محمود عزیز
’’جب آپ سب لوگ ان کی اتنی تعریفیں کررہے ہیں تو پھر یہ اچھے ہی ہوں گے اور میں جھوٹی‘‘۔ یہ وہ ذومعنی کلمات تھے جو پروفیسر نبیلہ عرفان نے اپنے شوہرِ نامدار عرفان شاہ کے بارے میں کہے جب انہیں 21 اپریل کو شاہ صاحب صدر شعبہ اردو سراج الدولہ گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر 2 کراچی کو شان الحق حقی کی حیات و علمی و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا ہونے پر آرٹس کونسل آف پاکستان کی یوتھ کمیٹی کی طرف سے منعقدہ تقریبِ پذیرائی میں ’’گھر کی گواہی‘‘ دینے کے لیے بلایا گیا۔ بے شک گھر کی گواہی معتبر ہوتی ہے۔ عموماً پتی وَرتا خواتین کہتی ہیں ’’پردہ ہے، پردے میں رہنے دو‘‘۔ مگر کہیں موصوفہ نبیلہ عرفان سیناپتی بنتے ہوئے یہ تو نہیں کہہ رہی تھیں: ’’آپ جتنا چاہیں شاہ صاحب کے شاہ سے زیادہ وفادار ہوجایئے، میں انہیں خوب جانتی ہوں، آپ نے شاید انہیں ابھی پہچانا نہیں‘‘۔
دوسرا زاویۂ نظر عرفان شاہ کے مرحوم سسر کا تھا جو حیوانیات کے معروف پروفیسر تھے اور حیوانوں پر ان کی گہری نظر تھی، اور انہوں نے شاہ صاحب کو انسانیت سے مرصع پاکر اپنی چاند سی بَنّو اُن کے حوالے کردی تھی۔
عرفان شاہ، جو اب ڈاکٹر عرفان شاہ ہیں، شہرِ قائد کراچی کے علمی، ادبی اور سماجی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔
شاہ صاحب طالب علمی کے زمانے سے ہی نمایاں رہے۔ انہوں نے مباحثوں اور معلوماتِ عامہ کے پروگراموں میں نام پیدا کیا، کالج کے مجلہ کے مدیر رہے، تحریر و تقریر کے دھنی رہے، کالم نگار اور صحافی بھی رہے، پھر تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا اور کالج میں طالب علموں کو اردو زبان و ادب کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ’’شان الحق حقی‘‘ پر تخلیقی کام کیا۔ شان الحق حقی اردو کے ایک بڑے ادیب، شاعر، مترجم، نقاد، مدیر، نعت نویس اور اشتہاری دنیا کی ایک بلند و بالا شخصیت تھے، اور جن کے والد مولوی احتشام الدین نے انجمن ترقیٔ اردو کے لیے نعت کبیر ترتیب دی ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت، اساتذہ سے کسبِ فیض اور مطالعہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، نہ کہ کسی بابِ رعایت سے۔
عرفان شاہ صاحب نے اُس علمی و ادبی کہکشاں جو مسلم شمیم، پروفیسرانوار احمد زئی، پروفیسر سید عدیل احمد، پروفیسر حافظ نسیم الدین، پروفیسر سراج الدین قاضی، پروفیسر کرن سنگھ، ڈاکٹر شکیل خان اور سید امجد بخاری پر مشتمل تھی، کے کلمات ہائے تحسین کا منکسرالمزاجی سے جواب دیتے ہوئے موجودہ مقام تک پہنچنے پر اپنے ہر ہر محسن کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنے عروج و ترقی میں اُن کے کردار کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ سید امجد بخاری چیئرمین یوتھ کمیٹی نے ان کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں شیلڈ پیش کی۔ شاہ صاحب نے انجمن ترقی اردو کے کتب خانہ اور ناظم کتب خانہ سید محمد معروف کا خصوصی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے مقالے کی تکمیل میں بھرپور مدد کی۔ صاحبِ صدر مسلم شمیم نے کہا کہ عرفان شاہ صاحب نے حقی صاحب پر پی ایچ ڈی کرکے ایک طرح سے اُن کی ولادت کا جشن منایا ہے کیونکہ حقی صاحب 1917ء میں پید اہوئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ان کی کتاب شائع ہوگی، جس
کی ذمے داری بقائی یونیورسٹی نے لی ہے، (واضح رہے بقائی یونیورسٹی کی علم دوست وائس چانسلر ڈاکٹر زاہدہ بقائی نے عرفان شاہ کی کتاب کو پسند کرکے اس کی اشاعت کی ہدایت کی ہے) تو ایسی ہی پُرشکوہ تقریب منائی جائے گی۔
عرفان شاہ، جو بزم اساتذہ سندھ (رجسٹرڈ) کے معتمد عمومی بھی ہیں، یوں تو تقریب میں ہشاش بشاش رہے مگر انہوں نے حسرت ناک لہجے میں کہا کہ افسوس مسرت کا یہ لمحہ اُن کی مرحومہ والدہ نہیں دیکھ سکیں گی جو کہا کرتی تھیں ’’بیٹا تمہاری کتاب کب آئے گی؟‘‘ شاہ صاحب نے تقریبِ پذیرائی کے انعقاد کو اپنے والدین کی ارواح کی شادمانی کا باعث قرار دیا۔
جہاں آرٹس کونسل نے شاہ صاحب کے لیے تقریب پذیرائی منعقد کرکے اپنی علم دوستی اور فروغِ علم و ادب کا ثبوت دیا، وہیں حاضرین نے علم پروری اور شاہ صاحب سے محبت کا ثبوت دیا، جن کی پُرتکلف ضیافت سے تواضع کی گئی۔
پروفیسر محمد علی نے نظامت کے فرائض بطریقِ احسن ادا کیے۔ مقررین کو دعوتِ خطاب دیتے ہوئے اور اختتامِ خطاب پر ان کے برمحل خیر مقدمی اور تحسینی کلمات نے فضا کو خوش گوار بنائے رکھا اور ان کے برجستہ فقروں اور خاص طور پر موقع کی مناسبت سے پڑھے جانے والے اشعار نے ماحول کو لطیف رکھا۔ پروفیسر صاحب یوں تو مطالعہ پاکستان کے استاد ہیں مگر ان کے مطالعے و ذوق و شوقِ شعری اور عمدہ حافظہ نے ان کو حافظِ سخن بنادیا ہے۔