انسان کا تصور قرآن کی نظر میں

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

مساوات:
اسلام کی نظر میں سارے انسان برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب ایک آدم علیہ السلام اور ایک حواؑ کی اولاد ہیں اور اس رشتے سے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سب ایک خدا کے بندے ہیں اور وہی سب کا پروردگار ہے۔ خدا کی رحمتیں سب کے لیے عام ہیں اور اس کی ہدایت بھی سارے انسانوں کے لیے یکساں ہے۔انسان جوڑے کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اسلام کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں نوعیں ایک ہی جنس میں اور ایک ہی جان سے پیدا کی گئی ہیں۔ اس لیے آپس میں ہم مرتبہ ہیں۔ مرد ہو یا عورت، دونوں یکساں طور سے اپنے عمل کا بدلہ پانے کے حق دار ہیں، اور جس طرح عورت پر مرد کے حقوق ہیں، اسی طرح مرد پر عورت کے بھی حقوق ہیں۔انسانوں کے درمیان نسل و نسب کی بنا پر بھی کوئی امتیاز روا نہیں، ان کے درمیان قبیلوں اور خاندانوں کی بنیاد پر بھی کوئی اونچ نیچ نہیں، قبیلے اور گروہ صرف شناخت کے لیے ہیں، فخر و مباہات کے لیے نہیں۔
انسان کی کمزوریاں کیا ہیں؟
ہر انسان کو ایک روز موت آنی ہے۔ ابدی زندگی کسی کے لیے نہیں ہے۔ خوش حالی میں اکڑ جانا اور مصیبت میں خدا کو یاد کرنا اس کی فطرت ہے۔ وہ تفرقہ پسند ہے۔ وہ اکثر غلط چیز کو حق سمجھ لیتا ہے اور اس کے لیے دلائل کے انبار لگادیتا ہے۔
وہ مال و دولت اور مادی وسائل کا لالچی ہے۔ عورتیں، اولاد، سونے، چاندی کے ذخیرے، مویشی اور کھیتیاں… بس دنیاوی زندگی کی اسی رونق پر وہ جان دیتا ہے۔انسان تھڑدلا ہے۔ دوسرے کی مدد کے بجائے نمائش اور پروپیگنڈا اسے زیادہ پسند ہے۔
انسان عجلت پسند ہے اور ہر چیز کا نتیجہ جلد از جلد دیکھ لینا چاہتا ہے۔ مال و دولت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی ہوس اسے قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ وہ ذرا فارغ البال ہوجائے تو خاکساری کی جگہ سرکشی کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مضبوط ایمان اور بلند کردار سے محروم ہوکر انسان ہمیشہ گھاٹے ہی میں رہا ہے۔
دنیا میں انسان کی صحیح حیثیت:
انسان اس زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ وہ اس زمین پر خدا کے احکامات کے شعوری نفاذ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ خدا کی عبادت ہی اس کا مقصدِ وحید ہے۔کائنات کی ذمے داری اس کے حوالے کرکے اسے وہ امانت سونپی گئی ہے جس کا اہل کائنات میں کسی کو بھی نہیں سمجھا گیا ہے۔خدا نے اس ذمے داری کو سنبھالنے کے لیے اسے علمِ حقائق کائنات دیا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے علم کے خلاف کوئی عقیدہ یا عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ انسان کی کمزوریوں کا استحصال کرکے انسان کو اس کے مقصدِ وجود سے غافل کردینا چاہتا ہے۔ شیطان خواہشاتِ نفس کے ذریعے انسان کا شکار کرلیتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے اس دشمن سے وہ ہمیشہ چوکنا رہے، اور نفسِ شریر کی ترغیبات میں بہک کر راہِ راست سے نہ پھسل جائے، ورنہ وہ عذابِ دوزخ کا مستحق ہوجائے گا۔
انسان کے لیے صحیح راہِ عمل:
شیطان کی انسان دشمنی کی وجہ سے انسان ایک مستقل آزمائش میں مبتلا ہے۔ اس کے سامنے خیر و شر کی دونوں راہیں کھلی ہیں۔ شیطان انسان کو شر کی جانب راغب کرتا ہے۔ انسان کی خیر پسندی اسے خیر کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ شیطان کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ گناہ کو پُرکشش بنا کر انسان کو بہکا سکے، تو شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا نے انسان کو ایک اخلاقی حس عطا کی ہے جس کی بنا پر انسان خود جانتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے یا غلط راہ پر۔اللہ نے انسان کو ایک ضمیر عطا کیا ہے جو اسے نیکی کی رغبت دلاتا اور بُرائی سے نفرت دلاتا ہے۔ اس کے ساتھ انسان کے لیے خدا نے رسول بھیجے ہیں جو انسان کو سیدھی راہ بتاتے ہیں۔ خدا کی کتابیں نازل ہوئی ہیں جو انسان کو شیطان کا مقابلہ کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ خود انسان کی ذات میں اور اس کی ذات سے باہر کائنات میں ایسی متعدد نشانیاں موجود ہیں جو خدا کے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ خدا کی عبادت کا تقاضا اس کی فطرت میں ڈال دیا گیا ہے۔خیر و شر کی اس کشمکش میں ہر انسان کے اعمال کا مکمل ریکارڈ تیار ہورہا ہے، جو قیامت کے روز اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اسی ریکارڈ کے مطابق انسان کے لیے جزا یا سزا کا فیصلہ ہوگا۔
ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے اور کوئی دوسرا اس کے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ نہ ہی خود عمل کیے بغیر انسان کوئی نتیجہ یا کوئی انعام حاصل کرسکتا ہے، اس کے مستقبل کا انحصار اس کی اپنی سعی و کوشش اور امتحان میں اس کے کامیاب ہوجانے پر ہے۔
انسان اپنے اعمال کے لیے اپنے خدا کے آگے جواب دہ ہے۔ اور خدا کی رضامندی، نیز دائمی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اسے شیطان سے رخ موڑ کر خدا کی طرف پلٹ آنا چاہیے اور اسی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا چاہیے۔

خوش آوازی قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: قرآن کو اپنی (اچھی) آوازوں کے ذریعے حسین بنائو، کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ (دارمی)
اب تک مسلسل ایسی حدیثیں آئی ہیں جن میں سے اگر ایک میں قرآن کو گا کر پڑھنے سے روکا گیا ہے تو دوسری میں اسے اچھی آواز سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ گا کر پڑھنے میں اور خوش آوازی سے پڑھنے میں فرق ہے، اور اسی فرق کی بناء پر ایک چیز ناپسندیدہ ہے اور دوسری پسندیدہ۔
حسنِ قرأت کا مفہوم کیا ہے
حضرت طائوسؒ سے مرسلا روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون شخص قرآن کو اچھی آواز سے اور اچھے طریقے سے پڑھنے والا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص کہ جب تم اسے پڑھتے ہوئے سنو تو تمہیں ایسا معلوم ہو کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے… حضرت طائوسؒ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسے ہی خوش آواز اور روانی سے پڑھنے والے تھے۔ (دارمیؒ)