محمد انور
آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں ابھی کم از کم تین ماہ باقی ہیں۔ اس بات کے بھی خدشات ہیں کہ یہ انتخابات کم ازکم ایک اور زیادہ سے زیادہ تین سال کے لیے ملتوی کردیے جائیں۔ ان انتخابات کے شیڈول کا اعلان نگران حکومت کو کرنا ہے جو رواں ماہ کے آخری ہفتے میں قائم ہوجائے گی۔ تاہم کراچی سمیت ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے تمام جماعتوں کو یقین ہے کہ انتخابات شیڈول کے تحت کرا دیے جائیں گے، تبھی رواں ہفتوں میں ملک کے سب سے بڑے شہر میں سیاسی گہماگہی دیکھنے کے قابل ہے۔ شہری کم و بیش 32 سال بعد ہر سیاسی جماعت کو بلا خوف و خطر اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے قبل کراچی میں اسلحہ کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے ہر سیاسی جماعت کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں کرنا مشکل تھا، کیونکہ ایم کیو ایم نے ایک عرصے تک سب کو اپنے خوف میں جکڑ رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ 40 سال بعد پیپلز پارٹی شہر کے معروف اور گنجان آباد علاقے لیاقت آباد (لالو کھیت) میں اپنا کوئی جلسہ کرسکی۔
کراچی کے باشندے کئی سال بعد سیاسی تقریبات کے دوران گولیوں کے بجائے پتھراؤ اور ڈنڈوں کا استعمال بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں پولیس افسران و اہلکاروں کو فائرنگ کے بجائے پتھراؤ کی زد میں آکر زخمی ہوکر اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کا ناخوشگوار منظر بھی لوگوں نے دیکھا۔ یہ منظر فی الحال تو گلشن اقبال میں شہید حکیم سعید گرائونڈ میں پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں کے سلسلے میں لگائے گئے استقبالیہ کیمپوں میں جمع ہونے والے دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں ہونے والے تصادم کے باعث بنا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے اس جھگڑے کی خاص بات یہی تھی کہ اس میں ایک دوسرے پر گولیاں نہیں چلائی گئیں،
پیپلز پارٹی کی طرف سے لیاقت آباد میں جلسہ کرنے کی ’’ہمت‘‘ دیکھ کر کراچی آپریشن سے قبل تک پورے شہر پر راج کرنے والی ایم کیو ایم کے وہ دونوں دھڑے یکجا ہوگئے جو 5 فروری کو واضح طور پر الگ الگ ہوچکے تھے۔ عامر خان اور ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں دو گروپ بن کر 5 مئی تک پیر کالونی اور بہادرآباد گروپس میں بٹ چکے تھے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول کی مخصوص لہجے میں کی جانے والی تقریر نے انہیں دوبارہ ایک کردیا۔
متحدہ کے دونوں گروپ ایک ہونے سے دونوں گروپوں میں تقسیم کارکنوں کی بڑی تعداد خوش ہوگئی اور دوبارہ ان کے درمیان شادیانے بجنے لگے۔ لیکن ایم کیو ایم اور اس کے قائد و بانی الطاف حسین سے بغاوت کرکے بنائی جانے والی ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کو اس غیر متوقع اتحاد سے صدمہ پہنچا ہوگا، کیونکہ دونوں دھڑوں میں اختلافات ختم ہونے کی امیدیں کم ہونے پر اس کے کارکن اور رہنما پی ایس پی کی طرف دیکھنے بلکہ اسے جوائن کرنے لگے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایک ہونے کے بعد منعقد کیے جانے والے جلسوں میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر
خان، فیصل سبزواری اور وسیم اختر نے پیپلز پارٹی کے جلسے میں کی جانے والی باتوں اور دعووں کا جواب دیتے ہوئے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا نکتہ گرمجوشی سے اٹھایا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ’’میں نے اپنے کارکنوں کو کراچی صوبے کی مہم سے روکا ہوا ہے‘‘۔
انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں مہاجر قومی موومنٹ بھی اپنے چیئرمین آفاق احمد کی رہنمائی میں فعال ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ نے اتوار کو لیاقت آباد فلائی اوور پر جلسہ کیا۔ اس جلسے میں آفاق احمد نے مطالبہ کیا کہ جنوبی سندھ صوبہ فوری بنایا جائے۔
پاک سرزمین پارٹی نے حالیہ دنوں میں کوئی بڑا جلسہ تو نہیں کیا لیکن نشتر پارک میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔
پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پاکستان تحریک انصاف، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی کی یہ سرگرمیاں دراصل کراچی کو فتح کرنے کے لیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کا ووٹر کس کس پارٹی کو ایوانوں تک پہنچاتا ہے۔