ماہ رمضان ایک بار پھر سایہ فگن ہے۔ خاتم الانبیا محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم رجب کے مہینے ہی سے اس عظیم اور بابرکت مہینے کا خیر مقدم کرنے کے لیے تیاری شروع کردیتے تھے۔ ماہ شعبان المعظم میں خصوصی خطبہ دے کر اپنے اصحاب کو رمضان کریم کے استقبال کی تیاری کا سبق دیا تھا۔ ماہ رمضان المبارک انسانی تاریخ کے سب سے اہم واقعے کی یادگار ہے۔ اس واقعے کا تعلق تخلیق کائنات سے بھی ہے۔ یعنی انسانیت کے لیے اﷲ کی آخری ہدایت قرآن کے نزول اور آخری ہادی حضرتِ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے ہے۔ اﷲ نے جب روئے زمین پر سب سے پہلے بشر حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا تھا تو زندگی کے لیے اپنی ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت انسانیت کے لیے رب العالمین کی جانب سے بھیجی جانے والی ہدایت کی تکمیل تھی۔ وہ مہینہ ماہ رمضان تھا جس میں الروح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام نے غارِ حرا میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر پہلی وحی نازل فرمائی۔ جس رات کو یہ عظیم واقعہ پیش آیا اسے اﷲ رب العزت نے ہزار مہینوں سے بڑھ کر خیر و برکت کی رات یعنی شب قدر قرار دیا۔اس کے بعد سے اﷲ تعالیٰ کے حکم اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام اہل ایمان ماہ رمضان المبارک کے دنوں میں روزہ رکھتے ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں اس عظیم شب کی تلاش میں قیام کرتے یعنی نوافل ادا کرتے ہیں۔ 23 برسوں تک وقفے وقفے سے اﷲ کے احکامات قرآن کی آیتوں کی شکل میں نازل ہوتے رہے اور سورۃ فاتحہ سے ناس تک 114 سورتوں پر مشتمل آخری کتاب ہدایت ہمیشہ کے لیے مرتب کرکے محفوظ کردی گئی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری رمضان المبارک میں پورا قرآن مجید دو بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سنایا اور حضرت جبرائیلؑ نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سنایا۔ اﷲ کی آخری ہدایت کی روشنی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کی تشکیل ہی نجات کی ضمانت ہے۔ اس کتاب ہدایت سے استفادے کے لیے اہل ایمان کی اخلاقی اور باطنی تطہیر لازمی ہے۔ اس باطنی تطہیر کا نام تقویٰ ہے۔ اﷲ کے خوف اور تقویٰ کی صفت پیدا کیے بغیر انسانی سماج میں عدل و انصاف کا قیام نا ممکن ہے۔ اسی مقصد کے لیے اﷲ نے نزول قرآن مجید کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے رمضان کے مہینے میں روزے فرض اور رات میں نوافل کی ادائیگی کی ترغیب دی ہے۔ تاکہ تقویٰ کی صفت پیدا کی جائے۔ ماہ رمضان المبارک کی آمد کے بعد فضا تبدیل ہوجاتی ہے۔ خیر و برکت کی فضا جو انسان کی قلب سے آلودگی کو دور کرتی ہے تاکہ وہ توانائی پیدا ہوجو اﷲ کی آخری ہدایت سے استفادہ کا سبب بن سکے۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اﷲ کی آخری کتاب ہدایت کے باوجود مسلمانوں کا کردار پست ہوگیا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہورہاہے۔ حلال و حرام کی تمیز مٹ گئی ہے، ہر مسلم ملک میں فساد کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ جو جتنا طاقتور ہے وہ اتنا ہی اﷲ کے خوف سے آزاد ہے جس نے اجتماعی زندگی کو اخلاقی بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں کو یہ کہنے کی جرأت بھی ہوگئی ہے کہ اخلاقیات کمزور لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی مقدس فضا انسان کی اصلاح اور تعمیرسیرت کی مددگار ہوتی ہے۔ یہ تمام اہل علم کی ذمے داری ہے کہ وہ اس مقدس فضا کی حفاظت کریں۔ جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ عہدحاضر میں فضا کی تکمیل میں برقی ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہے، جب سے ٹیلی ویژن کی نشریات نجی شعبے میں دی گئی ہیں اور وہ مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں رمضان کی نشریات ، رمضان کی مقدس فضا کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ بات خوش آئندہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رمضان کی آمد سے قبل ’’آزاد‘‘ ٹی وی چینل کی رمضان کی نشریات کا نوٹس لیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس سال نجی ٹی وی چینل پر رمضان کی نشریات میں وہ خرافات نہیں ہوں گی جن سے ماہ رمضان المبارک کی حرمت اور تقدیس مجروح ہوتی ہے۔ سحر اور افطار کی نشریات کے مقدس اوقات کو رمضان کی نشریات کے نام پر مجروح کیا جاتا ہے۔ رمضان کی تمام نشریات ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ’’ اقدار‘‘ کے مطابق تیار کی جاتی ہیں بجائے اس کے کہ رمضان کی رو ح کے مطابق تیار کی جائیں۔ رمضان کا اولین مقصد یہ ہے کہ انسانی قلب میں ہوس اور لالچ کا خاتمہ کیا جائے جو دنیا پرستی کی بنیاد ہے جس کے نتیجے میں اخلاقی عیوب پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ اب سرکاری ٹی وی سے بھی نماز کے اوقات میں اذان نشر کرنی بند کردی گئی ہے ۔ عدالت نے پیمرا سے رپورٹ طلب کی ہے کہ بتایا جائے کہ 117چینلوں میں سے کتنے چینل اذان نشر کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے رمضان کی نشریات میں نیلام گھر قسم کے بے ہودہ پروگراموں پر پابندی بھی عاید کی ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں غیرت و خود داری جیسی صفات کے برعکس لالچ اور ہوس پیدا کی جاتی ہے اور کھیل کود کے ذریعے رمضان کا تقدس مجروح کیا جاتا ہے۔ رمضان میں بھی ایسے اشتہارات چلائے جاتے ہیں جن پر عام دنوں میں بھی پابندی ہونی چاہیے اس لیے کہ معاشرے کی فضا کو پاکیزہ رکھنا انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے لازمی ہے۔ اخلاقی تربیت کے اس مہینے کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے آلودہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اس طرف ایک مثبت قدم ہے۔ جس طرح ذرائع ابلاغ رفتہ رفتہ مادر پدر آزاد ہو رہے ہیں اور مخلوط معاشرے کو رواج دے رہے ہیں اس پر روک لگانا ضروری تھا۔ امید کی جاتی ہے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوگا اور ہمارے ذرائع ابلاغ معاشرے کو پاکیزہ بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔