اکبرالٰہ آبادی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کے تعلقات

عبدالعلیم قدوائی مرحوم معروف مفسرِ قرآن، ادیب اور صحافی مولانا عبدالماجد دریابادی کے بھتیجے اور داماد تھے۔ وہ حکومتِ ہند کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مستقلاً علی گڑھ میں مقیم ہوگئے تھے۔ ان کا علم و ادب سے قریبی تعلق تھا اور وہ دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنے قیمتی وقت کو مفید علمی کاموں کی تکمیل میں صرف کیا۔ ان کے بڑے علمی کارناموں میں مولانا عبدالماجد دریابادی کے تین معروف رسالوں یعنی سچ، صدق اور صدقِ جدید کے مفصل اشاریوں کی تکمیل شامل ہے۔ یہ تینوں اشاریے خدا بخش لائبریری پٹنہ سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے مولانا دریابادی کے شاہکار ادبی تبصروں کا انتخاب بھی کیا جو دہلی سے ’’تبصرات ِ ماجدی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ عبدالعلیم قدوائی مرحوم علمی معاونت کے معاملے میں بڑے فراخ دل بزرگ تھے۔ عبدالعلیم قدوائی مرحوم کے بڑے صاحب زادے ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی اسلامک فائونڈیشن لیسٹر سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں صدر شعبۂ انگریزی ہیں۔ عبدالعلیم قدوائی کا انتقال مورخہ 9 اگست 2017ء کو علی گڑھ میں ہوا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔ مرحوم کا پیش نظر مضمون ہمیں فرائیڈے اسپیشل کے مخلص کرم فرما اور قلمی معاون جناب راشد شیخ کے توسط سے موصول ہوا ہے۔ راشد شیخ کے تحریر کردہ تعارف کے ساتھ جو قارئین فرائیڈے اسپیشل کی نذر ہے۔ (ادارہ)
لسان العصر حضرت اکبر الٰہ آبادی سے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے بڑے گہرے اور مخلصانہ تعلقات تھے، حالانکہ اکبر صاحب اُن سے سن میں بہت بڑے اور اُن کے والدِ ماجد مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم کے دوستوں میں سے تھے، زمانۂ طالب علمی ہی سے مولانا ان کا کلام بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اتفاق سے اکبر صاحب کے صاحبزادے عشرت حسین صاحب ڈپٹی کلکٹری کے عہدے پر 1903ء میں سیتاپور آئے اور مولوی عبدالقادر صاحب کی کوٹھی پر فروکش ہوئے۔ دورانِ قیام مولاناکا ان کا ساتھ رہا اور ان سے اچھے تعلقات ہوگئے۔ عشرت صاحب معاشرتی اعتبارسے بالکل صاحب بہادر تھے لیکن مولوی عبدالقادر صاحب نے ان کی اسلامی معاشرت کی طرف بھی دھیان رکھا اور عید کے دن ان کا سوٹ اترواکر اور شیروانی پہناکر اپنے ساتھ عیدگاہ لے گئے، جس سے اکبر صاحب بہت خوش ہوئے۔ مولانا کی اکبر صاحب سے پہلی ملاقات اپریل 1912ء میں الٰہ آباد میں ہوئی جب وہ بی اے کا امتحان دینے لکھنؤ سے الٰہ آباد گئے۔ اکبر صاحب ازراہِ خورد نوازی ان سے بڑے لطف و کرم سے ملے، اپنا کلام سنایا، پھر لکھنؤ، الٰہ آباد وغیرہ میں برابر ملاقاتیں رہیں۔ نومبر 1912ء میں مولوی عبدالقادر صاحب کا انتقال مکہ معظمہ میں سفرِ حج کے دوران ہوا۔ مولانا کی گزارش پر اکبر صاحب نے ان کا قطعہ تاریخ لکھا جس میں بڑی خوبی سے صرف ایک لفظ شغل سے ان کی تاریخ و فات نکالی
اس قدر مصروفِ ذکر و شغل تھے
شغل ہی سے نکلی تاریخِ وفات
1330 ہجری
اکبر صاحب اکثر کرایہ بھیج کر مولانا کو الٰہ آباد، پرتاپ گڑھ وغیرہ بلایا کرتے۔ ان ملاقاتوں میں شعروادب کے ساتھ دینی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتی، مگر اصلاحی عنصر ہر چیز پر غالب رہتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا تشکیک و الحاد کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور اکبر صاحب کو ان کے مذہبی خیالات سے واقفیت ہوچکی تھی، چنانچہ انہوں نے بڑے حکیمانہ، شیریں و لطیف انداز میں ان کی اصلاح و نصیحت کا کام جاری رکھا، جس کا مولانا پر بڑا اثر ہوا، چنانچہ وہ اس لحاظ سے اُن کو اپنا خصوصی محسن قرار دیتے تھے کہ اُن کی حکیمانہ پند و موعظت نے انہں مذہب اور قرآن کی طرف مائل کیا۔ عین اسی زمانۂ الحاد میں اکبر نے نیاز بریلوی کے ایک شعر پر تضمین کرکے مولانا کو ایک خط لکھا:
’’ابھی آپ کا خط ملا۔ بے ساختہ یہ تضمین میری زبان پر آگئی:
ماجد کو آپ سمجھیں بیگانہ طریقت
دل میں تو میرے ہے ایک امید کا قصیدہ
ہیں وہ غالباََ مصداق اس شعر با اثر کے
ارشاد کر گیا ہے اک عبد برگزیدہ
من پاک باز عشقم ذوق فنا چشیدہ
آہوئے دشت ہویم از ما سوا رمیدہ
خدا میری بات سچ کرے‘‘۔
خدا نے واقعی اکبر کی بات کو سچ کر دکھایا، چنانچہ ایک دوسرے خط میں لکھا ’’میں خوش ہوں کہ مذہب وایمان کی صداقت آپ کی صاف اور بلند طبیعت سے نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے مکرم ڈپٹی صاحب (مولوی عبدالقادر صاحب) کی روح فرشتوں سے یہ سن کر خوش ہوئی ہوگی کہ ان کا لڑکا حقیقت آشنا ہوتا جارہا ہے اور بہت جلدکہہ دے گا’’بمقامے رسیدہ ام کہ مپرس‘‘۔
تعلقات بڑھنے کے ساتھ ہی اکبر کی حکمت، پند و موعظمت، سخن سنجی اور شعری، نثری کمالات سے مولانا متاثر ہوتے گئے۔ اس زمانے میں انگریزی حکومت ہر ہندوستانی کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی تھی، چنانچہ اکبر کے کچھ اشعار اور نظموں پر اُس وقت کے صوبہ یوپی کے چیف سیکریٹری مسٹر برن کو ناراضی پیدا ہوئی۔ مولانا اپنے علمی ذوق اور فلسفہ و انگریزی ادب کی معلومات کی بنا پر ان کے کچھ نزدیک تھے، ان کی کوششوں سے مسٹر برن کی ناخوشی دور ہوگئی جس سے اکبر صاحب مولانا کی طرف اور زیادہ ملتفت ہوئے اور خلوص و حکمت سے ان کی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کرنے لگے۔ اکبر صاحب لکھنؤ بھی اکثر آتے اور مولانا برابر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ چنانچہ ایک دفعہ وہ مولانا کی لکھنوی قیام گاہ خاتون منزل میں ٹھیرے اور ان کے اعزاز میں جو دعوت مولانا نے کی اُس میں لکھنؤ کے متعدد شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی۔
حضرتِ اکبر کی پُرلطف صحبتوں، ان کی لطیفہ گوئی اور باموقع حکیمانہ نصیحتوں کی کئی دلچسپ مثالیں مولانا نے اپنی تحریروں میں دی ہیں، مثلاً ایک دفعہ اکبر صاحب نے مولانا کو اپنے صاحبزادے کے یہاں پرتاپ گڑھ مدعوکیا اور ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ ایک روز وہ اپنے لڑکے جو وہاں مجسٹریٹ تھے، کے ملنے والوں کی محفل میں آگئے مگر کسی نے کچھ التفات نہ کیا، اتنے میں ڈپٹی صاحب خود آگئے اور ان کا تعارف اپنے والد کی حیثیت سے کرایا۔ اب سب کا رویہ بدل گیا۔ اکبر صاحب نے کہا کوئی بات نہیں۔ ایک دفعہ یورپ میں اللہ میاں انسان کے بھیس میں کئی گرجوں میں پہنچے اور اپنا تعارف خالق اور پروردگار کی حیثیت سے کرایا مگر کوئی مخاطب نہیں ہوا، تب انہوں نے کہا: ارے میں تمہارے عیسیٰ مسیح کا باپ ہوں۔ یہ سن کر سب کے سر تعظیم سے جھک گئے۔
اسی طرح ایک دفعہ مولانا نے اکبر کے سامنے مشہور ملحد فلسفی اور ماہر نفسیات ولیم جیمس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور اہم شخص تھے۔ اس پر اکبر صاحب خوب ہنسے اور کہا: اچھا یہی فقرہ کاغذ پر لکھ کر اور آج کی تاریخ ڈال کر رکھ لیجیے، دس سال بعد آپ کو دکھاکر پوچھوں گا کہ آپ کا جذبۂ عقیدت کہاں گیا۔
اکبر ایک صاحبِ فہم حکیم ہونے کی وجہ سے مولانا کے تشکیک والحاد کے جذبات کی تردید بڑے اچھے اور مؤثر طریقے سے کرتے تھے، چنانچہ ایک دفعہ مولانا کو تلقین اس طرح کی: ’’آپ نے تو کالج میں عربی زبان لی تھی، اس کا شمار دنیا کی وقیع زبانوں میں کیا جاتا ہے، آپ کے لیے آسان ترین صورت ہے کہ قرآن کی تلاوت کا معمول رکھیے، اس کی فصاحت و بلاغت کا کیا کہنا۔ یورپ تک قائل ہے۔ آپ کے لیے نہ وضو کی قید ہے، نہ وقت و مقدار کی۔ بس جتنا جی چاہے پڑھ لیا کیجیے، اور جب کوئی آیت یا فقرہ پسند آجائے تو اس کو ذرا توجہ سے دو تین مرتبہ پڑھ لیا کیجیے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر دورانِ گفتگو ان سے پوچھا: ’’کیوں صاحب آپ کو اللہ میاں کے متعلق شک و شبہ ہے، اب یہ فرمایئے کہ کبھی آپ کو اپنے بندہ ہونے میں بھی شک ہوا ہے؟‘‘ جب مولانا نے اس کا جواب نفی میں دیا تو بولے: ’’بس اتنا کافی ہے، اپنی عبدیت کا اقرار کرتے جائیے‘‘۔ مولانا کے اکبر صاحب سے نیازمندی کے تعلقات اپریل 1912ء سے ستمبر 1921ء یعنی تقریباً دس برس تک قائم رہے، اس مدت میں انھوں نے بہت کچھ سیکھا ان کی ذات سے اور ان کے کلام سے، اور رفتہ رفتہ ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی۔ دونوں حضرات میں مراسلت بھی خوب رہی، چنانچہ حضرتِ اکبر کے تقریباً دوسو مکاتیب مولانا مرحوم کے مرتبہ ’’خطوطِ مشاہیر‘‘ کی جلد اول میں موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مولانا سے خاصے بے تکلف تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ مولانا مرحوم ان کی شاعری کے ساتھ ہی ان کی نثر کی شگفتہ نگاری کے بھی بڑے قائل تھے اور فرماتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مشہور ترین شاعر، بلند پایہ ادیب ہونے کے ساتھ ہی بڑے پختہ ایمان والے عارف باللہ تھے مگر بدقسمتی سے ان کی شہرت صرف ایک شوخ اور ظریف شاعر ہونے کی ہوئی۔
مولانا نے ان کے کلام و پیام کی اشاعت خوب کی، خاص کر اپنے مؤقر ہفتہ وار اخبارات سچ، صدق اور صدقِ جدید کے ذریعے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ اکبر صاحب پر اپنے طرزِ خاص میں ایک جامع کتاب لکھیں، مگر افسوس دیگر علمی مشغولیات خصوصاً قرآن کے عظیم الشان کام کی وجہ سے یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ پھر بھی انہوں نے متعدد مضامین اور پیامات لکھے، ریڈیو نشریوں اور نجی گفتگوئوں میں ان کی شاعری کے کمالات اور ان کے زبردست اصلاحی مشن کو خوب پھیلایا اور بڑھایا۔
چنانچہ اس سلسلے میں ان کے نوشتہ جات کا مجموعہ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل’’اکبر نامہ یا اکبر میری نظرمیں‘‘ ہے جس کا تیسرا ایڈیشن 2008 ء میں اس خاکسار نے مرتب کرکے ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ سے شائع کرایا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کلام اکبر کے سب سے معتبر و مستند شارح مولانا عبدالماجد صاحب مرحوم تھے، کیونکہ انھوں نے نہ صرف اس کا بنظرغائر مطالعہ کیا بلکہ براہِ راست خود شاعر (اکبر صاحب) کی زبان سے خاصے اشعار سنے اور ان کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔ چنانچہ جب پاکستان سے کلیاتِ اکبر کا چوتھا حصہ موصول ہوا تو اس کی غلطیوں کی تصحیح مولانا مرحوم نے وقت نکال کر کی اور مختلف تلمیحات، ناموں، جگہوں اور اشاروں اورکنایوں کی تشریح و اصلاح کی۔ مقام مسرت ہے کہ یہ تصحیح شدہ حصہ قومی کونسل کے زیراہتمام شائع شدہ ’’کلیاتِ اکبر‘‘ میں شامل ہے، جس سے بہت سی غلط روایات کی تردید ہوتی ہے اور اشعار کا صحیح پس منظر نظروں کے سامنے آتا ہے۔
مولانا دریابادی، اکبرؔ اور اقبالؔ کی اصلاحی اور حکیمانہ شاعری کے بڑے قائل تھے اور ان کو علمِ نافع اور ادبِ صالح کی بہترین مثال قرار دیتے تھے۔ انھوں نے کلام اکبری کی تشریح و توضیح ظرافت و زندہ دلی، سیاست، عشق و تغزل اور اخلاق و معاشرت کے عنوانات کے تحت کی اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرتِ اکبر بہت بڑے ظریف، شوخ طبع شاعر ہونے کے ساتھ ہی حکیم، مصلح اور عارف تھے۔ انہوں نے فرنگیت، تجدد، اخلاقی انحطاط اور معاشرتی مفسدات کے خلاف اپنی مخصوص اصطلاحات کے ساتھ آواز بلند کی اور قوم و ملت کو صحیح راستہ دکھایا۔ یہ کام دورِ غلامی کے زبردست قانونی شکنجوں اور سرکاری گرفتوں کی موجودگی میں بڑا دشوار تھا۔ مگر وہ اپنی فراست، ذہانت، ترکیب و محاورہ کی ندرت اور قافیوں کی جدت کے زور سے اپنے تبلیغی مشن میں کامیاب رہے۔ بت، صنم، مس، شیخ، اونٹ، گائے، نیٹو، کالج، برہمن، لالہ، صاحب، بسکٹ،گزٹ، پوری، چپاتی کی تلمیحیں اور اشارے اس سلسلے میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
مولانا نے اپنے مقالات، پیامات اور نشریات میں اس بات پر خاص زور دیا کہ اکبر بڑے پُرگو اور زودگو شاعرتھے جنہیں ذہانت، شوخی، برجستگی، معنی آفرینی، لطافت کے اوصاف بدرجۂ اتم حاصل تھے۔ وہ مذہب، مشرقیت اور اعلیٰ اخلاق کے زبردست علَم برداروں میں تھے، اور انہوں نے ظرافت اور شوخی کے پردے میں اصلاح و تبلیغ کا کام بڑے اچھے طریقے پر انجام دیا۔ گو بہتوں کی نظر کلام کی ظاہری شوخی و ظرافت ہی تک محدود رہی اور اس کے مغز تک نہ پہنچ سکی۔ پھر بھی کلامِ اکبر کا بالواسطہ گہرا اثر قومی و ملّی اخلاق و اندازِ فکر پر پڑا۔
اکبرکا زمانہ بڑا پُرآشوب اور ہنگامہ خیز تھا۔ برطانوی استعماریت اور استبداد پورے شباب پر تھا اور تفرنج اور مغربیت کا سیلاب پورے ہندوستان کو اپنی زد میں لیے ہوئے تھا۔ جنگِ آزادی شروع ہوچکی تھی۔ سرسید احمد خان نے تعلیم اور گاندھی جی نے سیاسیات کے میدان میں ہندوستانیوں میں بیداری، جوش، ولولہ اور تڑپ پیدا کردی تھی۔ اکبر ان دونوں حضرات کی تحریکوں اور طریقۂ عمل کی تائید میں پوری طرح نہ تھے، پھر بھی اُن کے اخلاص اور دردمندی کے قائل تھے۔ ان کا ایمان داری سے خیال تھا کہ اصل ضرورت صحیح مذہبیت اور اعلیٰ اقدار پر معاشرے کی تنظیمِ نو کی ہے۔ ان کا پیام ہندوستانیوں کے لیے یہ تھا کہ وہ فرنگی تسلط سے آزاد ہوکر انسانیت کے اچھے نمونے بنیں۔
مولانا دریابادی نے اپنے اصلاحی اور تبلیغی مشن میں اکبر کے اشعار سے خوب کام لیا اور ان کے بہت سے مصرعوں اور اشعار کو بڑی برجستگی اور شگفتگی سے اپنے مقالات اور شذرات میں استعمال کیا، جن کی وجہ سے وہ زبان زد عوام ہوگئے۔
اکبر اور ان کی شاعری پر بہت سے ترقی پسند اور بزعم خود روشن خیال حضرات نے متعدد سطحی اعتراضات کیے جن کا مدلل اور کافی و شافی جواب مولانا نے اپنے مقالات اور پیامات میں دیا۔
اردو ادب کی خوش نصیبی تھی کہ ان دونوں حضرات کے باہمی تعلقات بڑے خوشگوار اور اچھے رہے، جس کی وجہ سے اکبر کے کلام و پیام کو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔