مکہ مکرمہ کے گورنر اور مرکزی حج کمیشن کے سربراہ شہزادہ خالد الفیصل نے ہدایات جاری کی ہیں کہ رمضان کے مہینے میں مطاف کا صحن صرف معتمرین کے لیے مختص کردیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ معتمرین اپنے مناسک پوری سہولت اور راحت کے ساتھ ادا کرسکیں۔ حرمین شریفین کی پریذیڈنسی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رمضان کے مہینے میں مذکورہ ممانعت کا دورانیہ نمازِ مغرب سے لے کر نمازِ تروایح کے اختتام تک ہوگا۔ بعد ازاں آخری عشرے میں دورانیے کو بڑھا کر نمازِ تہجد تک کردیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آخری عشرے کے دوران اعتکاف کے خواہش مند حضرات کے لیے زیر زمین منزل (تہ خانے) کو مختص کیا جائے گا۔
جوہری معاہدہ ختم کرنے پر امریکہ کو پچھتاوا ہوگا: ایرانی صدر کی امریکہ کو تنبیہ
ایران کے صدر حسن روحانی کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 12 مئی کو جوہری معاہدے کی توثیق ختم ہونے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اُسے ختم کرنے پر غور کررہے ہیں۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’اگر امریکہ نے جوہری معاہدے کو ختم کیا تو اُسے تاریخی پچتھاوا ہوگا‘۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کے پاس ٹرمپ کے کسی بھی فیصلے کا جواب دینے کے لیے منصوبہ موجود ہے‘۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری معاہدے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، اسے ’فضول‘ قرار دیا ہے۔2015ء میں ایران، امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کا معاہدے کیا تھا، جس کے بعد ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کی گئی تھیں۔
فرانس، برطانیہ اور جرمنی امریکی صدر کو قائل کررہے ہیں کہ وہ معاہدے کو ختم نہ کریں کیونکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیے یہ معاہدہ بہت اہم ہے۔
سعودی عرب میں گرجا گھر کی تعمیر کے ، سوشل میڈیا کا دعویٰ
ویٹی کن سٹی کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں چرچ تعمیر کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، اس حوالے سے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر خبروں کا سامنے آنا غلط اور بے بنیاد ہے۔ ویٹی کن سٹی کی جانب سے ایک وضاحتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ کیتھولک چرچ کی بین المذاہب کمیٹی کے سربراہ کی قیادت میں ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں مختلف موضوعات سمیت کچھ معاہدوں پر باہمی طور پر دستخط بھی کیے گئے جس کا غلط تاثر دیا گیا اور مکالمے کے انعقاد کو سعودی عرب میں گرجا گھر بنانے کا معاہدہ قرار دے دیا گیا۔
’طوطن خامن کے مقبرے میںخفیہ کمرےکی تلاش
مصری حکام نے طوطن خامن کے مقبرے میں خفیہ کمرے کی تلاش کا عمل ترک کردیا ہے ۔اس سے قبل حکام نے کہا تھا کہ انھیں ’90 فیصد یقین ہے‘ کہ اس مشہور نوعمر بادشاہ کے تین ہزار سال قدیم مقبرے کی دیوار کے عقب میں ایک خفیہ کمرہ موجود ہے۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ یہ کمرہ ملکہ نیفرتیتی کا مقبرہ بھی ہوسکتا ہے جن کے بارے میں یہ خیال بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ طوطن خامن کی والدہ تھیں۔ اس کمرے کی تلاش کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب انگریز ماہرِ آثارِ قدیمہ نکولس ریوز نے طوطن خامن کے مقبرے کے اسکینز کا جائزہ لیتے ہوئے دروازوں کے مبہم نشانات کا اندازہ لگایا تھا۔2015ء میں شائع ہونے والے اپنے مقالے ’نیفرتیتی کی تدفین‘ میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ نسبتاً چھوٹا مقبرہ ملکہ نیفرتیتی کے لیے بنایا گیا تھا اور ممکن ہے کہ ان کی باقیات وہاں موجود ہوں۔
خیال رہے کہ نیفرتیتی کی باقیات آج تک نہیں مل سکیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد طوطن خامن کی تخت نشینی تک بطور فرعون مصر پر حکومت کی تھی۔ نکولس ریوز کے مقالے کی اشاعت کے بعد لیے جانے والے ریڈار اسکینز بھی ان کے دعوے کو مضبوط کرتے دکھائی دیے، جس کے بعد مصری حکام نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں 90 فیصد یقین ہے کہ مقبرے میں مزید ایک کمرہ موجود ہے۔ مصری حکام اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ایسے کسی خفیہ کمرے کا وجود نہیںاگر یہ کمرہ دریافت ہوتا تو یقینا یہ کئی دہائیوں میں مصری نوادرات اور آثارِ قدیمہ میں سب سے بڑی دریافت ہوتی۔
نواز شریف اور چودھری نثار
نوازشریف اور چودھری نثار علی خان کے تعلقات میں اتار چڑھائو کا سلسلہ 1999ء سے جاری ہے۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب 1988ء میں جنرل ضیاء نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا تو چودھری نثار نے جنرل ضیاء کے اقدام کی مذمت کی، تاہم نوازشریف نے انہیں جنرل ضیاء کی حمایت پر راضی کرلیا۔1990ء میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد نوازشریف نے صدر غلام اسحاق خان کو پنجاب کی نگران وزارتِ اعلیٰ کے لیے چودھری نثار کا نام دیا تھا لیکن بعد ازاں نوازشریف خود ہی نگران وزیراعلیٰ بن گئے۔ 1996ء میں صدر فاروق لغاری کے ذریعے بے نظیر حکومت کو برطرف کرانے کے لیے جوڑتوڑ میں چودھری نثار کا اہم کردار تھا۔ 1998ء میں جنرل پرویزمشرف کو آرمی چیف بنوانے میں کچھ دیگر افراد کے علاوہ چودھری نثار کا بھی کردار تھا۔
1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد نوازشریف جدہ چلے گئے تو چودھری نثار کے ساتھ غلط فہمیاں اتنی بڑھیں کہ چودھری نثار نے پیپلز پارٹی میں شمولیت پر غور شروع کردیا اور آمنہ پراچہ کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کا رابطہ بھی ہوگیا، لیکن شہبازشریف نے نثار کو اس ’’سانحے‘‘ سے بچا لیا۔ 2008ء میں چودھری نثار نے نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر کو راولپنڈی میں اپنے حلقے این اے 52 کے ضمنی الیکشن میں کامیاب کرایا۔ عام خیال یہ تھا کہ چودھری صاحب کسی نہ کسی طریقے سے نوازشریف اور ان کی اہلیہ کے دل میں اپنے لیے موجود غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے تھے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ نوازشریف کے ایک قریبی ساتھی نے مجھے بتایا کہ چودھری صاحب نے کیپٹن(ر) صفدر کو اپنے علاقے سے اس لیے ایم این اے بنوایا کیونکہ ان کے بہت قریبی عزیز یہاں سے ایم این اے بننا چاہتے تھے اور چودھری صاحب اپنے اس بہت قریبی عزیز کو انکار نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا انہوں نے کیپٹن(ر) صفدر کو زبردستی اپنے علاقے سے الیکشن لڑا کر شیلڈ کے طور پر استعمال کیا۔ اب جبکہ نوازشریف نااہل ہوچکے ہیں اور چودھری صاحب کے قریبی دوست شہبازشریف پارٹی صدر بن چکے ہیں تو چودھری صاحب نے نوازشریف کے خلاف باقاعدہ اعلانِ بغاوت کردیا ہے اور کہا ہے کہ نوازشریف خلائی مخلوق کے نام پر ریاستی اداروں کو بدنام کررہے ہیں۔ چودھری صاحب اگر اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کروا دیتے تو ریاستی اداروں کی بدنامی کے تمام راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتے، لیکن بطور وزیر داخلہ وہ یہ کام نہیں کرا سکے۔
اصغر خان کیس صرف عدلیہ کے لیے نہیں بلکہ اُن سب کے لیے بھی ایک چیلنج ہے جو ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس کیس کے فیصلے کو پڑھیں، اس میں فوج اور خفیہ اداروں کی ملک و قوم کے لیے قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان قومی اداروں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ انتخابات میں کسی خلائی مخلوق کی مداخلت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر آئندہ انتخابات سے قبل عملدرآمد کروا دیا جائے۔
(حامد میر۔ جنگ،7مئی2018ء)
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی
ایم کیو ایم پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے، میاں محمد نوازشریف کے ساتھ ہے اور زرداری کی حامی بھی۔ ان کے خلاف بلاول بھٹو چیخے چلّائے ضرور، اس عجیب لہجے میں جس پہ لوگ ہنستے ہیں، ان کی مذمت ضرور کی۔ الیکشن کے بعد لیکن ضرورت پڑی تو یک جان و دو قالب ہوجائیں گے۔
تاویل کا پھندا گر کوئی صیّاد لگا دے
شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
پہاڑ جیسی غلطی کا ارتکاب پیپلز پارٹی کررہی ہے۔ حالات کے تیور سے خوف زدہ، اپنے انجام سے خوف زدہ، جس شجاعت کے وہ مرتکب ہیں، ایک بار پھر لسانی فساد کی آگ وہ بھڑکا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی کوئی کسر چھوڑی نہیں۔ شہر بھر میں ’’جاگ مہاجر جاگ‘‘ کے بینر لگا دیئے ہیں۔ ہفتے کو تقاریر کا اسلوب بھی یہی تھا۔ شہلا رضا اور سعید غنی کو معقول لوگ مانا جاتا ہے۔ خوف میں گندھا ہیجان مگر ایسی چیز ہے کہ اچھے بھلوں کو عاقبت نااندیش بنا دیتا ہے۔
دونوں گروپوں نے پورے صوبے سے سامعین جمع کرنے کی کوشش کی، دونوں ناکام رہے۔
(ہارون رشید۔ دنیا،7مئی 2018ء)
انسان خسارے میں ہے
انسانوں کے علاوہ اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے والی اس کی بہت ساری مخلوقات ہیں جو اس کا شکر ادا کرتی ہیں، بس ایک ہم انسان ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے طلب گار بھی رہتے ہیں اور اس کی نعمتوں سے مستفید بھی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری زبان پر شکوہ شکایت ہی رہتی ہے۔ اسی لیے پہلے سے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے نعمتیں ہیں۔ ہمیں اس فانی دنیا میں ایک مخصوص وقت کے لیے بھیجا گیا ہے، لیکن ہم اس دنیا میں آکر کام اس طرح کے کرتے ہیں جیسے کہ ہمیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے، اور اس دنیاوی زندگی میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے احکامات کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ ہم کو بہت جلد لوٹ کر واپس اسی کے پاس جانا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے، اس دنیاوی زندگی کی شام دیکھتے ہی دیکھتے ہوجاتی ہے اور ہم واپس لوٹنے کو ابھی تیار بھی نہیں ہوتے کہ ابھی تو آئے تھے اتنی جلدی واپسی کا بلاوا بھی آگیا ہے۔ مگر ان سب کاموں میں اللہ کی حکمت ہے۔ صبح بیداری کی طرح سرِشام جب یہ پرندے واپس اپنے گھونسلوں میں لوٹتے ہیں تو ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا، میرا مطلب ہے کہ وہ آنے والے دن کی خوراک کا کوئی بندوبست کر کے نہیں آتے۔ وہ واپس اپنے گھونسلوں میں پلٹتے ہی ایک بار پھر اپنی سریلی آواز میں حمدو ثنا شروع کردیتے ہیں، اور رات کی سیاہی پھیلتے ہی ان کی آوازیں خاموش ہوجاتی ہیں تاکہ وہ آرام کرسکیں اور اگلی صبح دوبارہ بیدار ہوکر اللہ کی حمدو ثنا اور اس کی ر حمتوں کا شکر ادا کرنے میں مصروف ہوجائیں اور اس کے بعد اپنے رزق کی تلاش میں دوبارہ روانہ ہوجائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان پرندوں سے بڑا توکل رکھنے والا کوئی نہیں جو آنے والے دن کے لیے اپنے رب پر ہی بھروسا کرتے ہیں کہ وہی ان کے رزق کا بندوبست کرے گا۔ جب کہ ہم انسان جن کو بتادیا گیا ہے کہ اگلے سانس کی بھی خبر نہیں، اس کے باوجود اپنی تجوریاں اور بینک بیلنس بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یعنی اگر دیکھا جائے تو ہم نے توکل چھوڑ دیا ہے، اور جس نے توکل چھوڑ دیا وہ مسلمان کہلانے کے قابل نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں انسانوں اور دوسری مخلوق کے لیے نشانیاں ہیں، اوراس کی نعمتیں بے پایاں ہیںجن کا شمار ممکن نہیں۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
( عبدالقادر حسن۔ روزنامہ ایکسپریس، 8مئی2018ء)