پوری دنیا بالخصوص یورپ اور امریکہ میں شہد کی مکھیاں تیزی سے ختم ہورہی ہیں جس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں بعض حشرات کُش زرعی ادویہ بھی شامل ہیں جن پر یورپی یونین کی اکثریت نے پابندی کا بل منظور کرلیا ہے۔ اگر مکھیاں ختم ہوجائیں تو دنیا بھر کے اسٹورز میں موجود نصف سے زائد اشیا ازخود غائب ہوجائیں گی، کیونکہ مکھیاں فصلوں اور باغات میں پھولوں کی زراعت کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان کے زردانے دور دور تک بکھیرتی ہیں۔ اس فیصلے پر ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین اور کارکنوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔ یورپی یونین نے نیونائکوٹینوئیڈز کے گھر سے باہر اسپرے پر پابندی عائد کی ہے کیونکہ یہ مکھیوں کی جان کا دشمن ہے جس پر یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ای ایف ایس اے) پہلے ہی پابندی کا عندیہ دے چکی ہے۔ اس سے قبل بھی یورپی یونین فصلوں میں استعمال ہونے والی تین کیڑے مار دواؤں پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ یہ تین حشرات کش ادویہ مکھیوں میں چھتہ سازی کی صلاحیت کو متاثر کررہی ہیں اور اس طرح مکھیوں کی آبادی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ پابندی کے بعد تین مضر ادویہ اب صرف گرین ہاؤس میں استعمال کی جاسکیں گی اور کھلے ماحول میں ان کے اسپرے پر پابندی ہوگی۔ ای ایف ایس اے کے مطابق ہر طرح کی شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کے لیے یہ ادویہ زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔
۔16 سال سے کم عمر نوجوانوں کے واٹس ایپ استعمال کرنے پر پابندی
یورپی یونین میں ڈیٹا تحفظ کے قوانین کا اطلاق اب واٹس ایپ پر بھی ہوگا جس کے تحت اب 16 سال سے کم عمرکے نوجوان اپنے والدین کی اجازت کے بغیر واٹس ایپ سروس استعمال نہیں کرسکیں گے۔ یورپی یونین میں پیغام رسانی کی ایپ ’واٹس ایپ‘ انتظامیہ نے ڈیٹا تحفظ کے قوانین کی وجہ سے اپنے صارفین کے لیے عمر کی حد 13 سال سے بڑھاکر 16 سال کردی ہے اور اب واٹس ایپ استعمال کرنے والے پرانے اور نئے صارفین سے پوچھا جائے گا کہ آیا ان کی عمر 16 برس سے زائد ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ واٹس ایپ سروس کو فیس بُک خرید چکا ہے اور اب ایک نیا طریقہ کار متعارف کرایا جائے گا۔ تاہم یورپی یونین کے ممالک سے باہر واٹس ایپ استعمال کرنے والے صارفین پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس نئے قانون کے تحت عمر کی حد کنٹرول کرنے کا نظام زیادہ سخت نہیں، یعنی واٹس ایپ کی طرف سے کوئی شناختی دستاویز یا برتھ سرٹیفکیٹ سے متعلق معلومات نہیں لی جائیں گی، جب کہ کمپنی مستقبل میں بھی ایسے سوالات پوچھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
کریم کی ہیکنگ: ڈیجیٹل رائٹس کے اداروں کا اظہارِ تشویش
جدید ٹیکسی سروس ’کریم‘ کے اپنے صارفین کو تین مہینے پہلے ہونے والی سسٹم ہیکنگ کے بارے میں آگاہ کرنے کے طریقہ کار سے بہت سے صارفین اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جہاں کچھ لوگوں نے کریم کے، سامنے آکر، اپنے صارفین کو مطلع کرنے کو سراہا وہیں زیادہ تر نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ معلومات لوگوں تک پہنچانے کے لیے تین مہینے کا عرصہ کیوں لگا؟
یہاں پر بات صرف کریم ایپ کی نہیں بلکہ اُن سب کمپنیوں کی ہے جن کے پاس صارفین کا ڈیٹا تو موجود ہے لیکن ان کا استعمال اور وہ کس کو بیچا جارہا ہے، معلوم نہیں ہے۔
23 اپریل کو کریم کی طرف سے آنے والی ای میل کے مطابق ان کی ایپ 14 جنوری کو ہیک ہوئی تھی جس میں صارفین سمیت کریم کے کپتانوں کا ذاتی ڈیٹا یعنی موبائل نمبر، گھر کا پتا، کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات اور آنے جانے کی معلومات موجود تھیں۔ اس کا حل بتاتے ہوئے کریم نے صارفین کو پاس ورڈ بدلنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت سبھی صارفین اور کپتانوں کا انحصار اس ای-میل پر ہے جو کریم نے مشترکہ طور پر سب کو بھیجی تھی۔ اس میں بھی بہت وضاحت کے ساتھ نہیں بتایا گیا ہے بلکہ میڈیا میٹرز آف ڈیموکریسی سے منسلک صدف خان کے مطابق کچھ ذمے داری ایپ استعمال کرنے والوں پر ڈال دی ہے۔ ’’پاس ورڈ بدلنے کے مشورے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ لوگوں کی غلطی کی وجہ سے ایپلی کیشن ہیک ہوئی، نہ کہ کمزور سیکورٹی سسٹم کی وجہ سے‘‘۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی پاکستانی کارپوریشن میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہو اور صارفین کو بروقت آگاہ نہ کیا گیا ہو۔ کچھ مہینے پہلے ٹیلی نار کے ملازمین کی بھی سیکورٹی کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ اس سے ملازمین کے نمبر اور گھر کا پتا باہر کسی انجان گروہ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ’’تاہم کریم نے اپنے صارفین کو مطلع کیا، جبکہ ٹیلی نار نے یہ زحمت بھی نہیں کی۔ ہم نے اس بارے میں جب انتظامیہ سے سوال کیا تو انھوں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں موجود کمپنیاں قانونی ذمے داری قبول نہیں کرتیں، اور نہ ہی اپنے صارفین کو اس بارے میں بتانا ضروری سمجھتی ہیں‘‘۔ کیونکہ ڈیجیٹل تحفظ پر کوئی قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے کمپنیاں خود کو جواب دینے کا پابند نہیں سمجھتیں۔ بیرونی ممالک میں صارفین سے اس قسم کی تفصیلات چھپانا جرم ہے، لیکن پاکستان میں قانون نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس بارے میں نہ ہی شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی سوال اٹھاتے ہیں۔
’’جیسے کہ آپ کس نمبر پر کال کررہے ہیں اور دن میں کتنی بار کررہے ہیں۔ یہ سب معلومات کمپنیوں کے پاس جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ ڈیٹا اتنا ضروری نہ ہو، لیکن پھر بھی ایسا طریقہ کار یا قانون ہونا چاہیے جس کے تحت لوگ فیصلہ کرسکیں کہ کتنی ذاتی معلومات شیئر کرنی ہیں۔‘‘