پارلیمنٹ کی آئینی مدت تین ہفتوں بعد ختم ہوجائے گی، پھر نگران حکومت بنے گی۔ آئین کے مطابق نئی پارلیمنٹ کی تشکیل کے لیے دو ماہ بعد نئے انتخابات ہوں گے۔ لیکن سیاسی حالات اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ انتخابات آئینی مدت کے اندر نہیں ہوسکتے، ان میں تاخیر ہوگی، اور یہ تاخیر کتنی مدت تک کے لیے ہوگی اس کا انحصار بھی ملکی حالات پر ہوگا۔
پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے اور نگران حکومت قائم ہونے سے قبل کچھ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو انتخابات میں تاخیر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان میں کچھ کا تعلق الیکشن کمیشن سے ہے۔ اگرچہ انتخابی عملہ کی تربیت کا کام شروع ہوچکا ہے، تاہم حلقہ بندیوں کے خلاف عذرداریوں کی درخواستیں ابھی نمٹائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کا بھی اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ سیاسی حالات اور ماحول میں سیاسی گرما گرمی کا بڑھنا ایک الگ موضوع ہے۔ نگران حکومت کے سربراہ کا نام بھی ابھی فائنل ہونا باقی ہے، وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف 16 مئی تک کسی نام پر متفق نہ ہوسکے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو کسی ایک نام پر اتفاق کرے گی، اگر کمیٹی بھی ناکام ہوئی تو معاملہ کمیٹی کی جانب سے 6 ناموں کے پینل کے ساتھ الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ جائے گا، جو نگران وزیراعظم کے لیے ان چھے ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے گا۔ نگران حکومت کے سربراہ کے لیے جو نام بھی پیش ہوگا وہ شخصیت سی پیک کے حوالے سے ضرور عالمی سطح پر جانی پہچانی ہوگی۔ اس شخصیت کی تلاش میں ملک کے دو انتہائی طاقتور عہدیدار متحرک ہیں اور فیصلہ بھی کیے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے نام پر سنجیدگی سے غور ہورہا ہے۔
تاہم ایک ایسے وقت میں، جب پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور انتخابات کے لیے ماحول بن رہا ہے، وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں ایک خطرناک اور افسوس ناک واقعہ سمجھا گیا ہے۔ کہا اور سمجھا جارہا ہے کہ نئی پارلیمنٹ کے لیے عام انتخابات غیر معمولی گرما گرمی کے ماحول میں ہونے جارہے ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی کے باعث مسلم لیگ(ن) ان حالات کو اپنے لیے بہت بڑا چیلنج سمجھ رہی ہے، احسن اقبال پر حملے کے واقعے نے اس کے لیے سنگینی مزید بڑھا دی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل، اے این پی اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں میں گھمسان کا رن پڑے گا، آزاد امیدواروں کی ایک بڑی کھیپ بھی اس معرکہ کا حصہ ہوگی۔
ملکی سیاست کے اس منظرنامے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) ظہیرالاسلام نے تجاویز دی ہیں کہ ’’انتہا پسندی کے خاتمے اور لوگوں کو قریب لانے کے لیے ہمہ جہت حکمت عملی اپنانا ہوگی، بطور قوم متحد ہونا زیادہ اہم ہے، ہمیں کھلی بحث کرنا ہوگی، ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا، لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی نفرت ختم کرنا ہوگی۔ ان کے خیال میں ملک میں انتہاپسندی کے خاتمے اور لوگوں کو قریب لانے کے لیے ہمہ جہت حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ مکمل انتظامی اختیارات کے ساتھ ایک عبوری گورننگ باڈی ہونی چاہیے جو انتقالِ اقتدار کے لیے ایک غیر جانب دار ماحول قائم کرے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اِن دنوں ایک تھنک ٹینک چلا رہے ہیں جہاں جنوبی ایشیا اور اقوام عالم کے امور کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور اہم رپورٹیں مرتب کی جاتی ہیں۔ انتہا پسندی، لسانیت اور فرقہ واریت ختم کرنا سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کا کام ہے، ان کی ذمے داری ہے کہ ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات اور چیلنجوں سے محفوظ بنانے کے لیے قومی سطح پر یکسوئی پیدا کریں۔ لیکن مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی اقتدار کے لیے رسّاکشی نے ایک ایسا ماحول ملک میں پیدا کردیا کہ امن و امان کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں اور نوازشریف کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔ انہیں احتساب عدالت کے بعد اب آئی ایس آئی رقوم کیس میں تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جیسے جیسے ان کا محاصرہ ہورہا ہے، ردعمل میں ان کے لہجے میں تلخی بڑھتی جارہی ہے، وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ خلائی مخلوق سے ان کا مقابلہ ہے، یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں جس پر ایک ستون نے قبضہ کرلیا ہے، وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے سینے میں بڑے راز ہیں۔
اس وقت ملکی معیشت کو بھی بہت زیادہ خطرات اور چیلنج درپیش ہیں۔ حکومت کو انہی دنوں میں غیر ملکی قرضے کی قسط کی ادائیگی کے لیے ایک بہت بڑی رقم درکار ہے۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی، کیسے ادا کی جائے گی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ یہ رقم غالباً 31 ارب کے قریب ہے۔ ایک جانب ہمیں ان خطرات اور مشکلات نے گھیر رکھا ہے اور دوسری جانب سیاست دانوں کے بیانات ہیں۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اس دفعہ عام انتخابات پہلے کی نسبت محاذآرائی کی زیادہ گمبھیر صورت حال میں ہورہے ہیں۔ جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں، قیاس آرائیوں اور تناؤ میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے کی نسبت زیادہ بااختیار ہے جس سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی مداخلت کے بغیر کام کرے گا، البتہ شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ نوازشریف کا مقدمہ بھی ہے۔ اُن کے خلاف لندن فلیٹس کا مقدمہ اب حتمی مرحلے میں داخل ہونے کے قریب ہے، اور اسی وجہ سے نوازشریف ایک نئی حکمت عملی اپنا چکے ہیں اور اسی لیے ایک نیا بیانیہ دیا ہے کہ آصف علی زرداری یا عمران خان نہیں بلکہ ’’انتخابات میں مقابلہ خلائی مخلوق سے ہوگا‘‘۔ یہ بیانیہ پہلے سے زیادہ سخت ہے۔ یہ حکمت عملی تو عدالت سے باہر سیاسی میدان کے لیے ہے، مقدمات کے حوالے سے ان کی حکمت عملی استغاثہ کے گواہوں کے جواب میں اپنے گواہوں سے متعلق ہوگی۔ عدالت میں یہ مرحلہ آنے والا ہے۔ دونوں جانب کے گواہوں کی شہادتوں کے بعد ہی عدالت فیصلہ دے گی۔ عدالت کے فیصلے سے متعلق پیشگی کوئی رائے دینا مناسب ہوتا ہے اور نہ دی جانی چاہیے، کیونکہ استغاثہ کے گواہوں کے بعد فوجداری قانون کی دفعہ342 کے تحت ملزموں کے بیان ریکارڈ ہونے ہیں۔ یہ بیان عدالت میں یا پھر پولیس کے سامنے بھی ہوسکتے ہیں۔ لندن فلیٹس کیس میں حسن نواز، حسین نواز، نوازشریف اور مریم صفدر ملزم نامزد کیے گئے ہیں، قانون کے مطابق ملزم ہی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے وقت اپنے حق میں گواہوں کے نام لے گا، اور یہی گواہ عدالت میں پیش ہوں گے۔ گواہ پیش کرنا بھی ملزم کی ہی ذمے داری ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ کتنی طوالت اختیار کرتا ہے اس بارے میں فی الحال ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔
لندن فلیٹس کیس کی اب تک کی کارروائی میں استغاثہ یہ بات ثابت کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے کہ لندن فلیٹس خریدنے کے لیے جو سرمایہ استعمال ہوا اُس کی کوئی تفصیلات نوازشریف بتانے میں ناکام رہے ہیں۔ کسی سخت فیصلے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ نوازشریف سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل62/f/1 کی روشنی میں عوامی نمائندگی اور سیاسی جماعت کے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل قرار پاچکے ہیں۔ اس فیصلے کو وہ جانب دارانہ قرار دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود سیاست میں ان کی واپسی کا راستہ بند نہیں ہوا، کیونکہ وہ اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن ان کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے مقدمے کا جن بوتل میں بند نہیں ہورہا اور کارروائی آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے عدالت فیصلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
ملکی سیاست کا دوسرا منظرنامہ نگران حکومت کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے کہ نگران حکومت کڑا احتساب کرے گی یا نگران حکومت کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ سندھ میں سیکرٹری بلدیات کی پی ایس کا بیان پہلی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ پنجاب میں بھی ایسی ہی صورت حال بن سکتی ہے کہ پنجاب کے بہت سے سرکاری افسر شہبازشریف کے خلاف بیان دینے کے لیے تیار کیے جارہے ہیں اور ابتدا بھی ان 56 کمپنیوں سے ہوگی جن پر حال ہی میں سپریم کورٹ اور نیب نے ہاتھ ڈالا ہے۔ اگر حالات اسی طرح آگے بڑھے تو انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ خواجہ آصف بھی نااہل قرار دیے جاچکے ہیں، ان کی اپیل کی سماعت اب سپریم کورٹ میں ہورہی ہے۔ اثاثے چھپانے کے حوالے سے ان کا مقدمہ مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی افتخار چیمہ جیسا ہے، جنہیں عدالت نے نااہل قرار دے کر دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی، لیکن نوازشریف اور جہانگیر ترین نااہلی مقدمات میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اب صورتِ حال بدل گئی ہے اور عدلیہ کے فیصلے سیاست پر بھی اپنے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ عین ممکن ہے امیدوار زیر عتاب سیاسی جماعت کے انتخابی ٹکٹ ہی نہ لیں، یا ٹکٹ لے کر واپس کردیے جائیں۔ یوں انتخابات ہونے کی صورت میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اسمبلی میں پہنچ جائے۔ یہ بات نوازشریف اچھی طرح سمجھتے ہیں، اسی لیے مریم صفدر کی تربیت کی جارہی ہے، حمزہ شہباز کا سکہ ابھی شریف فیملی نے جان بوجھ کر بچا کر رکھا ہوا ہے کہ سارے محاذ نہ کھولے جائیں، رابطے کی کوئی ایک کھڑکی کھلی رکھی جائے۔ ہوسکتا ہے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مریم صفدر ہی کو انتخابی مہم چلانا پڑ جائے، اسی لیے چودھری نثار علی خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ بچوں سے انتخابی ٹکٹ نہیں مانگیں گے۔ وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ شریف خاندان بھی ذہنی طور پر تیار ہوچکا ہے اور اب مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قیادت شریف خاندان کے بچوں کو منتقل ہونے جارہی ہے۔