابستگی کی پرانی روایت موجود ہے، مگر بھارت میں انسانیت سوزی اور تہذیب دشمنی کی سطح اتنی بلند ہوگئی ہے کہ بھارت کے 50 سابق سول سرونٹس چیخ پڑے اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک طویل خط تحریر کیا۔ اس خط کے کچھ حصے ملاحظہ کیجیے:
’’یہ اُس کھلے خط کا متن ہے جو ہم 50 ریٹائرڈ سول سرونٹ میڈیا کے ذریعے اپنے وزیراعظم نریندر مودی کو بھیج رہے ہیں۔
ہم ریٹائرڈ سول سرونٹس نے اپنے ملک کے آئین میں محفوظ تقدس کی حامل جمہوری، سیکولر اور لبرل اقدار کے زوال پر اپنی فکر و تشویش کے اظہار کے لیے پچھلے سال یہ گروپ تشکیل دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بڑی عیاری سے بتدریج بھارت میں نفرت، خوف اور شیطانیت کا جو ماحول طاری کردیا ہے، اس کے خلاف بلند کی جانے والی دوسری احتجاجی آوازوں میں اپنی آواز ملانے کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ ہم نے اُس وقت بھی آواز اٹھائی تھی اور ہم آج بھی آواز اٹھا رہے ہیں… ایسے شہریوں کی حیثیت سے جن کا تعلق نہ تو کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ ہی جو کسی سیاسی نظریے کے ماننے والے ہیں۔ ہمارا سروکار صرف اُن اقدار سے ہے جنہیں ہمارے آئین میں تقدس دیا گیا ہے۔
ہمیں امید تھی کہ آپ (نریندر مودی) نے آئین پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے اس لیے حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور وہ جماعت، جس سے آپ کا تعلق ہے، خطرناک زوال پر خوابِ غفلت سے جاگ اٹھیں گے، برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور سب کو، بالخصوص اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقات کو یقین دلائیں گے کہ انہیں اپنی جان اور آزادی کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس یہ امید خاک میں ملادی گئی۔ اس کے بجائے کٹھوعہ اور انائو میں ہونے والے واقعات کی دہشت نے ہمیں دم بخود کر ڈالا۔ ان واقعات سے عیاں ہوا کہ حکومت وہ بنیادی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے جو عوام نے اسے سونپی تھیں۔
ایک آٹھ سالہ بچی کو جس وحشت اور درندگی سے زنا بالجبر کے بعد قتل کیا گیا، اس سے عیاں ہوا کہ ہم اخلاقی زوال کی عمیق ترین کھائی میں گر چکے ہیں۔ بھارت کی آزادی کے بعد یہ اس کی تاریخ کا تاریک ترین وقت ہے اور اس اخلاقی زوال پر ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا ردعمل ناکافی اور کمزور ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی اور شرم سے ہمارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس باعث بھی انتہائی شرم محسوس ہورہی ہے کہ ہمارے نوجوان رفقائے کار، جو اِس وقت بھی ملازمت کررہے ہیں، خصوصاً اُن اضلاع میں جہاں یہ خوفناک واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی قانونی ذمے داری ہے کہ وہ کمزور اور بے بس افراد کا خیال رکھیں اور ان کا تحفظ کریں، وہ بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
جموں کے شہر کٹھوعہ میں سنگھ پری وار (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ارکان کی قائم کردہ انتہا پسند ہندو تنظیموں) نے ہندو اکثریت کی جنگجویانہ اور جارحانہ ثقافت کو فروغ دیا ہے جس نے ہندو اکثریت کے جنونی فرقہ پرست عناصر کو اپنے گھنائونے ایجنڈے پر عمل کرنے کی جرأت دی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے طاقتور افراد اور ہندوئوں اور مسلمانوں میں شدید ترین نفرت و عداوت پیدا کرکے حکومت حاصل کرنے والے لوگ ان کی تائید و حمایت کریں گے۔ اترپردیش کے قصبے انائو میں ووٹ اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کی غرض سے بدترین پدرسری جاگیردار مافیا ڈانوں پر انحصار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی شخصی طاقت دکھانے کے لیے زنا بالجبر اور قتل اور بھتہ خوری کی آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ طاقت اور اختیار و اقتدار کے اس گھنائونے استعمال سے بھی بدتر امر یہ ہے کہ ریاستی حکومت زنا بالجبر اور قتل کے مبینہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی بچی اور اس کے مظلوم خاندان کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومت کس قدر بے راہ روی اور کج روی کا شکار ہوچکی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اترپردیش کی حکومت تب جاکر حرکت میںآئی جب ہائی کورٹ نے اسے اپنی ذمے داری پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے حکومت کی منافقت اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس کی نیم دلی عیاں ہے۔
محترم وزیراعظم! یہ دونوں واقعات جن ریاستوں میں رونما ہوئے، وہاں آپ کی جماعت برسراقتدار ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری، نیز جماعت پر آپ اور جماعت کے صدر کے کنٹرول کے تناظر میں اس دہشت انگیز اور ہولناک صورتِ حال کے سب سے زیادہ ذمے دار آپ قرار پاتے ہیں۔ آپ نے اپنی ذمے داری نبھانے اور تلافی کرنے کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اپنے ہونٹوں پر لگا چپ کا تالا صرف اُس وقت توڑا جب بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری کا غصہ اس سطح تک پہنچ گیا کہ آپ اسے مزید نظراندازکرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔‘‘
(ڈیلی دنیا، کراچی۔ 21 اپریل 2018ء)
بھارت میں ’’نفرت کا کاروبار‘‘ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بھارت میں ہٹلر جیسی شخصیت کو ’’ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اسے 2004ء میں گجرات کے اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ وہی گجرات جہاں نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے اور جہاں تین ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا۔ گجرات کی نصابی کتب میں کہا گیا ہے کہ ہٹلر نے جرمنی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ یروشلم پوسٹ کی ایک اطلاع کے مطابق بھارت میں ہٹلر کی تصنیف Mein Kampf بڑی مقبول ہورہی ہے۔ روزنامہ ڈان کراچی کی ایک کالم نگار رفیعہ زکریا کے مطابق بھارت میں کچھ عرصے قبل Great Leaders کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب کے سرورق پر ہٹلر کی تصویر بھی موجود ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی جرمنی کے لوگوں اور اپنے وطن کے لیے وقف کردی۔ کتاب کے ناشر سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو اس نے معذرت کیے بغیر کہا کہ کتاب کا مقصد ہٹلر کو ’’اچھا‘‘ یا ’’برا‘‘ ظاہر کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہٹلر کتنا ’’طاقتور‘‘ تھا۔ اتفاق سے بی جے پی کا مقصد بھی تہذیب یا نیکی و بدی نہیں صرف ’’طاقت‘‘ ہے… ہندوئوں کی طاقت اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ’’کمزوری‘‘۔
بھارت کو اپنی جمہوریت پر بڑا ’’ناز‘‘ ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت اپنی گلی سڑی بدبودار جمہوریت کو پوری دنیا میں ایک بہترین Product اور ایک بہترین Image کے طور پر ’’فروخت‘‘ کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ پاکستان کے ساتھ کہیں بھارت کا نام آجاتا ہے تو اہلِ مغرب کہتے ہیں کہ بھلا پاکستان اور بھارت کا کیا موازنہ! پاکستان ایک کمزور جمہوریت ہے اور بھارت مکمل طور پر ایک ’’جمہوری ملک‘‘ ہے۔ لیکن بھارت کی جمہوریت کا حال کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔
روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق بھارت کی 29 ریاستوں اور 2 یونین علاقہ جات کے 31 وزرائے اعلیٰ میں سے 11 کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔ اس سلسلے میں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ سرفہرست ہیں۔ ان کے خلاف 22 مقدمات درج ہیں، ان میں سے 3 مقدمات سنگین نوعیت کے ہیں۔ بھارت کے 1581 اراکین پارلیمنٹ کے خلاف قتل اور بدعنوانی کے مقدمات درج ہیں۔ مودی کی کابینہ کے 24 وزرا کے خلاف سنگین مقدمات درج ہیں۔ لوک سبھا (بھارتی پارلیمنٹ) کے اراکین کی تعداد 542 ہے، ان میں سے 112 کے خلاف اغوا، قتل اور خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے مقدمات درج ہیں۔ بھارت کی ریاستوں کے وزرا بھی جرائم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان وزرا میں سے 201 کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں، خود مودی کے خلاف بھی مختلف مقامات پر کئی مقدمات درج ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح بھارت کی جمہوریت بھی ’’سرمائے کی باندی‘‘ ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کے 31 وزرائے اعلیٰ میں سے 25 کروڑ پتی ہیں۔ اوسطاً ہر وزیراعلیٰ کے پاس ساڑھے 16 کروڑ روپے ہیں۔ 7 فیصد وزرائے اعلیٰ کے پاس سو کروڑ سے زیادہ روپے ہیں۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 14 فروری 2018)
بھارت کی جمہوریت کی مزید بدصورتی اور بدسیرتی ملاحظہ کرنی ہو تو بھارت کے ممتاز صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کی رائے ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں:
’’بھارت کی سیاست اب ایک خطرناک موڑ پر آگئی ہے۔ یوں تو ہم بھارت کو جمہوری ملک کہتے ہیں اور اوپر سے وہ ویسا دکھائی بھی پڑتا ہے۔ یہاں کبھی فوجی تختہ پلٹ نہیں ہوا، کبھی آئین رد نہیں ہوا اور کبھی چنائو ٹالے نہیں گئے، لیکن یہ سب دکھانے کے دانت ہیں۔ جہاں تک کھانے کے دانتوں کا سوال ہے، بھارتی جمہوریت کے ہاتھی کا منہ کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس میں دانت تو کیا ڈینچر بھی نہیں ہے، کیا آج بھارت میں ایک بھی پارٹی ایسی ہے جو دعویٰ کرسکے کہ وہ جمہوری ہے؟ تقریباً سبھی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں۔ ہر پارٹی کا صدر اس کا واحد مالک ہے، اس کی تعیناتی سبھی کی رضامندی سے ہوتی ہے۔ نام کے لیے بھی کوئی امیدوار اس کے مقابلے میں نہیں ہوتا ہے۔ ایک مالک، باقی سب اس کے نوکر! سب صوبائی پارٹیاں بھی اسی نقشِ قدم پر چلتی ہیں۔ کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے، کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے، کوئی جیجا سالا پارٹی ہے، کوئی سہیلی، سہیلی پارٹی ہے۔ بھارت کی قومی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔ بھاجپا بھائی بھائی پارٹی بن گئی ہے، اور کانگریس تو ماں بیٹا پارٹی ہے ہی۔ ان پارٹیوں میں اندرونی چنائو کیا حقیقت میں ہوتے ہیں؟ ان میں کسی مدعا پر کیا کھل کر اندرونی بحث اور نااتفاقی ہوتی ہے؟ کیا ہم کبھی کسی کی، اندرونی اجلاسوں میں ناراضی کی بات سنتے ہیں؟ کیا یہ پارٹیاں کسی خیال، کسی اصول، کسی قانون سے متاثر ہوتی ہیں؟ ان پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سبھی پارٹیاں ایک جیسی ہوگئی ہیں۔ سب کا ہدف ایک ہی ہے… ووٹ اور نوٹ۔ آج کون سی پارٹی مخالفت میں ہے؟ جیسے حکمران پارٹی ویسا ہی حزب اختلاف! دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ اسی لیے کسان تحریک، دلت تحریک، تاجران اپنے آپ اٹھ رہے ہیں۔ اگر آج کی اپوزیشن پارٹیاں 2019ء میں اقتدار میں آگئی تو وہ بھی کیا کرلیں گی؟ وہ بھی ووٹ اور نوٹ کے جھانجھ پئیں گی اور رخصت ہوجائیں گی۔ ہماری جمہوریت جھینکتی رہ جائے گی۔‘‘
(روزنامہ دنیا کراچی، 12 اپریل 2018ء)
لتا جشنو بھارت کی ایک اور ممتاز صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں بھارتی جمہوریت کے ظاہر و باطن کو آشکار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’انگریزی لغت میں سادھو کا مطلب ترکِ دنیا کرنے والا ہے، مگر پانچ سادھوئوں کو وزیر مملکت بنادیا گیا ہے۔ جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مودی حکومت نے دہلی حکومت کو حکم دیا کہ وہ اپنے مشیروں کو برطرف کردے، حالانکہ یہ مشیر حکومت کو مشورہ دینے کے لیے رکھے گئے تھے اور یہ رضا کارانہ طور پر کام کررہے تھے… بھارت میں الیکشن کمیشن آزاد رہا ہے مگر اب وہ بی جے پی کا آلۂ کار بن چکا ہے اور بی جے پی کی ہدایت پر حزبِ اختلاف کا تعاقب کرتا ہوا پایا جاتا ہے، خواہ تعاقب کی وجہ فلمی ہی کیوں نہ ہو۔ بھارت میں سپریم کورٹ کا یہ حال ہے کہ سپریم کورٹ میں بی جے پی کے چیف امت شاہ کے خلاف ایک درخواست آئی۔ درخواست میں ایک جج کی موت میں امت شاہ کے ملوث ہونے کی تحقیق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ نے اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے انکار کردیا۔‘‘
(ڈیلی ڈان کراچی۔ 23 اپریل 2018ء)
پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، مگر بھارت میں پریس کی آزادی خواب بنتی جارہی ہے۔ 2002ء میں پریس کی آزادی کے حوالے سے بھارت 139 ممالک کی فہرست میں 80 ویں نمبر پر تھا، مگر اب وہ 180 ممالک کی فہرست میں 138 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ این ڈی ٹی وی بھارت کا ممتاز ٹیلی ویژن چینل ہے جو حکومت پر تنقید کے لیے معروف ہے، مگر حکومت نے اس کی زبان بندی کے لیے اس پر جعلی فراڈ کو بنیاد بناکر وفاقی پولیس سے حملہ کرا دیا۔ بھارت کے ممتاز اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بوبی گھوش کو مودی حکومت کے دبائو پر برطرف کردیا گیا۔ مودی کو ان کی ادارتی پالیسی پر اعتراض تھا۔ گھوش نے اپنی ایک ویب سائٹ لانچ کی مگر اسے بھی بند کرا دیاگیا۔
(ڈیلی ڈان کراچی۔ 27 اپریل 2018ء)
ہمارا زمانہ جمہوریت اور آزاد منڈی کی معیشت کا زمانہ ہے اور بھارت کا کہنا ہے کہ اب اس کی معیشت کی شرح نمو چین کی شرح نمو سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت کی فلموں اور بھارتی رہنمائوں کے بیانات کو دیکھا جائے تو بھارت میں ’’خوش حالی کا سیلاب‘‘ آیا ہوا ہے، مگر حقائق یہاں بھی بھارتی قیادت کا منہ چڑا رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ کی ایک تفصیلی خبر کے مطابق:
’’بھارت میں بے روزگاری کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ معمولی نوکریوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار سامنے آرہے ہیں۔ بھارتی ریاست تامل ناڈو میں درجہ چہارم یا گریڈ فور کی ملازمتوں کے لیے 992 پی ایچ ڈی، 23 ہزار ایم فل اور ڈھائی لاکھ ماسٹرز ڈگری ہولڈرز نے درخواستیں دیں۔ پولیس کانسٹیبل کی اسامیوں کے لیے 4 ہزار گریجویٹس اور 500 پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں نے درخواستیں دی تھیں۔ ریاست مدھیہ پردیش میں چپڑاسی کی پوسٹ کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل، ایم بی اے اور انجینئرز نے درخواستیں دیں۔ یوپی میں چپڑاسی کی پوسٹ کے لیے 23 لاکھ درخواستیں آئیں۔ درخواست دینے والوں میں 225 امیدوار پی ایچ ڈی تھے۔ گوالیار کی عدالت میں صرف 57 اسامیوں کے لیے 60 ہزار درخواستیں آئیں۔ مہاراشٹر میں قلی کی پانچ پوسٹوں کے لیے ڈھائی ہزار درخواستیں آئیں۔ درخواستیں دینے والوں میں ایک ہزار گریجویٹس اور دو سو سے زائد پوسٹ گریجویٹس شامل ہیں، حالانکہ قلی کی پوسٹ کے لیے چوتھی جماعت تک پڑھا ہونا کافی تھا۔ یو پی میں چپڑاسی کی 388 پوسٹوں کے لیے 23 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔ امیدواروں میں 255 پی ایچ ڈی تھے۔‘‘
(روزنامہ جنگ کراچی، 15 فروری 2018ء)
بھارت خطے کا سب سے بڑا ملک ہے، اور سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے وہ علاقے میں امن و محبت کی جو گنگا بہا رہا ہے اور اس نے شاعری و موسیقی کو جس طرح عام کیا ہوا ہے وہ ظاہر ہے۔ بھارت پاکستان میں چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ چین کے ساتھ وہ ایک جنگ لڑنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھارت اس حد تک ملوث ہوا کہ ایک تامل عورت نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو خودکش حملہ کرکے مار ڈالا۔ نیپال ہندو ریاست ہے مگر بھارت اُسے اپنے جوتے کے نیچے رکھے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش کو بھارت اپنی ’’کالونی‘‘ سے بڑا درجہ دینے پر آمادہ نہیں۔ بھوٹان کو وہ اپنا ’’صوبہ‘‘ سمجھتا ہے اور مالدیپ میں وہ ایک بار اپنی فوجیں اتار چکا ہے۔ مگر بھارت سب سے زیادہ ’’مہربان ‘‘پاکستان پر ہے۔ بھارت کے آرمی چیف بپن راوت نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کو تکلیف دیتے رہنا بھارت کی ’’پالیسی‘‘ ہے۔ اس تکلیف کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ بھارت نے 2016ء سے مارچ 2018ء تک سرحد پر سیز فائر کی ’’صرف 2 ہزار خلاف ورزیاں‘‘ کی ہیں۔
(ایکسپریس کراچی۔ 5 مارچ 2018ء)
پاکستان کے سیاسی حالات پاکستان کا داخلی معاملہ ہیں، مگر بھارت ہمارے سیاسی معاملات میں دخیل ہے۔ یہاں تک کہ اس نے میاں نوازشریف کو اپنا ’’خصوصی دوست‘‘ بنایا ہوا ہے۔ اِس دوست سے بھارتیوں کو کتنی محبت اور ہمدردی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نوازشریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیا تو بھارت میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ بھارت کے ممتاز صحافی، کالم نگار اور سابق سفارت کار کلدیپ نیر نے کالم میں لکھا:
’’پاکستان کے سابق وزیراعظم کی، زندگی بھر کے لیے، نااہلی کا فیصلہ بہت سخت ہے… بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی ہے جو کہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے، لیکن نوازشریف کی نااہلی نے سارا منظر بدل دیا ہے۔ اب بھارت کو دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے کا انجام کیا ہوتا ہے۔‘‘
(ڈیلی ایکسپریس کراچی، 20 اپریل 2018ء)
یہ بھارت کی ’’انسان دوستی‘‘ یا ’’امن‘‘ اور ’’محبت‘‘ کی چند جھلکیاں ہیں، اور ان میں سے کوئی جھلکی بھی ہماری ’’ذاتی رائے‘‘ نہیں بلکہ ’’ٹھوس حقیقت‘‘ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ظاہر اور باطن کی چند جھلکیاں اتنی ہولناک ہیں تو اُس کا پورا باطن اور ظاہر کتنا ہولناک ہوگا؟ اب آپ کالم کے آغاز میں موجود بھارت کے فلمی گیت کے بولوں کو پھر دہرا لیجیے:

’’ہے پریت جہاں کی ریت سدا
میں گیت وہاں کے گاتا ہوں
جہاں کا رواج محبت ہے
میں اسی جگہ کے گیت گاتا ہوں
جہاں ندیوں کو ’’ماں‘‘ کہا جاتا ہے
میں گیت وہاں کے گاتا ہوں‘‘
واہ کیا مکر ہے… کیا فریب ہے… کیا دھوکا ہے۔