دو دن کے وقفے سے وزیراعظم کے فاٹا کے مستقبل سے متعلق بیانات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب ایک جانب عام انتخابات کا بگل بجنے میں اب چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں، اور دوسری جانب قبائل جن کے ساتھ اصلاحات کے نام پر بہت سے وعدے وعید کیے گئے تھے اُن میں سے تاحال بڑے وعدے تو کجا، چھوٹے وعدے بھی پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ لہٰذا ایسے میں جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے قبائلی علاقوں کے پہلے دورے کے موقع پر میران شاہ میں غلام خان ٹرمینل اور مارکیٹ کمپلیکس کے افتتاح کے سلسلے میں منعقدہ تقریب… جس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ کور کمانڈر پشاور، گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا، وفاقی وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر، وزیر سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی موجود تھے… سے خطاب میں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائل اور پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف کیا، وہیں قیام امن کے سلسلے میں ان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ فاٹا اصلاحات کے ذریعے قبائل کو جلد ہی نہ صرف قومی دھارے میں شامل کرتے ہوئے انہیں بھی وہی حقوق فراہم کیے جائیں گے جو ملک کے دیگر حصوں کے شہریوں کو حاصل ہیں بلکہ ان کے ساتھ ماضی میں روا رکھے جانے والے سلوک کی تلافی کرتے ہوئے انہیں بھی وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ فاٹا میں قیام امن کے بعد ان کی اوّلین ترجیح بے گھر افراد کی بحالی اور ان کی دوبارہ آبادکاری کے علاوہ قبائل کو تعلیم، صحت اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔
اسی تسلسل میں گزشتہ بدھ کو قومی اسمبلی سے اپنے خصوصی خطاب میں وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ فاٹا اصلاحات پر اسی ماہ عمل درآمد کیا جائے گا۔ انھوں نے کہاکہ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات اس سال اکتوبر سے پہلے پہلے کرائے جائیں گے، جبکہ فاٹا کی اقتصادی ترقی کے لیے اگلے دس برسوں میں ایک ہزار ارب روپے دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فاٹا میں ایجنسی ڈویلپمنٹ فنڈ پر ہونے والے اعتراضات کے تناظر میں اس فنڈ کو ختم کردیا گیا ہے۔ فاٹاکو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے متعلق
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز اور تمام پارلیمانی راہنمائوں سے مشاورت کرکے اس کا اعلان اسی ماہ کرے گی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فاٹا سے متعلق قومی اسمبلی میں جو اعلانات کیے ہیں بظاہر تو قبائل سمیت پوری قوم کے لیے ان پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اگر ملک کا ایک انتظامی سر براہ ریاست کے 22 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمان میں آن ریکارڈ کوئی بات کرتا ہے تو اس پر یقین نہ کرنے کا کو ئی جواز نہیں بنتا، لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت تمام متعلقہ اعلیٰ حکومتی اہلکار اس سے پہلے بھی تو متعدد مرتبہ اسی نوع کے اعلانات ایک نہیں بلکہ کئی مرتبہ کرچکے ہیں، لہٰذا جب ان پر اب تک عمل نہیں ہوا ہے تو اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وزیراعظم اپنے اقتدار کے ان آخری ایام میں اتنا بڑا قدم اٹھا پائیں گے، جب کہ ان کی حکومت بھی ہر طرف سے شدید دبائو میں ہے! واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی قبائلی علاقوں تک توسیع کا جو بل پچھلے دنوں خدا خدا کرکے ایوانِ بالا سے منظور ہوا تھا، نہ تو اس کا اعلامیہ تاحال جاری ہوسکا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں وہ تمام ضروری ہو م ورک مکمل ہوا ہے جو اعلیٰ عدلیہ کی قبائلی علاقوں تک توسیع کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح فاٹا میں اب تک چونکہ پرانا انتظامی اور سیاسی نظام ہی نافذ ہے، لہٰذا ان نظاموں کے ہوتے ہوئے نہ جانے فاٹا میں اعلیٰ عدلیہ کا دائرۂ کار کس طرح نافذ العمل ہوگا، اور اعلیٰ عدالتوں کے دائرۂ کار کو عدلیہ کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے بغیر کیونکر توسیع دی جاسکے گی! اسی طر ح وزیراعظم کا اِس سال اکتوبر سے پہلے پہلے فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی بظاہر بہت خوشنما نظر آتا ہے، لیکن قبائل کے دیگر ایشوز جن میں ان کی بحالی، تباہ شدہ نجی اور سرکاری املاک کی تعمیرنو، تباہ ہونے والے کاروباروں کے معاوضے کی ادائیگیوں، اور سب سے بڑھ کر قبائل کے اعتماد کی بحالی، نیز گمشدہ ہزاروں قبائل کی باعزت رہائی جیسے مسائل کی موجودگی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد قبائل کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہی قرار پائے گی۔ دراصل جب تک فاٹا میں ایف سی آر کا سیاہ قانون موجود ہے، اور وہاں کے لوگوں کو آئینِ پاکستان کے مطابق زندگی کی بنیادی سہولیات اور حقوق حاصل نہیں ہیں تب تک بلدیاتی انتخابات یا پھر اسی نوع کے چند نمائشی اعلانات قبائل کے ستّر سالہ احساس محرومی کا مداوا کبھی بھی نہیں کرسکتے۔ قبائل کے ساتھ ماضی میں روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا ازالہ اسی طرح ہو سکتاہے کہ ان کو مزید وعدے وعید پر ٹرخانے کے بجائے انھیں وہی حقوق دیے جائیں جو حقوق ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ قبائل کی پاکستان کے ساتھ تمام تر وفاداری اور ہر کٹھن موقع پر قبائل کے آگے بڑھ کر پاکستان کے تحفظ اور ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کے باوجود نہ جانے انہیں اب تک انسان کیوں نہیں سمجھا گیا، اور ان کو قومی دھارے میں لانے کے جو بلند بانگ دعوے اب تک کیے جاتے رہے ہیں ان دعووں پر پچھلے ستّر برسوں میں عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ اور اس طویل تاخیر اور قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس نازیبا سلوک کا ذمے دار آخر کون ہے؟ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو قبائل کے ساتھ اس سوتیلے سلوک میں ہمیں آمر اور منتخب ہر دورکے حکمرانوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، بلکہ پچھلے ستّر برسوں کے دوران پاکستان میں ریاستی معاملات چلانے کے جتنے اچھے یا برے تجربات کیے گئے ان میں کسی بھی موقع پر قبائل کے ساتھ احسان اور شفقت کا سلو ک کرنے کی تو فیق کسی کو بھی نصیب نہیں ہوسکی، نتیجتاً پچھلے ستّر برسوں میں قبائل کی زندگی میں شاید کوئی بھی ایسا موقع نہیں آسکا ہے جس پر وہ فخر کرسکیں، بلکہ اگر دیکھا جائے تو قبائلی علاقوں کو سرزمینِ بے آئین ہونے کی وجہ سے ہر حکمران نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیر اب بھی چونکہ کچھ قوتیں اپنے بعض مخصوص مفادات کے لیے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے اس عمل کو روکنے اور اسے سست بنانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جن میں تازہ شوشا ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قبائل کے مستقبل کو مزید تاریک بنانے اور انہیں قومی دھارے سے دور کرنے کے لیے متذکرہ تحریک کے ذریعے جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے، اس تحریک سمیت ایسی دیگر تحریکوں اور مواقع کی جانب ہم انہی صفحات میں عرصہ دراز سے نہ صرف توجہ دلاتے رہے ہیں بلکہ متعلقہ ریاستی اداروں کو دردمندی کے ساتھ یہ احساس بھی دلاتے رہے ہیں کہ اگر قبائل کے زخموں پر بروقت مرہم نہ رکھا گیا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ زخم ناسور بن کر ریاست کے پورے وجود کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا اب بھی اگر ریاستی اداروں نے حالات کی نزاکت کا احساس نہ کیا تو خدانخواستہ قبائلی علاقوں کے حالات بگڑ کر اس حد تک پہنچ سکتے ہیں جہاں سے واپسی شاید کسی کے بس میں بھی نہیں ہوگی۔ لہٰذا حالات کے اس نہج تک پہنچنے سے پہلے پہلے جتنا جلدی ہوسکے، ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے وہ تمام جرأت مندانہ فیصلے کرلینے چاہئیں جن کے ذریعے قبائل کے احساسِ محرومی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی کو پوری دنیا دیکھ اور محسوس کرسکے۔ توقع ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں حکومت اس ضمن میں مزید کسی تاخیر اور تاویل سے کام نہیں لے گی اور وزیراعظم کے اعلان کے مطابق فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام، نیز صوبائی اسمبلی میں اس کی نمائندگی کے ایشو پر مزید کسی بلیک میلنگ اور دبائو کا شکار نہیں ہوگی۔
دریں اثناء وزیراعظم کی زیر صدارت اسلام آباد میں فاٹا اصلاحات کے ایشو پر تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کے اجلاس کے بے نتیجہ ختم ہونے کی اطلاعات نے ان خدشات کو مزید گہرا کردیا ہے کہ وزیراعظم فاٹا اصلاحات کے جو اعلانات گزشتہ دنوں میران شاہ اور قومی اسمبلی میں اپنے خطابات کے دوران کرچکے ہیں وہ شاید اعلانات ہی ثابت ہوں گے، کیوں کہ وزیراعظم اپنی دو حکومتی اتحادی جماعتوں جمعیت(ف) اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہان مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو تادم تحریر فاٹاکے خیبر پختون خوا میں انضمام کے ایشو پر رام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، جس سے قبائل کے دن پھرنے کے امکانات بظاہر دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔