حکومت اور مقتدر حلقوں کی جانب سے مسئلہ کی نزاکت کا احساس خوش آئند ہے
وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے شہر، ملکی سیاست کے مرکز و محور، صوبائی دارالحکومت میں جلسہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ زندہ دلانِ پنجاب کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھنا چاہتے تھے، اپنے دکھ، درد کی کہانی بیان کرنے کے خواہاں تھے… مگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا…
ایسے احکام سیاسی جماعتیں اور تحریکیں بھلا کب تسلیم کرتی ہیں! چنانچہ پشتون تحفظ تحریک نے بھی حکم عدولی کرتے ہوئے ہر حال میں اتوار 22 اپریل کو موچی دروازہ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک کے بڑے کہلانے والے ذرائع ابلاغ نے اس جلسے کا بلیک آئوٹ کیا، مگر آج کے دور میں ایسے حربے کب کارگر رہ گئے ہیں! چنانچہ پشتون تحفظ تحریک کا پیغام بھی جہاں جہاں پہنچنا چاہیے تھا، پہنچ کر رہا۔ تحریک کے رہنمائوں کی طرف سے جلسے سے قبل گرفتاریوں کا الزام بھی لگایا گیا، جس کا جواب انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے یہ دیا گیا کہ جلسے کے منتظمین میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا البتہ سیکورٹی پر بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس کی تصدیق پشتون تحفظ تحریک کے رہنمائوں نے بھی کردی کہ تقریباً تین چار گھنٹے تک تھانے میں بٹھائے رکھنے کے بعد جلسے سے قبل تمام کارکنوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
پشتون تحفظ تحریک نے لاہور کے جلسے میں اپنی منزل کراچی کو قرار دیا، جہاں 12 مئی کو جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا… مقصد اس کا 12 مئی 2007ء کو ہونے والی قتل و غارت کی مذمت بتایا گیا۔ مشہور شاعر حبیب جالب مرحوم کی صاحبزادی طاہرہ جالب نے بھی لاہور کے جلسے میں شرکت کی اور اپنے والد کی مشہور نظم ’’ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا‘‘ ترنم سے سنائی۔ ’’ڈیفنس آف ہیومن رائٹس‘‘ کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ بھی پروگرام میں شریک تھیں، جن کے اپنے شوہر 2005ء سے لاپتا ہیں اور وہ اپنے شوہر سمیت ملک بھر کے تمام لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے سالہا سال سے ایک مؤثر تحریک برپا کیے ہوئے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور میں 2014ء میں شہید ہونے والے ایک بچے کے والد افضل خان ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا اور حملے کی تفتیش کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔ عوامی ورکرز پارٹی کے صدر فاروق گجر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں بتایا جارہا تھا کہ لاہور میں امن ہے اور تم ریاست دشمن اور غدار ہو۔ انہوں نے کہا کہ غدار یہاں کیا کریں گے۔ پشتون یہاں پڑھ رہے ہیں، تجارت کررہے ہیں اور تم ان کے امن کو کیوں چھین رہے ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پختونوں کو پنجاب میں پولیس کے ہاتھوں مظالم کا سامنا ہے، مزدوروں سے زبردستی پیسے لیے جاتے ہیں اور لاہور میں دن کی روشنی میں کئی افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما علی وزیر کا کہنا تھا کہ موومنٹ لاہور پہنچ گئی ہے اور مستقبل میں اگر کچھ ہوجاتا ہے تو کوئی یہ نہ کہے کہ تم ہمارے پاس نہیں آئے۔ منظور پشتین نے اپنا خطاب شروع کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم کی دلی خواہش ہے کہ میڈیا اور عوام سے چھپائی گئی صورتِ حال کو لاہور کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پی ٹی ایم کی جانب سے رائو انوار کی گرفتاری اور لاپتا افراد کی بازیابی سمیت دیگر مطالبات پیش کیے۔ منظور پشتین نے کہا کہ پوری قوم نے سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کی گرفتاری کی صورت میں پی ٹی ایم کے پہلے مطالبے کا نتیجہ دیکھا ہے، اور اب عدالت بھی کہہ رہی ہے کہ رائو انوار دہشت گرد تھا، اور پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو معصوم قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے وفاق کے زیرانتظام علاقے (فاٹا) میں مارے گئے معصوم افراد کے قاتلوں کا نام لیے بغیر ان کی کہانیاں بھی سنائیں۔ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ 4 ہزار افراد کو بیچ سکتے ہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویزمشرف نے اپنے دور میں چار ہزار پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔ منظور پشتین نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ لاپتا افراد کو کتنے پیسوں کے عوض بیچا گیا تاکہ ہم وہ رقم جمع کریں اور آپ کو دیں تاکہ آپ ان کو واپس لا سکیں، اور اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں رہا بھی نہ کریں، صرف عدالت میں پیش کریں۔ منظور پشتین نے اعلان کیا کہ موومنٹ کا اگلا جلسہ سوات میں ہوگا اور 12 مئی کو کراچی میں جلسہ ہوگا جہاں 2007ء میں اسی روز 40 شہریوں کو دن دہاڑے خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کو جانب دارانہ انداز میں کور کرتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں لیکن آپ دوغلے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
پشتون تحفظ تحریک کا جلسہ/حامد ریاض ڈوگر
دلچسپ امر یہ ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ لاہور میں جو سلوک روا رکھا گیا اُس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ مریم نواز اور پرویزرشید نے ہم آواز ہوکر احتجاج کیا۔ مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ گرفتار کیے جانے والے پشتون بھائیوں کو رہا کیا جائے اور ریلی کی اجازت دی جانی چاہیے۔ یہ ملک اتنا ہی ان کا بھی ہے جتنا کہ یہ ہمارا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے لاہور میں پشتون اجتماع پر پابندی عائد کرنا تکلیف دہ امر ہے، یہ وقت اُن کے زخم بھرنے کا ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ہر پاکستانی کو احتجاج کا حق ہے اور پی ٹی ایم علیحدہ نہیں ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی ووٹر کو عزت دو کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔
بلاول زرداری کا احتجاج تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کا امتحان شاید 12 مئی کو ہوگا کہ جب پشتون تحفظ تحریک کراچی پہنچے گی تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان سے کیا سلوک کرتی ہے۔ مگر مریم نواز اور پرویزرشید کا احتجاج یقینا مضحکہ خیز ہی ہے کہ پنجاب میں مریم کے چچا اور نواز لیگ کے صدر جناب شہبازشریف بلا شرکت غیرے حکمران ہیں، اور پنجاب میں گڈ گورننس کے جتنے گن حکمران لیگ کی طرف سے صبح شام سننے میں آتے ہیں، ایسے میں اگر مریم اور پرویز رشید یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جناب شہبازشریف پنجاب میں بے بس ہیں اور صوبائی یا ضلعی انتظامیہ نے ان کی مرضی کے بغیر ہی پشتون تحریک کے جلسے پر پابندیاں عائد کردی تھیں، تو ان کی بات پر بھلا کون اور کیوں یقین کرے گا! اسے عوام کو بے وقوف بنانے کی بھونڈی کوشش ضرور قرار دیا جائے گا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں نے مسئلے کی نزاکت کا احساس کرلیا ہے اور معاملے کو بزور طاقت دبانے کے بجائے بات چیت سے اس کے حل کی ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ احتجاج سب کا آئینی حق ہے لیکن اس کے دوران ملکی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا اور سبز ہلالی پرچم کی توہین ناقابلِ برداشت ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے رہنما منظور پشتین اور ان کی تحریک کے بارے میں کور کمانڈر کا کہنا ہے کہ ان کے جائز مثلاً بارودی سرنگوں کی صفائی اور لاپتا افراد سے متعلق مطالبات پر بات ہوسکتی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بات چیت باقاعدہ شروع بھی ہوچکی ہے اور مثبت پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔ بعض ایسے اقدامات کی بھی اطلاعات ہیں کہ سوات، دیر اور لوئر دیر میں چیک پوسٹوں کا اختیار سول انتظامیہ کو سونپ دیا گیا ہے، اس طرح بعض دیگر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جن سے دو طرفہ اعتماد کی بحالی میں مدد ملے۔ یہ سلسلہ قابلِ ستائش ہے اور بدگمانیوں سے بچتے ہوئے اس سلسلے کو خوش دلی سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔