استاذ الاساتذہ پروفیسر محمد نواز کھوسو

پروفیسر محمد نواز کھوسو جن کی حیاتِ مستعار کے لگ بھگ 40 برس طلبہ کو انگریزی پڑھاتے ہوئے گزرے ہیں، اگرچہ آج ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ان کے تیار کردہ اَن گنت شاگرد ہر شعبۂ زندگی سمیت سندھ اور ملک بھر میں کیوں کہ پیشۂ تعلیم سے بھی وابستہ ہیں، لہٰذا وہ اس وجہ سے بجا طور پر ’’استاذ الاساتذہ‘‘ کے لقب کے سزاوار ٹھیرتے ہیں۔ انہیں ہر ایک نے دورانِِ ملازمت گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد اور اُن کالجوں میں جہاں جہاں وہ پڑھاتے رہے ہیں، ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کے اوقات کی سختی سے پابندی کرتے ہوئے اور طلبہ کو مقررہ پیریڈ میں پڑھاتے ہوئے ہی پایا ہے، اور یہ خوبی یا صفت ہمارے ہاں کیوں کہ گزشتہ ایک عرصے سے اگر بالکل نایاب نہیں توکمیاب بہرحال ضرور ہوچکی ہے۔ اس لیے آج انہیں نہ صرف طلبہ بلکہ معاشرے کے ہر طبقۂ فکر میں بڑی عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہونا ناگزیر ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بہ حیثیت ایک انسان کے، اُن میں بھی بعض شخصی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں، تاہم ان کی اخلاقی خوبیاں ایسی نمایاں ہیں جن کے سبھی معترف اور مداح ہیں۔ وہ ایک بے حد سادہ اطوار، منکسرالمزاج، صاف گو، اکل کھرے اور ہمدرد طبع فرد واقع ہوئے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ موصوف دورانِ ملازمت انگلش پڑھایا کرتے تھے، لیکن ناواقف اور انجان نوواردانِ کالج انہیں، ان کی وضع قطع کے سبب سے اسلامیات کا پروفیسر بھی بسا اوقات غلط فہمی سے سمجھ لیا کرتے تھے۔ سندھی ٹوپی اور اجرک ان کی ظاہری دبنگ اور بارُعب شخصیت پر خوب سجتے ہیں، اس لیے بعض اجنبی حضرات کو انہیں دیکھ کر ان پر مقامی وڈیرہ یا سردار ہونے کا گمان بھی گزرنے لگتا تھا۔ خود پروفیسر موصوف ایک زمیندار ہونے کے باوجود وڈیروں سے ایک نوع کا طبعی بُعد رکھتے ہیں۔ قابلِ تعریف امر یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی زمین اور جائداد بیٹوں اور بیٹیوں میں مساوات کے ساتھ ’’حصہ بہ حق دار رسید‘‘ کے مصداق تقسیم کردیے ہیں۔ بہ ظاہر سخت مزاج لیکن ابریشم کی طرح نرم پروفیسر محمد نواز کھوسو اپنے اصولوں پر اٹل طور سے کاربند رہنے کی وجہ سے بارہا دورانِ ملازمت مشکلات اور ترقی سے محرومی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہوئے، لیکن اس کے باوجود ’’ہم اپنی خو نہ چھوڑیں گے‘‘ کا طرزِِ زندگی اپنائے رکھا۔ اب یہاں ہم اپنے ممدوح کے سوانحی نقوش کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر محمد نواز کھوسو 3 مارچ 1956ء کو گوٹھ زنگی پور تعلقہ ٹھل ضلع جیکب آباد میں پیدا ہوئے۔ والد کا اسم گرامی جان محمد کھوسو تھا۔ 1961ء تا 1965ء ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کی۔ فرماتے ہیں کہ ’’اوائل میں پڑھائی میں کمزور ہوا کرتا تھا لیکن پھر استاد محمد بخش منگھنار جیسے گوہرِ نایاب نے دستِ شفقت رکھا اور محض ایک برس کے عرصہ ٔ قلیل میں تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوگیا‘‘۔ مجھ سے بھی اصرار کیا کہ مجھ پر لکھنے سے پیشتر میرے اس مرحوم استاد پر خامہ فرسائی کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ راقم نے وعدۂ فردا کرکے بات کو آگے بڑھایا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ثانوی تعلیم 1966ء تا 1971ء میونسپل ہائی اسکول جیکب آباد سے حاصل کی۔ انٹر1974ء اور بی اے آنرز 1979ء میں، جبکہ ایم اے انگلش1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے کیا۔ بعد ازاں میرٹ پر سندھ سیکریٹریٹ میں بھی ملازمت ملی۔ جب کہ اوقات بسری کے لیے رشید ٹیکسٹائل مل کراچی میں کچھ عرصہ مزدوری بھی کرتے رہے۔ گویا وہ ’’شاعرِ مزدور‘‘ احسان دانش کی طرح ’’مزدور معلم‘‘ بھی ہیں۔ ایم اے انگلش کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان برائے لیکچرر 1981ء میں پاس کیا، اور ساتھ ہی انہیں حبیب بینک میں سیکنڈ آفیسر کی ملازمت بھی ملی، لیکن رجحان کیوں کہ تعلیم و تعلم کی جانب زیادہ تھا اس لیے اوّل الذکر ملازمت کو ترجیح دی۔ 1998ء میں اسسٹنٹ پروفیسر بنے۔ 2009ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر، اور2016ء میں گریڈ 20 میں فُل پروفیسر کے عہدے پر ترقی پائی، اور بالآخر 2 مارچ کو اسی برس مدتِ ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوگئے۔ ملازمت کا ابتدائی عرصہ گورنمنٹ کالج ٹھٹہ میں گزرا، پھر کندھ کوٹ اور جیکب آباد کے کالجوں میں فرائض سرانجام دیے۔ آخر میں گورنمنٹ ڈگری کالج ٹھل سے ریٹائر ہوئے۔
پروفیسر محمدنواز کھوسو کی ایک مزید خوبی ان کا اپنے پیشۂ تعلیم سے پوری طرح سے ’’کمیٹڈ‘‘ ہونا ہے۔ موصوف کو اپنے تجربے اور سینیارٹی کی بنا پر بارہا شعبۂ تعلیم میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے کے مواقع بڑی آسانی سے میسر آسکتے تھے لیکن انہوں نے انتظامی عہدوں کی تام جھام اور نمود و نمائش کے حصول کے برعکس سادگی کے ساتھ اپنے طلبہ کو پڑھاتے ہوئے ہی اپنی مدت ملازمت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا زیادہ اہم سمجھا۔ اب اگر اہلِ علم اور طلبہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا ذکرِ خیر کرتے ہیں تو اس میں قابلِ استعجاب امر کیا ہے؟ سچ ہے کہ اخلاصِ نیت اور اپنے پیشے سے کامل سچائی ہی آدمی کو عظیم اور تاریخ ساز بنانے میں اہم کردار ادا کیا کرتی ہے۔
تعلیمی حوالے سے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک استاد کو باکردار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مضمون کے متعلق پوری معلومات ہونی چاہئیں۔ ابتداً اُن کے ہیرو میر نصیر خان کھوسو تھے، لیکن پھر ان کے بہ قول ’’وقت کے ساتھ ساتھ میرے ہیروز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں‘‘۔ ان کی پہلی شادی1973ء اور دوسری شادی 1985ء میں ہوئی۔ اولاد میں 6بیٹے اور6بیٹیاں شامل ہیں۔ بڑا بیٹا زمینداری اور کاروبار کرتا ہے۔ ایک بیٹا پولیس میں، ایک ڈاکٹر اور ایک مقامی گرلز کالج میں کمپیوٹر آپریٹر ہے۔ تین صاحبزادیاں شادی شدہ اور تین زیر تعلیم ہیں۔ ایک لا یونیورسٹی، ایک شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی کراچی اور ایک درجہ نہم میں زیر تعلیم ہے۔20 ویں گریڈ میں ریٹائر ہونے کے باوجود آج تک اپنا ذاتی گھر نہیں بنوا سکے اور کرایہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ عطا کیا ہے جس پر میں اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ راقم نے موصوف کے لکھے گئے بزبانِ سندھی مختلف موضوعات پر سوبھ اور آفتاب وغیرہ اخبارات میں مضامین پڑھے ہیں جن میں وہ ایک منجھے ہوئے لکھاری دکھائی پڑتے ہیں۔ خود ان کی شخصیت پر سورہیہ مخدوم روزنامہ’’ہلالِ پاکستان‘‘ اور معروف مصنف رسول بخش درس روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد میں مضامین لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے گائوں کے اسکول کی بحالی کے لیے ذاتی رقم صرف کرکے خاصا کام کیا۔
پسندیدہ کتب: تقریباً ہر قسم کی کتب، شاہ جو رسالو، نہج البلاغہ
پسندیدہ شخصیت: شاہ عبداللطیف بھٹائی، سائیں جی ایم سید، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی
پسندیدہ کھانا: جو بھی وقت پر مل جائے، دال مونگ، مچھلی، ساگ، دال چاول وغیرہ
پسندیدہ مشروب: سادہ پانی اور دودھ
پسندیدہ انگریزی ادیب: چارلس لیمب
پسندیدہ استاد: پرائمری اسکول میں استاد محمد بخش منگھنار۔ ہائی اسکول میں محمد شریف خلجی، گھنشام داس، عبدالستار سومرو۔ کالج میں پروفیسر نور محمد کلہوڑو اور کنہیا لعل۔ یونیورسٹی میں میڈم امینہ خمیسانی، پروفیسر ارجن لعل
میرا خواب: دنیا میں چہار سو امن و آشتی ہو اور مسائل و مصائب کا خاتمہ ہوجائے
پیغام: ظاہر و باطن یکساں ہونا چاہیے
موجودہ تعلیمی زوال کا ذمے دار اساتذہ، والدین، طلبہ، کوٹہ سسٹم اور سفارش کو گردانتے ہیں۔ زندگی میں بے شمار یادگار واقعات پیش آئے۔ ایک مرتبہ بس پر دورانِ سفر بس کا بمپر ٹوٹ گیا مگر زندگی تھی سو بچ گئے۔ ایک بار میرپورخاص گئے، موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی، پیسے ختم ہونے پر گھڑی فروخت کرنا پڑی۔