ہمارا سیاسی نظام اور جمہوری مزاج قومی سے زیادہ ذاتی مفادات کا اسیر رہا ہے اور اب بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی چھتیں پھلانگنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ آج کل بھی ہماری سیاست کے انڈر ورلڈ میں بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے، چھوٹے بڑے ہر پائے کے سیاست دان تیزی سے پارٹیاں بدل رہے ہیں۔ جو اپنی پارٹی چھوڑ رہا ہے اُس پر لوٹے اور گھوڑے کی مہر لگ رہی ہے اور پارٹی کی جانب سے بھی بیانیہ آجاتا ہے کہ اس کے جانے سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہوسکتا ہے یہ جملے محض سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہوں، لیکن حقیقت میں یہ جھٹکا کتنا زوردار لگتا ہے، اس کا ادراک ہر سیاسی جماعت کو ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی اپنے جانے والوں کو روک نہیں سکتی۔ آج کل تحریک انصاف کی منڈی میں تیزی ہے اور مسلم لیگ (ن) مندی کا شکار ہے، جبکہ پیپلزپارٹی نے جو مال بچا کر رکھا ہوا تھا وہ ریت کی طرح اس کی مٹھی سے نکل رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ندیم افضل چن حال ہی میں پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں، نذر گوندل اور وسیم افضل پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہوچکے تھے۔ وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات کا خاندان اس حلقے میں ان کے مدمقابل ہوگا۔ ماضی میں پیپلزپارٹی کے احسان الحق پراچہ اس حلقے سے امیدوار ہوا کرتے تھے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) اس وقت بڑی سیاسی قوت ہے، اس کے بعد پیپلزپارٹی، اور تحریک انصاف تیسرے نمبر ہے۔ افضل چن اور ان کے خاندان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد سیاسی ڈیموگرافی تبدیل ہوئی ہے۔ چن خاندان اپنا ذاتی ووٹ بینک تحریک انصاف کے ساتھ ملا کر کامیابی کے لیے پُرامید ہے، لیکن ان کے خاندان کے ظفر گوندل کے خلاف صنعتی مزدوروں کے ادارے ای او بی آئی میں کرپشن کے الزامات تحریک انصاف کے لیے لانڈرنگ کرنے والی ’’فیکٹری‘‘ بھی نہیں دھو سکتی۔ اگر اس حلقے میں مزید کوئی بڑی سیاسی تبدیلی نہ ہوئی تو انتخابات میں یہ حلقہ میڈیا میں بہت توجہ حاصل کرے گا۔ ندیم افضل چن کی تحریک انصاف میں شمولیت کو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے بظاہر کوئی خاص اہمیت نہیں دی، حالانکہ یہ بات ہر نباضِ سیاست کو معلوم ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پکی سیٹوں والے سیاست دانوں کا انتخابات سے قبل تبدیلی کی نذر ہوجانا غیر معمولی عمل ہے۔
سیاسی چوپالوں میں ہونے والی بحث اور گفتگو سے عندیہ ملتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بہت بڑا جھکڑ چلنے والا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت اگرچہ خود کو قابلِ قبول گھوڑے کے طور پر پیش کررہی ہے لیکن انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں جو نقشہ بنے گا وہ اس کے ہوش اڑا کر رکھ دے گا۔ یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے اور غالباً یہی حتمی فیصلہ بھی ہے کہ عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کلی اکثریت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تینوں عوامی مقبولیت کے زعم میں مبتلا ہیں، ان تینوں کا شہباز ممولے سے شکست کھا جائے گا۔ ملکی سیاست کا حالیہ منظر ایک تو یہ ہے، دوسرا منظر نگران حکومت کے قیام کے بعد سامنے آئے گا۔
نگران حکومت کے سربراہ کے نام اس وقت زیر غور ہیں۔ نگران وزیراعظم کے لیے پچھلی بار فیصلہ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن نے کیا تھا تاہم نام کہیں اور سے آیا تھا۔ ویسے تو نگران حکومت کوئی ایشو نہیں ہے، لیکن جب غیرملکی لابیاں متحرک ہوجائیں تو ضرور اس بارے میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام کے لیے برطانیہ کی لابی بہت متحرک رہی تھی۔ اِس بار پاکستان میں امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والی لابی خاصی متحرک ہے۔ یہ لابی نگران وزیراعظم کے لیے ڈاکٹر شمشاد اختر یا ثانیہ نشتر کے نام پر اتفاق چاہتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا۔ نوازشریف کی حکمت عملی یہ تھی کہ اپوزیشن پہلے نام دے اور کسی ایک نام پر متفق ہوجائے تو حکومت اپنا نام دے گی۔ مسلم لیگ(ن) سمجھتی ہے کہ نگران دور اس کے لیے بہت سخت ہوگا، اسے یقین ہے کہ اصل سیاسی صف بندی تو نگران دور میں ہوگی۔ جب مسلم لیگ(ن) کے قائد نوازشریف کو احتساب عدالت سے سزا ہوجائے گی اور انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا، اس کے بعد مسلم لیگ(ن) میں ٹوٹ پھوٹ ہوگی اور مسلم لیگ(ن) سے ایک بڑا گروپ باہر نکل جائے گا۔ جنوبی پنجاب محاذ کے بعد آزاد امیدواروں کا یہ دوسرا بڑا گروپ ہوگا۔ دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جو کچھ بھی ہوا، تحریک انصاف کی جانب سے اپنے 20 ارکانِ قومی اسمبلی کے خلاف پیسے کے استعمال کے الزامات اور شوکاز نوٹس کے بعد اب یہ منصوبہ پوری طرح بے نقاب ہوتا چلا جارہا ہے۔ سینیٹ انتخابات کو ایک ماہ ہوچکا ہے، ابھی تک یہ حقیقت کھل کر سامنے نہیں آئی کہ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں صادق سنجرانی تحریک انصاف کے امیدوار تھے یا پیپلزپارٹی کے؟ فرائیڈے اسپیشل نے اُن سے اس حوالے سے استفسار بھی کیا لیکن وہ جواب دینے کے بجائے مسکرا دیئے۔ پارلیمنٹ کی راہ داریوں میں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہورہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کے خلاف ردعمل مزید بڑھے گا، اس کے نتیجے میں سیاسی حالات دو رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ ایک راستہ انتخابات کے التوا، اور دوسرا راستہ نظریۂ ضرورت کے تحت طویل عرصے کے لیے نگران حکومت کے قیام کا ہے۔ آئین کے آرٹیکل224 میں شرط عائد کی گئی ہے کہ ’’قومی یا صوبائی اسمبلی کا عام انتخاب اس دن سے فوراً بعد ساٹھ روز کے اندر اندر کرایا جائے گا جس دن اسمبلی کی میعاد ختم ہونے والی ہو، بجز اس کے کہ اسمبلی اس سے پیشتر تحلیل نہ کردی گئی ہو، اور انتخاب کے نتائج کا اعلان اس دن سے زیادہ سے زیادہ چودہ روز کے اندر کردیا جائے گا‘‘۔
آئین کا یہ آرٹیکل نگران حکومت کے قیام کے لیے کسی قسم کی طویل مدت تک کے لیے گنجائش نہیں دیتا، لیکن اسٹیبلشمنٹ کو ہر وقت شریف الدین پیرزادہ جیسے ماہرین قانون کی خدمات میسر رہتی ہیں، نگران حکومت کے لیے آئین کہتا ہے کہ قائد حزبِ اختلاف اور سبک دوش ہونے والی قومی اسمبلی کے وزیراعظم نگران وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہوں تو آئین کے آرٹیکل224 کی ذیلی شق الف پر عمل ہوگا، اس آرٹیکل میں نگران حکومت کو طول دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تاہم آئین کے آرٹیکل184/3 کا دائرہ کار بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کے حامل اقدامات کے حوالے سے سپریم کورٹ کو فیصلے دینے کا اختیار دیتا ہے، لیکن اسے آئین کے آرٹیکل199 کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ اگر کسی عدالتِ عالیہ کو اطمینان ہو کہ قانون میں کسی اور مناسب چارہ جوئی کا انتظام نہیں تو وہ آئین کے تابع رہ کر دادرسی کرسکتی ہے۔ آئینی لحاظ سے قانون سازی اگرچہ پارلیمنٹ کا کام ہے مگر اس کی تشریح سپریم کورٹ کا اختیار ہے، لہٰذا آئین اور قانون کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ہی فائنل اتھارٹی ہے۔
اس وقت صدر ممنون حسین کی آئینی مدت جولائی میں مکمل ہورہی ہے، آئین کہتا ہے کہ صدر کے عہدے کا انتخاب میعاد ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ ساٹھ روز اور کم از کم تیس روز کے اندر اندر کرایا جائے، اور اگر اسمبلی موجود نہ ہو تو منتخب اسمبلی تیس روز کے اندر یہ انتخاب کرائے گی۔ اب قومی اسمبلی کی مدت 31 مئی کو مکمل ہوجائے گی، لہٰذا صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹرول کالج میں صرف سینیٹ ہی موجود ہوگا اور قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں ہوں گی، ایسی صورت میں صدر کا انتخاب کیسے ہوگا؟ یوں کہہ لیں نگران حکومت کے دور میں سپریم کورٹ اور صدرِ مملکت کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ سپریم کورٹ کی طرح صدر کے بھی بہت اہم آئینی اختیارات ہیں، اس تمام پس منظر کے باعث نگران حکومت کے قیام کے بعد ملک میں سیاسی منظرنامہ جو بھی ہوگا، اُس میں سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کی صورت میں کسی بھی درخواست پر دیے جانے فیصلے گہرا رنگ چھوڑیں گے۔