ابو سعدی
’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ نہ مغرب کی کورانہ تقلید سے ہوسکتی ہے اور نہ ان فرسودہ اصولوں اور طریقوں سے چمٹے رہنے سے، جو بدلتے حالات کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے اساسی اصولوں پر غور کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں، اور اس احساسِ کمتری کو ختم کردیں جس میں وہ مبتلا ہوگئے ہیں اور جو انہیں مغرب کی پیش کردہ ہر چیز کو اسلام کے مطابق ثابت کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ مسلمان قوموں بلکہ مغرب کو بھی اسلام سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اسلام میں حریت، اخوت اور مساوات کے تصورات نہایت ترقی پذیر اور حقیقی ہیں اور ضرورت ہے کہ ان کو ٹھیک طرح سے سمجھا اور عمل کیا جائے۔ مغرب کا معاشرتی اور سیاسی نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ کیا ہم اپنے نظام حیات کی نئی عمارت ان شکستہ عمارتوں کے ملبے سے تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے منہدم کی جارہی ہیں! حقیقت یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم دنیا کی ہدایت اور نشاۃِ ثانیہ کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم اسلام کے پیش کیے ہوئے زندگی کے عالمگیر اصولوںکو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔‘‘
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
(مقالاتِ حکیم۔ جلد اول۔ مرتب شاہد حسین رزاقی۔ ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور)
عقل کا اندازہ
تین چیزیں ایسی ہیں جو اپنے بھیجنے والے کی عقل کا اندازہ کرا دیتی ہیں: ہدیہ، مکتوب اور ایلچی۔
(یحییٰ بن خالد برمکی)
مخلوقِ خدا سے سلوک
جیسا سلوک تُو مخلوقِ خدا سے کرے گا ویسا ہی سلوک خدا تیرے ساتھ کرے گا۔
(شیخ سعدی)
روزیکوئی شخص روزی اپنی لیاقت اور طاقت سے نہیں حاصل کرتا۔ اللہ سب کا رازق ہے۔
مشروط وعدہ
’’(اور دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ غم کرنا، اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
غور فرمائیے کہ پیش کردہ آیت میں مومنین کے ساتھ وعدہ بھی ہے اور ان کے لیے خوش خبری بھی کہ وہی غالب رہیں گے اور کفار پر انہیں ہمیشہ آخری فتح نصیب ہوگی۔ سکے کا دوسرا رخ دیکھیے تو یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ آج جو ہم دنیا میں ہر محاذ پر شکست خوردہ ہیں تو ہم درحقیقت مومن ہیں ہی نہیں۔ (کہکشاں صفحہ 490)
حاصلِ تصوف
وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا، یہ ہے کہ جس طاعت میں سُستی محسوس ہو، سُستی کا مقابلہ کرکے اُس اطاعت کو کرے۔ اور جس گناہ کا تقاضا ہو، تقاضے کا مقابلہ کرکے اُس گناہ سے بچے۔ جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں، کیونکہ یہی بات تعلق باللہ پیدا کرنے والی ہے، یہی اُس کی محافظ ہے اور یہی اُس کو بڑھانے والی ہے۔
(حکیم الامت حضرت تھانویؒ)
خت گرمی میں خود کو ٹھنڈا رکھنے کے منفرد طریقے
گرمی کے موسم میں پیاس، پسینہ اور گھبراہٹ کے تاثرات عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ پسینہ گوکہ انسانی بدن کے لیے صحت مندی کی علامت ہے، کیوں کہ یہ انسانی جسم سے مضر اور فاضل مادوں کو خارج کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن بعض اوقات بداحتیاطی سے مفید اجزاء بھی بدنِ انسانی سے خارج ہوجاتے ہیں، جو پھر جسمانی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے میں جسمانی توانائی کو برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے غذا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے پھلوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں، جن میں پانی کی مقدار زیادہ اور ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو، یہاں آپ کو ایسی غذاؤں سے آگاہ کیا جارہا ہے جن کے استعمال سے گرمی کو مات دی جا سکتی ہے۔
تربوز: عرصۂ دراز سے بچوں اور بڑوں کے پسندیدہ پھل تربوز سے زیادہ کوئی چیز انسانی جسم کو گرمی کی حدت کے مضر اثرات سے بچاؤ میں فوقیت نہیں رکھتی۔ تربوز میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کو پانی کی کمی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ تربوز میں وٹامن اے اور سی شامل ہونے کی وجہ سے یہ کینسر اور دل کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی نہایت مفید ہے۔
خربوزہ: پانی کی بھرپور مقدار رکھنے والا خربوزہ انسانی جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے۔ خربوزے میں کیلوریز اورپوٹاشیم کم مقدار میں ہونے کی وجہ سے یہ وزن میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے۔
ترش پھل: مالٹا، انگور اور لیموں جیسے ترش پھل ٹھنڈی تاثیر رکھتے ہیں۔ مزیدار ہونے کے ساتھ یہ پھل آپ کو صحت مند اور جوان بنائے رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترش پھل نظام انہضام کو بہتر بناکر عمومی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ پھلوں کے علاوہ ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی سبزیاں بھی موسم گرما میں انسانی جسم کے لیے نہایت مفید ہیں۔ ہمارے ہاں بہت ساری ایسی سبزیاں (کھیرا، گاجر، سلاد اور پودینہ وغیرہ) پائی جاتی ہیں، جن میں پانی کی ایک خاص مقدار جسمانی درجہ حرارت کو بڑھنے نہیں دیتی۔