کوئٹہ،دہشت گردی کی نئی لہر

حالیہ دنوں کوئٹہ میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات میں پھر سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خصوصاً ہزارہ برادری کے کئی افراد وسطی شہر اور نواحی علاقوں میں قتل ہوچکے ہیں۔ مغربی بائی پاس پر اپریل کی 22 تاریخ کو دو افراد کی لاشیں سڑک کنارے پڑی ملیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ دونوں افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ ان میں ایک بلوچستان شیعہ کانفرنس کے ڈپٹی سیکورٹی انچارج محمد علی تھے۔ 28 اپریل کو وسطی شہر کے اندر واقع جمال الدین افغانی روڈ پر الیکٹرونکس کی دکان پر فائرنگ ہوئی جس میں چچا بھتیجا جاں بحق ہوئے۔ یہ دونوں بھی ہزارہ تھے۔ ہزارہ برادری کی جانب سے 28 اپریل سے یکم مئی تک دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف منظم احتجاج ہوا۔چنانچہ اس واقعے کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے میزان چوک پر احتجاج کیا۔ احتجاج میں دوسری تنظیمیں اور حلقے بھی شامل ہو گئے۔ ایک ہزارہ خاتون وکیل جلیلہ حیدر نے بھی چند خواتین کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور اسی دوران تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کا اعلان بھی کردیا۔ وہ عدالت روڈ پر پریس کلب کے باہر احتجاج پر بیٹھ گئیں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سول لباس میں آنے تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ یہ خاتون انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کے والد حیدر کامل افغانستان کی پرچم پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر نجیب طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے تو انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی تھی۔ جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ 2013ء میں حلقہ این اے260 سے انتخاب بھی لڑچکی ہیں۔ اپنی قوم کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف وہ پہلے بھی احتجاج کرچکی ہیں۔ اِس بار ان کے احتجاج نے مجلس وحدت المسلمین کو بھی احتجاج پر مجبور کردیا۔ حالانکہ ایم ڈبلیو ایم صوبائی حکومت کا حصہ ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے اُس وقت مظاہرہ کیا جب اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا۔ مظاہرے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔ اسی دن مجلس وحدت المسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی اور صوبائی وزیر قانون آغا رضا نے بھی اسمبلی کے سامنے دھرنا دے دیا۔ علمدار روڈ پر شیعہ تنظیموں کا مشترکہ دھرنا ہوا، جبکہ مغربی بائی پاس پر بھی دھرنا دیا گیا جس میں خواتین بھی شریک تھیں۔ سید آغا رضا کا احتجاج سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ خود حکومت کا حصہ ہیں، اس لیے معلوم نہیں انہوں نے احتجاج کس کے خلاف شروع کیا؟ مجلس وحدت المسلمین کو پورے پاکستان میں عام انتخابات میں ناکامی ہوئی۔ محض صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی ملی جو کہ پی بی 2 کوئٹہ کی نشست ہے، جس پر آغا رضا کامیاب ہوئے۔ یعنی پورے پاکستان میں اس جماعت کو ہزارہ عوام نے ووٹ دے کر ایک نشست کا حامل ٹھیرایا۔ آغا رضا نے بھی دھرنے کے دوران کہا کہ آرمی چیف کوئٹہ آجائیں۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہزارہ عوام کے قتل میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے جو امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے۔ اگر بات امریکہ کو خوش کرنے کی، کی جائے تو ایران نے عراق میں امریکہ کے ساتھ مل کر صدام حسین کا قلع قمع کیا اور وہاں پر ایران نواز حکومت تشکیل دی۔ عراق اجڑگیا۔
اسی طرح افغانستان میں بھی ایران نے امریکہ کا کھلم کھلا ساتھ دیا، بلکہ افغانستان کی شمال کی اقوام بالخصوص ہزارہ قوم نے طالبان کی حکومت کے خلاف امریکی قبضے میں ساتھ دیا۔ پھر کیا ہوا، افغانستان میں داعش نے شیعہ ہزارہ لوگوں کی مساجد، امام بارگاہوں، مذہبی و سیاسی اجتماعات اور جلوسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب داعش کے نشانے پر نہیں ہے؟ یقینا ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں سعودی مفادات کے خلاف کئی کارروائیاں کرچکی ہیں، تو پھر داعش کس کے کہنے پر افغانستان کی ہزارہ آبادی کو نشانہ بنارہی ہے! کوئٹہ کے اندر بھی لشکر جھنگوی العالمی، جماعت الاحرار اور داعش کے اشتراک سے دہشت گردی ہورہی ہے جنہوں نے عیسائی برادری کے افراد کو کئی حملے کرکے قتل کیا ہے۔ پولیس، ایف سی وکلااور مذہبی رہنمائوں پر حملے کیے۔ سعودی عرب اور ایران کی کش مکش فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے افغانستان، عراق، شام ، یمن اور بحرین سمیت کئی عرب ممالک اس کشمکش کی وجہ سے عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہوچکی ہے، لاکھوں مسلمان تہِ تیغ ہوچکے ہیں، لاکھوں کروڑوں بے گھر ہوگئے ہیں اور دیار غیر میں افلاس اور بے یارومددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مہلک ترین ہتھیاروں سے مسلمان نشانہ بن چکے ہیں۔
جلیلہ ایڈووکیٹ کا مؤقف یہ ہے کہ ان واقعات کے پیچھے وردی ہے، اور یہ وردی پاکستان کے خفیہ اداروں اور فورسز کی ہے۔ ان کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں سرخ ٹوپی والے یعنی پشتون تحفظ تحریک کے حامی بھی آ گئے۔ 30 اپریل کی رات کو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کوئٹہ پہنچے۔ انہوں نے آغا رضا، بلوچستان شیعہ کانفرنس کے عہدیداروں اور ہزارہ برادری کے دوسرے عمائدین سمیت جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ سے بھی ملاقات کی، لیکن بات نہ بن پائی۔ آخرکار یکم مئی کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئے، انہوں نے سدرن کمانڈ آفس میں ہزارہ برادری کے علماء، سیاسی اور دوسری شخصیات سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی دوبارہ پہنچ گئے۔ اس ملاقات میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے بھی شریک تھے۔ یقینا آرمی چیف نے انہیں تحفظ کے مزید اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہوگی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ یہ دہشت گرد رواں سال اب تک صرف کوئٹہ میں37 سیکورٹی اہلکاروں کو مارچکے ہیں۔ آرمی چیفسے مذاکرات کے بعد ہزارہ برادری کے عمائدین نے یکم مئی کو احتجاج ختم کردیا۔ بعد ازاں احسن اقبال نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھی جلیلہ ایڈووکیٹ کو بھی جوس پلاکر ہڑتال ختم کرادی۔ انہیں چھائونی لے جاکر ان کی آرمی چیف سے ملاقات کرائی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ جنگ بحیثیت شہری و قوم سب کو مل کر لڑنی ہے۔ اس کو مذہب و مسلک کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کل کلاں ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں، پھر اگر احتجاج کیا جائے تو کس کے آنے کی شرط رکھی جائے گی؟ آرمی تو خود ان گروہوں کے خلاف میدان میں ہے۔
27 اپریل کو طوغی روڈ پر فجر کی نماز کے بعد مسجد کے امام کے بھائی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ جو کہ مؤذن بھی تھا، 29 اپریل کو جان محمد روڈ پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے دکانوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے تین افراد کو قتل کردیا۔ مرنے والوں میں ایک شخص پرچون کی دکان کا مالک تھا اور دو افراد تندور میں کام کرنے والے تھے۔ کیبل آپریٹر کے دفتر پر بھی گولیاں برسائی گئیںاور مرنے والے سب کے سب سنی تھے۔ 8 اگست2016ء کو سول ہسپتال خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے سارے وکیل سنی تھے۔ یقینی طور پر دہشت گرد افراتفری اور عدم استحکام کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے لیے بحیثیت پاکستانی اور یہاں کے شہری مقابلے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اس ذیل میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کبھی احتجاج میں انتہا پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی قوم کے معصوم و بے گناہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہے۔ معلوم حقیقت یہ بھی ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان میں موجود ہیں، لہٰذا نفرت کا اظہار افغان حکومت، اس کے خفیہ ادارے اور بھارتی جاسوسی کے اداروں کے خلاف ہونی چاہیے، نہ کہ پاکستان آرمی یا خفیہ اداروں کے خلاف۔ مجلس وحدت المسلمین کے رکن اسمبلی آغا رضا کا 3مئی 2018ء کے اخبارات میں بیان چھپا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ہزارہ برادری کے احتجاج کو چند شرپسند اور بیرونی ایجنڈے پر کاربند عناصر نے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جسے ہم نے ناکام بنایا اور اپنے جائز مطالبات سول و عسکری قیادت سے منظور کروائے۔ نیز یہ کہا کہ ہمارے احتجاج کو ہائی جیک کرکے اسے ریاست مخالف احتجاج بنایا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو بیرونی ممالک کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ہم پر پاکستان مخالف ٹھپہ لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن ہم نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا‘‘۔ آغا رضا کا اشارہ غالباً جلیلہ ایڈووکیٹ کی جانب ہے۔ یہ خاتون سیکولر سوچ کی حامل ہیں۔