ایم ایم اے کی بحالی کے بعد اس کا پہلا جلسہ عام مردان میں ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا ہے جب اسی روز جہاں ملک کی دو بڑی جماعتیں پی ٹی آئی لاہور اور پیپلز پارٹی کراچی میں اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کررہی تھیں، وہیں خیبر پختون خوا میں2013ء کے انتخابات میں بری طرح ناک آئوٹ ہونے والی اے این پی آئندہ عام انتخابات میں کسی بڑے بریک تھرو کی امید پر ٹھیک اسی دن جماعت اسلامی کے گڑھ دیر بالا میں اپنی سیاسی قوت کے مظاہرے کے ذریعے جماعت اسلامی باَلفاظِ دیگر متحدہ مجلس عمل کو چیلنج کررہی تھی، جبکہ اسی روز مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر امیر مقام نے سوات میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا، اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو نے صوابی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ متذکرہ جماعتیں ویسے تو بہت عرصے سے ملک بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص سرگرم عمل ہیں، لیکن اب جوں جوں عام انتخابات جن پر تاحال بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، قریب آرہے ہیں توں توں ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں میدان میں نکل چکی ہیں، اور حیران کن طور پر اے این پی اور قومی وطن پارٹی جیسی علاقائی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام نمایاں اور مرکزی دھارے میں شامل جماعتوں کی توجہ کا مرکز بھی خیبر پختون خوا بنا ہوا ہے۔ اس تناظر میں متحدہ مجلس عمل جس کا پاور بیس بھی خیبر پختون خوا ہی ہے اور جو 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں یہاں پانچ سال تک برسراقتدار بھی رہ چکی ہے، اپنی بحالی کے باوجود اب تک خیبر پختون خوا میں انٹری دینے سے معذور نظر آرہی تھی، جس کی کمی نہ صرف عوامی سیاسی حلقوں میں محسوس کی جارہی تھی بلکہ خود مجلس عمل میں شامل دیگر تین جماعتوں کے ساتھ ساتھ اس کی دو بڑی اور اہم رکن جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت (ف) کے وابستگان میں بھی اس حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی تھی۔ دراصل ایم ایم اے کی صفوں میں خیبر پختون خوا کی حد تک اس کے عہدیداران اور کارکنان میں پائی جانے والی بے چینی کی ویسے تو شاید کئی وجوہ ہوں گی، لیکن اس ضمن میں دو واضح اسباب ایسے ہیں جن کا انکار شاید مجلس عمل کے قائدین بھی نہیں کرسکیں گے۔ ان میں پہلی وجہ ایم ایم اے کی بحالی اور اس کی مرکزی و دیگر تین صوبوں میں تنظیم سازی کے باوجود خیبر پختون خوا میں اس حوالے سے جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی میں پایا جانے والا اختلاف اور تعطل ہے جس کی وجہ سے ایم ایم اے اپنی بحالی کے تین ماہ گزرنے کے باوجود اب تک خیبر پختون خوا میں کسی مشترکہ پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ اس عرصے میں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی اپنے اپنے اثر رسوخ والے علاقوں یعنی جنوبی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن میں مسلسل سیاسی قوت کے مظاہرے کرتی رہی ہیں لیکن صوبائی نظم نہ ہونے کے باعث اب تک ایم ایم اے بحیثیتِ مجموعی عملًا غیر فعال تھی، جبکہ خیبر پختون خوا میں اس کی عدم فعالیت کی دوسری بڑی وجہ ایم ایم اے کی دو بڑی اتحادی جماعتوں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کا بالترتیب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ ہونا رہا ہے۔ ان دونوں حکومتوں کی مثال اپنے سیاسی اختلافات کے باعث چونکہ آگ اور پانی جیسی ہے لہٰذا ان دونوں حکومتوں کے چھوٹے اتحادی یعنی جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی بھی ان حکومتوں کی اتحادی ہونے کے ناتے عملًا ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کھڑی تھیں، اس وجہ سے بھی
ایم ایم اے کی بحالی کے اعلان کے باوجود ایم ایم اے اب تک کم از کم خیبر پختون خوا میں عملاً بحال نہیں ہوسکی تھی، لیکن اب جب جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں زمینی حقائق اور درپیش سیاسی چیلنجزکا ادراک کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی مخلوط صوبائی حکومت سے برضا و رغبت ایم ایم اے کے وسیع تر مفاد میں قربانی دیتے ہوئے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے تو اس اعلان کے ساتھ ہی صوبے میں ایم ایم اے نہ صرف عملاً بحال ہوگئی ہے بلکہ اس نے مردان میں ایک کامیاب مشترکہ جلسہ عام کے انعقاد کے ذریعے ایک طرف سیاسی مخالفین کے منہ بندکرکے ایم ایم اے میں انتشار کی ان کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے اور دوسری جانب اس جلسے نے جہاں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کے کارکنان اور عہدیداران کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے وہیں اس کامیاب سیا سی شو نے ان سیاسی حلقوں کی ان پیش گوئیوں کو بھی غلط ثابت کردیا ہے کہ ایم ایم اے اپنے اندرونی اختلافات کے باعث اولاً تو فعال نہیں ہوسکے گی، اور اگر فعال ہو بھی گئی تو اس کی صفوں میں وہ دم خم نظر نہیں آئے گا جو 2002ء میں تھا۔ لیکن اب جب ایک جانب مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی انتخابی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ شمالی وزیرستان سمیت کرک، کوہاٹ اور نوشہرہ کے بعد ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مردان میں کامیاب جلسہ عام سے خطاب کرچکے ہیں جس میں جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق کے علاوہ ایم ایم اے کے دیگر مرکزی قائدین بھی موجود تھے تو ایسے میں توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق خیبر پختون خوا کی تنظیم سازی کا مسئلہ بھی جلد ہی حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اس طرح وہ تعطل بھی ختم ہوجائے گا جس کے باعث صوبے میں ایم ایم اے اب تک فعال نہیں ہوسکی تھی اور جس کا اثر اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑ رہا تھا۔ واضح رہے کہ ایم ایم اے کی صوبائی صدارت پر جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی میں پایا جانے والا اختلاف نہ تو غیر فطری ہے اور نہ ہی غیر متوقع، کیونکہ جیسا کہ ہم ان ہی صفحات پر عرض کرچکے ہیں کہ ماضی کے تجربے اور واضح زمینی حقائق کے تناظر میں چاروں صوبوں اور وفاق میں خیبر پختون خوا ہی وہ واحد سیاسی میدان ہے جہاں ایم ایم اے میں شامل دونوں بڑی جماعتیں نہ صرف اپنا مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہیں بلکہ ان کے اتحاد سے ان کے ووٹ بینک میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نشستوں کی صورت میں برسراقتدار آنے کے امکانات بھی باقی تینوں صوبوں اور وفاق کی نسبت زیادہ ہیں۔ سیاست کی بنیاد ہی چونکہ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنا ہوتا ہے اور اس منزل کا حصول چونکہ زیادہ سے زیادہ ووٹوں اور نشستوںکے حصول کا مرہونِ منت ہوتا ہے اور اس ضمن میں چونکہ صوبائی صدارت کی کلیدی حیثیت ہے جس کی مثال ڈرائیونگ سیٹ جیسی ہے، اس لیے جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کا اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرنا اور اس سلسلے میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان تعطل کا پیدا ہوجانا نہ تو بعید از قیاس ہے اور نہ ہی یہ اتنا پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا حل یہ دونوں جماعتیں اور ان کی قیادتیں نہ نکال سکیں۔ البتہ اس ضمن میں ہمیں جہاں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق نے ایم ایم اے کی قیادت جس خوش اسلوبی سے مولانا فضل الرحمن کے سیاسی قد کاٹھ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ازخو د پیش کی، اس کا تقاضا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو بھی اسی جذبۂ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم ایم اے کی صوبائی صدارت پر جماعت اسلامی اور اس کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان کا حق تسلیم کرلینا چاہیے تھا، وہیں یہ نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں جمعیت (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کی ناقابل یقین شکست اور سینیٹ الیکشن میں پارٹی کی دوسری ترجیح قرار پانے والے ایک عام مگر ارب پتی کارکن طلحہ محمود کی غیر متوقع فتح کے بعد جمعیت (ف) کی صوبائی اور مرکزی تنظیم کے درمیان اختلافات کی خبریں پچھلے کچھ عرصے کے دوران ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہی ہیں، جس پر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی، جس کی رپورٹ کا تاحال سب کو انتظار ہے، کے معاملے کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس ضمن میں جمعیت(ف) کے بعض ارکانِ صوبائی اسمبلی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ مولانا گل نصیب خان کے بجائے انھوں نے طلحہ محمود کو اپنا ووٹ اوپر کی ہدایت پر دیا تھا، جس کو اوپر والوں نے دوٹوک انداز میں مسترد کرکے اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا تھا جس کی رپورٹ کا صوبائی قیادت کے ساتھ تمام سنجیدہ حلقوں کو آج بھی شدت سے انتظار ہے۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو ایم ایم اے کی مرکزی قیادت کے حصول کے بعد اپنی ناراض صوبائی تنظیم اور خاص کر اپنے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کو ایم ایم اے کی صوبائی صدارت سے دست بردار کرانے کے لیے ان پر دبائو ڈالنا یقینا ایک کٹھن اور مشکل فیصلہ ہوگا، لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی مشہور سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سیاسی گتھی کو کس طرح سلجھاتے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی کے بعد یہ ان کی سیاسی بصیرت کا پہلا امتحان ہوگا۔ دوسری جانب یہ بات طے ہے کہ اگر ایم ایم اے صوبائی تنظیم سازی کا کٹھن مرحلہ سر کرنے میں کامیابی کے بعد سیٹوں کی تقسیم کا اس سے بھی سخت اور مشکل مرحلہ عبور کرنے میں کامیاب ہوگئی تو آنے والے انتخابات میں اس کا مقابلہ کرنا کسی بھی سیاسی قوت کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا بعض جماعتیں یا ان کے قائدین سمجھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات واضح ہے کہ خیبر پختون خوا کی حد تک اصل مقابلہ تین ہی قوتوں کے درمیان ہوگا جن میں ایک پی ٹی آئی ہوگی، جب کہ دوسری دو قوتیں ایم ایم اے اور اے این پی ہوں گی۔ مجلس عمل نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ایک ایسے ضلع سے کیا ہے جس پر نہ صرف اے این پی اپنے ہولڈ کا دعویٰ کرتی ہے بلکہ پی ٹی آئی بھی اسے اپنا گڑھ قرار دیتی ہے۔ اسی طرح یہاں گزشتہ سال ختم نبوت کے حساس ایشو پر قتل ہونے والے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعل خان کے واقعے اور اس کیس میں چند ماہ پہلے سنائی جانے والی سزائوں اور اس پر یہاں کے مذہبی حلقوں خاص کر جماعت اسلامی اور جمعیت(ف) کے مشترکہ مؤقف کے تناظر میں بھی مجلس عمل کی سرگرمیوں کی مردان سے بحالی اور یہاں مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کی جانب سے سیکولر حلقوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے سخت لب ولہجے سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایم ایم اے آئندہ انتخابات میں ختمِ نبوت سمیت مذہب سے متعلق ان تمام اہم موضوعات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنانے کے موڈ میں ہے جن کے ساتھ ملک بھر کے عوام کی بالعموم اور خیبر پختون خوا کے لوگوں کی بالخصوص شدید جذباتی وابستگی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے کرپشن کے خلاف مقبول عام نعرے کے جواب میں سراج الحق کا یہ دعویٰ کہ پاناما اسکینڈل میں کسی عالم اور مذہبی شخصیت کے نام کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہبی جماعتیں اور علماء کرام اقتدار میں رہنے کے باوجود کرپشن کے الزامات سے پاک ہیں، لہٰذا آنے والے انتخابات میں مجلس عمل اور اس کی قیادت پر اعتماد سے جہاں ملک میں اسلامی نظام کی راہ ہموار ہوگی وہیں کرپشن فری پاکستان کی بنیاد رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ دراصل یہی وہ نعرہ ہے جسے مجلس عمل اپنے انتخابی نعرے کے طور پر عوام کے پاس لے جانے کے لیے پُرعزم انداز میں پر تول رہی ہے، جس کی ایک جھلک مردان کے جلسہ عام میں ہر کوئی دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے۔