تلاوتِ قرآن کے آداب

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

(ترجمہ)146146اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔145145(المزمل 4:73)
یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیاگیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری)
حضرت اُم سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے۔ مثلاً: الحمد للہ رب العٰلمین پڑھ کر رک جاتے، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھیرتے، اور اس کے بعد رک کر مٰلک یوم الدین کہتے (مسند احمد، ابو دائود، ترمذی)۔ دوسری ایک روایت میں حضرت اُم سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔ حضرت حذیفہؓ بن یمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوگیا، تو آپؐ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے ان تعذبہم فانہم عبادک و ان تغفر لہم فانک انت العزیز الحکیم(المائدہ5: 118) (اگر تُو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تُو ان کو معاف فرمادے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ (مسند احمد، بخاری)
(تفہیم القرآن، ششم، ص 127-126، الزمل، حاشیہ4)

اللہ کا حکم

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید سنائوں۔ حضرت ابیؓ بن کعب نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر آپؐ سے یہ بات فرمائی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے دوبارہ عرض کیا: کیا سچ مچ میرا ذکر اللہ رب العالمین کے حضور میں ہوا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ اس پر حضرت ابیؓ بن کعب کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں لم یکون الذین کفروا133 (سورہ البینہ) پڑھ کر سنائوں۔ حضرت ابیؓ بن کعب نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر یہ بات فرمائی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس پر حضرت ابیؓ بن کعب رو پڑے۔ (متفق علیہ)