نام کتاب محمد حسین آزاد … احوال و آثار
مصنف ڈاکٹر محمد صادق(ایم اے ۔ پی ایچ ڈی)
سابق صدر شعبہ ہائے انگریزی و اردو
گورنمنٹ کالج لاہور
سابق پرنسپل دیال سنگھ کالج لاہور
صفحات 270 قیمت:300روپے
ناشر ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلس ترقی ادب
2کلب روڈ لاہور
فون نمبر 042-9920056
042-9920057
ای میل majlista@gmail.com
ویب گاہ www.mtalahore.com
ڈاکٹر محمد صادق کی مندرجہ ذیل تصانیف ہیں}
:1 ٓA History of Urdu Literature
(Oxford University London)
:2 Twentieth Century Urdu Literature
(Royal Book Company, Karachi)
:3 ٓآبِ حیات کی حمایت میں اور دوسرے مضامین
:4 نیرنگِ خیال، از محمد حسین آزاد (ترتیب)
زیر نظر کتاب کے متعلق وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کی تصنیف اتفاقیہ ہوئی۔1939ء میں جب اٹھارہویں صدی میں انگریزی ادب کی ایک غیر معروف سی تحریک پر ہم اپنا مقالہ تیار کرنا چاہتے تھے، ہمیں معلوم ہواکہ اس کی تیاری کے لیے متعلقہ تصانیف ہمارے ملک میں نایاب ہیں۔ یہ انگلستان میں دستاب تھیں، لیکن چونکہ وہ صرف ایک ہی بار شائع ہوئی تھیں اور انہیں نوادر میں شمار کیا جاتا تھا، لہٰذا ان کتابوں تک رسائی ہماری استطاعت سے باہر تھی۔ اسی شش و پنج میں ہمارے ایک کرم فرما نے مشورہ دیا کہ انگریزی ادب پر لکھنے والے انگریزوں کی کوئی کمی نہیں اور اس میدان میں ان کا مقابلہ بھی مشکل ہے۔ اس کے برعکس اردو ادب میں تحقیق و تنقید کے وسیع امکانات ہیں، ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ چنانچہ بہت غورو فکر کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جدید اردو مصنفین میں محمد حسین آزاد ایک ایسے مصنف ہیں جن پر کوئی مستند تصنیف نہیں ملتی، لہٰذا انہی پر لکھنا چاہیے۔ ایک سال کی مسلسل کاوشوں کے بعد یہ مقالہ تیار ہوا جسے بہت سی ترمیمات اور اہم اضافوں کے بعد انگریزی سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔
ایک مغربی مفکر کا قول ہے: ’’کسی شخص کو تصنیف کا اُس وقت تک حق نہیں پہنچتا جب تک اس تصنیف میں ایسا مواد، ایسی اطلاعات بہم نہ پہنچائی جائیں جن کا اُس وقت تک کسی کو علم نہ ہو۔‘‘ اس نقطہ نظر سے اس کتاب کے جواز میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جس وقت اس تصنیف کا آغاز ہوا، اُس وقت آزادؔ کے متعلق تحقیق و تنقید کا سرمایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ انگریزی میں صرف سرعبدالقادر کا لیکچر تھا، جبکہ اردو میں سوائے ان تین مضامین کے جو آزادؔ کی وفات پر ’مخزن‘، ’نگار‘، اور ’ادیب‘ میں شائع ہوئے، یا اُن کوائف کے جو ’’خمخانۂ جاوید‘‘ میں درج ہیں، یا فلسفۂ الٰہیات کی تمہید میں دیے گئے ہیں، اور کوئی مواد موجود نہ تھا۔ آزادؔ کی اپنی تصانیف ’’مکاتیبِ آزاد‘‘، ’’سیرِایران‘‘، ’’آبِ حیات‘‘ اور ’’دربارِ اکبری‘‘ میں چند منتشر اشارات اور بیانات کے سوا کچھ نہ تھا۔
علاوہ بریں اس ضمن میں خاندانی اور عام روایات کا پشتارہ بھی ہے۔ اس کا بہ نظرِ تحقیق مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر مبالغہ آمیز ہیں، چند ایک بے بنیاد ہیں اور تقریباً سب میں تصویر کا صرف روشن پہلو پیش کیاگیا ہے، اور یہ کوئی باعثِ حیرت بھی نہیں، کیونکہ آزادؔ خصوصاً اُن کے والد مولوی محمد باقر کا ایک ایسے دور سے تعلق تھا جب ہیجان انگیز افواہوں کی خوب گرم بازاری تھی۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ پُرآشوب انقلابی ادوار میں متخیّلہ کو زبردست تحریک ہوتی ہے۔ افواہیں انسانی اذہان کا سبزۂ خودرو ہوتی ہیں، اور یہ سبزۂ خودرو بڑھتے بڑھتے آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ آگے بتایا جائے گا، آزادؔ اپنے ذاتی یا خاندانی حالات بیان کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے، اور بعض اوقات واقعات سے ان کی توثیق بھی نہیں ہوتی، لہٰذا ہم نے خاندانی روایات اور آزادؔ کے بیانات پر تنقیدی نظر ڈالی ہے اور حقائق کو روایات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان سب مآخذ سے کہیں زیادہ دلچسپ اور کارآمد وہ نادر دستاویزات، فتووں کی نقول اور پرانے اخبارات اور مسودات ہیں جو ہمیں غیر متوقع طور پر دستیاب ہوئے۔ ان سب کا اپنی اپنی جگہ ذکر آئے گا، یہاں ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں ایک لحاظ سے مولوی خلیل الرحمن سرفہرست ہیں۔ انہوں نے میری درخواست پر ایک طویل عنایت نامے میں، جو بارہ چودہ صفحات پر مشتمل ہے، آزادؔ کی زندگی کی بہت سی گتھیاں سلجھائی ہیں، اور مقامِ تشکر ہے کہ یہ قیمتی اطلاعات ہمیں بروقت مل گئیں، کیونکہ اس کے فوراً بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اگر اطلاعات کا یہ بیش بہا خزانہ ہمیں بروقت نہ ملتا تو وہ ہمشہ کے لیے ان کے ساتھ مدفون ہوجاتا۔
چھوٹے چھوٹے کئی ایک نکات کے علاوہ جن سے آزادؔ کی زندگی، کردار اور دیگر متعلقہ امور پر روشنی پڑتی ہے، خالص تحقیق کے لحاظ سے اس کتاب کی چند دیگر قابلِ غور خصوصیات حسبِ ذیل ہیں:
(1)آزادؔ کے والد مولوی محمد باقر کے سوانح حیات، کردار اور شیعہ سوسائٹی میں ان کا مقام۔
(2)آزادؔ کا سفرِ ایران، اس کی غرض و غایت
(3) 1874ء کا مشاعرہ، اس کا مقصد، اس میں آزادؔ کا کردار اور معاصرانہ تنقید۔
(4)’’آبِ حیات‘‘، ’’ نیرنگِ خیال‘‘ اور ’’سخن دان ِ فارس‘‘ کے مآخذ کی نشان دہی اور ’’تدوینِ دیوانِ ذوق‘‘ میں آزادؔ کے طرزِعمل کے متعلق دستاویزی شہادت۔
تنقیدی لحاظ سے ہمارا اہم ترین کام آزادؔ کے رنگِ طبیعت اور شخصیت کا نفسیاتی جائزہ اور ان کے مواد اور اسلوب پر اس کا اثر ہے۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے، یہ تمام تر اطلاعات پہلی دفعہ فراہم کی جارہی ہیں۔ اگرچہ ہم نے اس تمام مواد کے تفحّص میں بہت احتیاط سے کام لے کر آزادؔ کی سوانحِ حیات مرتب کی ہے، لیکن ہم یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ آزادؔ کی سوانحِ حیات کی ترتیب ہمارا فرضِ اوّلین نہیں۔ ہمارا مقصد جہاں تک ممکن ہو، ان کوائف کو منظرعام پر لانا ہے جن سے ہمیں ان کی ذہنیت اور ان کی علمی اور ادبی خدمات کو سمجھنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہم نے ان تمام لطائف و حکایات کو، جن کا آزادؔ کی ذہنیت سے براہِ راست تعلق نہیں، نظرانداز کردیا ہے۔ البتہ یہاں ان کے آخری ایام کا مرقع ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔
اس تمام تگ و دو کے بعد جو ہم نے آزادؔ کی سوانح حیات حاصل کرنے میں کی، یہ بیان متناقض معلوم ہوگا کہ آزادؔ کو حقیقی معنوں میں جاننے کے لیے اُن کی رودادِ حیات کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن یہ بیان سراسر حقیقت پر مبنی ہے، اس لیے کہ حقیقی آزادؔ ہمیں ان کی تحریروں میں جیتے جاگتے، چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ بعض ادیب فطرتاً خاموش ہوتے ہیں اور ان کا پرتو ان کی تصانیف میں نہیں ملتا۔ برعکس اس کے آزادؔ ایک شفاف اور روشن دنیا میں گزربسر کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ان کا ہر تیور، ہر حرکت، ہر انداز ایک آئینے کی طرح ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ بلامبالغہ آزادؔ کی زندگی میں جو باتیں اہمیت رکھی ہیں ان کی تصانیف ان کا برجستہ اشاریہ ہیں۔ کشفِ ذات جو رومانی مصنفین کی ایک اہم خصوصیت ہے، ان میں بدرجۂ اَتم موجود ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے متعلق نہایت پتے کی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ انکشاف سراسر غیر شعوری ہیں، اس لیے ان کی طبیعت کی بھرپور غمازی کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی خودکلامی ہیں اور ان سے ان کے انداز ِ طبیعت کا پورا پورا انکشاف ہوتا ہے۔
تنقید کا مقصد کیا ہے؟ ایک فن کار کے دل و دماغ، اس کی شخصیت اور ذہن کی توضیح و تشریح، اس کے لیے ایک طرح کی ہمدردی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں کسی کے خیالات و نظریات سے اتفاق نہ ہو۔ لیکن اگر ہم اس کے نقطہ نظر یا پیغام کی صداقت یا حسن کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کا پوری طرح مزاج شناس بننا پڑے گا، اور اگر دلی ہم آہنگی نہیں تو کم از کم ذہنی ہم آہنگی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ ایک نقاد کا ایک مصنف سے وہی رشتہ ہے جو ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے تھا۔ وہ مصنف کی پوری پوری نباضی کرتا ہے اور پھر تفہیم کی غرض سے اس کی اس طرح توضیح کرتا ہے کہ قاری کی اس کے ذہن تک رسائی ہوجائے۔ درحقیقت تنقید اس بصیرت کا نام ہے جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی دیدہ ور انسان کا ذہن کسی تخلیق سے دوچار ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی ادبی شاہ کار ہو یا مجسمہ یا تصویر۔ ہم نے آزادؔ کی تصانیف کو ہمدردانہ نظر سے دیکھا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی تصانیف کے چند ایسے پہلو بے نقاب کیے ہیں جن تک ہماری دانست میں آج تک کسی نقاد کی رسائی نہیں ہوئی۔ ادب وفن کی ماہیت سمجھنے کے لیے قوتِ مشاہدہ کے علاوہ جو ظاہر سے گزرکر باطن میں سرایت کرجاتی ہے، اور چیزیں بھی درکار ہیں، مثلاً تبحرِ علمی جس سے نظر میں وسعت پیدا ہو۔ نقاد کو لازم ہے کہ وہ اپنے دائرۂ معلومات کو زیادہ سے زیادہ وسیع بنائے اور اس سرمایۂ نظر و فکر سے استفادہ کرے جو اس کے گردو پیش کی دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی وسیع النظری کا فقدان ایک حد تک اوسط درجے کے شعرا و ادبا کی مبالغہ آمیز تحسین کا باعث ہوتا ہے۔ باایں ہمہ یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ ناقد کی ادیب سے ہم آہنگی تنقید کی شرطِ اولین ہے۔‘‘
یہ گیارہ ابواب اور دس ضمیموں پر مشتمل ایک عمدہ تحقیقی کتاب ہے، جن کی تفصیل یہ ہے:
پہلا باب: خاندان اور ابتدائی حالات
دوسرا باب: جنگِ آزادی کے دوران میں
تیسرا باب: پنجاب میں ابتدائی زندگی
چوتھا باب : ’’سخن دانِ فارس‘‘ سے ’’ نیرنگ ِ خیال تک‘‘
پانچواں باب: آبِ حیات
چھٹا باب: سیرِ ایران
ساتواں باب: آزادؔ بہ حیثیت ِشاعر
آٹھواں باب: آزادؔ بہ حیثیت ِانسان
نواں بابـ: ذہنی ساخت
دسواں باب: اسلوب ِبیان
گیارہواں باب: حرفِ آخر۔
اور دس ضمیے یہ ہیں:
1۔وسطِ ایشیا کا سیاسی مشن
2۔نگارستانِ پارس
3۔نصیحت کا کَرَ ن پھول
4۔’تذکرۂ سنینِ اسلام، حصہ اول
5۔’سخن دانِ فارس‘ کے مآخذ
6۔’آبِ حیات‘ کے مآخذ
7۔’نیرنگ ِ خیال‘ کے مآ خذ
8۔’دربارِ اکبری‘ کی تصنیف
9 ۔تدوینِ دیوان ذوق
10۔دورِ جنون
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔ یہ کتاب کی اشاعتِ دوم ہے۔
nn