سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا ایمان افروز موضوع ہے کہ اس کا ہر باب دل ودماغ کو منور کردیتا ہے۔ سیرت پر قلم اٹھانا ایک نازک ذمے داری بھی ہے اور ایک منفرد اعزاز بھی۔ ہمارے محترم بھائی حافظ محمد ادریس صاحب کو اللہ نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ سیرتِ نبویؐ پر بولتے اور لکھتے ہیں تو سننے اور پڑھنے والا ہر کلمہ گو اُن کے حق میں بے ساختہ دعائیں کرنے لگتا ہے۔ حافظ صاحب نے سیرتِ طیبہ کے مدنی دور پر ’’رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘ پانچ جلدوں میں مکمل کرنے کے بعد اب مکی دور پر بھی کام مکمل کرلیا ہے۔ ان کی کتاب ’’رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں‘‘ دو جلدوں میں مکمل ہوچکی ہے۔ اس وقت پہلی جلد ہمارے سامنے ہے۔
اللہ تعالیٰ کو جسے رسول بنانا ہو اُسے پیدائشی طور پر نبوت و رسالت کی اہلیت عطا فرماتے ہیں۔ تمام انبیا علیہم السلام کی یہ شان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ان سب سے اس معاملے میں برتر ہے۔ آپؐ امتوں کے نبی ہونے کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام کے بھی نبی ہیں۔ آپؐ کو نبی الانبیا اور نبی الامم کہا جاتا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شق صدر جبکہ آپؐ حضرت حلیمہ سعدیہ کے ہاں دودھ پینے کے بعد پرورش کی عمر میں تھے تاریخِ انبیا کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ اس وقت آپؐ بچے ہی تھے کہ آپؐ کا شق صدر ہوا۔ یہ واقعہ اتنا ایمان افروز ہے کہ قاری اسے پڑھتے ہوئے محبوبِ خدا سے اپنے تعلق کی حلاوت محسوس کرتا ہے۔ اس کتاب میں یہ واقعہ حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
شقِ صدر بچپن میں بھی ہوا اور پھر بعد از نبوت و آمدِ وحی بھی اس کا ظہور ہوا۔ دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر یہ شق صدر ہوا۔ ان دونوں مواقع میں آپؐ کا سینہ شق کیا گیا اور پھر دل کو سینے میں رکھ کر سینے کو سی دیا گیا۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پیدائش کے بعد بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت کے عظیم منصب اور قیادتِ بنی نوع انسان کے لیے مزید تیار کیا گیا۔ وحی کی آمد سے قبل آنجنابؐ کے دل میں اُس وقت جب آپؐ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی، غارِ حرا میں تخلیے کا خیال پیدا ہوا اور آپؐ نے وہاں تخلیے میں ذکرِالٰہی اور فکر و تدبر کا عمل شروع کردیا۔ اسی دوران جب آپؐ کا نورِ فطرۃ عروج کو پہنچا تو جبریل علیہ السلام نورِ وحی لے کر آگئے اور سورۂ العلق کی ابتدائی پانچ آیات آپؐ کو پڑھائیں۔ گویا نورِ فطرۃ اس وقت پورے جوبن پہ تھا۔ جب نورِ وحی اس پر ضوفشاں ہوا تو پھر نورٌ علی نورٍ ہوگیا۔ یہ باب بھی اس کتاب میں خوب صورت پیرائے میں قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتا ہے۔
اسی طرح آپؐ کا عظیم نسب بھی آپؐ کی نبوت کی دلیل ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح علیہما السلام کی پاکیزہ اور بلندوبالا فطرت سے نسبت نے درّ یتیم کو چارچاند لگا دیے۔ آپؐ عالی نسب ہیں اور اس کا اعتراف ہر ایک کو تھا اور ہے۔ پھر نسلاً بعد نسل عظیم آبا و امہات سے نسبت بھی آپؐ کی شان اور طرہ امتیاز ہے۔ کئی مواقع پر اس کا اظہار ہوتا رہا، جیسے ہرقل نے حضرت ابوسفیانؓ سے جب کہ وہ ایمان نہیں لائے تھے، آپؐ کا مکتوب ملنے پر پوچھا: کیف نسبہ فیکم؟ یعنی تمھارے اندر اس نبی کا نسب کیسا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: وہو فینا ذونسب یعنی وہ ہمارے درمیان اونچے نسب والے ہیں۔ تو ہرقل نے کہا: وکذلک الرسل تبعث فی نسب قومھا۔ اسی طرح رسول اپنی قوم کے اونچے نسب میں سے بھیجے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر بندۂ مومن کے ایمان میں اضافے اور حُبّ ِرسولؐ کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ممد ہوسکتا ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درختوں اور پتھروں کا سجدہ کرنا، حدیث و سیرت کی کتب میں کثرت کے ساتھ روایت ہوا ہے۔ یہ بھی آپؐ کی نبوت ورسالت اور خصوصی شان وعظمت کی دلیل ہے۔ اسی طرح تعمیرکعبہ کے موقع پر جب اپنے چچا عباس کے کہنے پر آپؐ نے اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھی تو آپؐ بے ہوش ہوگئے۔ یہ آپؐ کی سیرت کا نمایاں مقام ہے کہ آپؐ نے شرم وحیا کی تعلیم پوری انسانیت کو دینی ہے تو نبوت سے پہلے بھی آپؐ کی ذاتِ اقدس اس کا کامل نمونہ تھی۔ پھر ہر نبی نے نبوت سے پہلے بکریاں چَرائی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اہلِ مکہ کی بکریاں چَرائیں (صحیح بخاری)۔ اس گلہ بانی کو خود آپؐ نے ایک خوبی اور خصوصیتِ انبیا کے طور پر بیان فرمایا۔ یہ بھی آپؐ کی نبوت کی دلیل اور آپؐ کی شخصیت کی عظمت ہے۔ صاحبِ تصنیف نے ان تمام واقعات کا بہت خوبصورت انداز میں احاطہ کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو خلافِ شرع ہو۔ اس کے ساتھ بچپن سے جوانی تک آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں ایک بھی ایسا کام نظر نہیں آتا جس پر کوئی انگلی اٹھا سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر سب قریش کو جمع کیا اور پوچھا: تم نے مجھے کیسا پایا؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ یہ ہمارا بار بار کا تجربہ ہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے کفار و قریش کا یہ اقرار ان کے کفر و عناد کے خلاف بہت بڑی دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کا صبر، عزم و ہمت اور جس مقصد کے لیے آپؐ کو کھڑا کیا گیا تھا، اس پر استقامت لاجواب و بے مثال ہے۔ آپؐ نے ہر ابتلا کا مقابلہ کیا، حتیٰ کہ وہ مشن اپنی تکمیل کو پہنچ گیا جس کے لیے آپؐ کو کھڑا کیا گیا تھا، اور سرزمینِ عرب میں مکمل تبدیلی آگئی۔
اس تبدیلی کو حقیقی انقلاب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ دنیا میں اس انقلاب کی مثال تاریخ کے کسی دور میں نہیں ملتی، نہ اس سے قبل، نہ اس کے بعد! اس انقلاب کا ثمرہ تھا کہ تمام معاشرہ پہلے سے بدل کر نئی اور یکسر مختلف شکل اختیار کرگیا۔ جھوٹ ختم ہوگیا، اس کی جگہ سچائی کا دور دورہ ہوا، دھوکا اور فریب ختم ہوگیا، اس کی جگہ دیانت و ہمدردی اور غم گساری واخوت و موانست آگئی، دشمنیاں ختم ہوگئیں، ان کی جگہ دوستیاں قائم ہوگئیں، معاشرے میں امن وامان قائم ہوگیا اور زمین کا ہر چپہ بدامنی اور فتنوں سے مامون ہوگیا۔ ہر کسی کی جان ومال اور عزت و آبرو محفوظ ہوگئی۔ یہ وہ انقلاب تھا جس کی دنیا منتظر تو تھی لیکن اس کی خاطر دعوتِ حق کو قبول کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و
(باقی صفحہ 41پر)
حکمت سے لوگوں کو دعوت دی۔ جن خوش نصیب افراد نے حق کی دعوت قبول کرلی، ان کو تسلی اور سہارا دیا۔ سب بیمار تمام بیماریوں سے شفایاب ہوگئے، کیونکہ نبیٔ رحمتؐ وہ نسخۂ کیمیا لے کر آئے تھے جس میں ہر درد کا علاج اور ہر مرض سے شفا خود اللہ نے پیدا فرمائی تھی۔
مکی دور کے پہلے حصے میں آبِ زم زم، چاہِ زم زم، اس کی تولیت، بیت اللہ کی تعمیر اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار، حرب فجار اور حلف الفضول اور پھر نبوت کے بعد کے حالات، سرّی دعوت، پھر جہری دعوت۔ اس کے آگے کعبۃ اللہ میں نماز کی ادائیگی، قرآن پاک کی تلاوت، پھر عمومی دعوت اور آزمائشیں… تمام عنوانات پر سیرحاصل تحقیقی لوازمہ کتاب کے حصہ اول میں جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا حصہ جو اس کے بعد طباعت سے مزین ہوگا، اس کے مضامین کا بھی خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ مکی زندگی میں جتنے بھی اہم واقعات پیش آئے ان تمام اہم معاملات اور ہجرتِ مدینہ کے تذکرے پر مشتمل اس کتاب کی دوسری جلد بھی مستقبل قریب میں قارئین کے ہاتھوں میں آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ اس مجموعۂ سیرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کی برکت سے زیادہ سے زیادہ بامقصد اور زیادہ سے زیادہ فیض بخش بنادے۔ ہم جناب حافظ محمدادریس کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ ان کے قلم و زبان کو مزید قوت اور تاثیر سے مالامال کردے تاکہ وہ دینِ حق کی اقامت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے زیادہ سے زیادہ خدمات سرانجام دے سکیں۔ آمین یارب العالمین!