’’قلم خریدو کتاب پڑھو‘‘ تحریک

بقول برادرم سعود ساحر ’’آزاد بن حیدر ایک چلتی پھرتی تاریخ کی کتاب ہیں۔ وہ تاریخ کے بیان میں تسلسل برقرار رکھتے ہیں۔ لگتا ہے کوئی کتاب سامنے دھری ہے اور وہ ورق ورق پڑھے چلے جاتے ہیں۔ نصف صدی سے چونتیس برس زیادہ زندگی کے مہ و سال گزار چکے ہیں، مگر خدا سلامت رکھے، جسم و جاں کی توانائی بھی برقرار ہے اور یادداشت تو غضب کی ہے۔ لگتا ہے کہ تاریخ کا کوئی ذہین طالب علم اپنے حافظے کے جوہر دکھا رہا ہے۔‘‘
’’چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5 تا 16 سال کی عمر کے طلبہ کے لیے مفت و لازمی تعلیم کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں چاروں صوبوں کے سیکریٹری، وفاقی سیکریٹری، چیئرمین HEC، LUMS کے نمائندے اور عدالتی معاون بلال حسن منٹو کو شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر مختار کی سربراہی میں کمیٹی کو روڈمیپ کی ذمے داری تفویض کی گئی ہے، تاکہ چیف جسٹس کے ’’ایک کتاب ایک یونیفارم‘‘ کے خواب کو تعبیر حاصل ہوسکے۔ اس سے قبل چیف جسٹس صاحب نے پروفیسر فیصل باری سے بھی مشاورت فرمائی۔‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی جناح مسلم لیگ کے سربراہ پروفیسر آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے جن کا نعرہ ’’انقلاب بالقلم و الکتاب‘‘ ہے اور جو جہالت کے خلاف جہاد میں مصروفِ عمل ہیں، انہوں نے اسی کراچی میں جہاں چالیس سال پہلے ٹی وی اور وی سی آر بیچ دو اور اسلحہ خریدو کا نعرہ بلند ہوا تھا، آج 2018ء میں ’’قلم خریدو کتاب پڑھو‘‘ کے لیے انقلاب باِلقلم والکتاب کی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، جس کی ابتدا گزشتہ دنوں ’’جناح تعلیمی اسمبلی‘‘ کے نہایت اہم اجلاس سے ہوئی۔
ایجوکیشن ونگ کے زیراہتمام ’’جناح تعلیمی اسمبلی‘‘ کا اجلاس مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں شہر کے مختلف طبقہ ہائے زندگی کے افراد نے شرکت کی۔ کانفرنس کی ابتدا نثار احمد عثمانی نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی، راقم نے نظامت کے ساتھ نعتِ مبارکہ پیش کی، محسن غیور فاروقی نے علامہ اقبالؒ کی نظمیں پیش کیں۔
آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے صدارتی خطاب میں کہا کہ تعلیمی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا، ہر قوم کی ترقی کا راز اُس کے اہلِ علم اور دانشور ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر قائداعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مروجہ بین الاقوامی جدید ترین تعلیم حاصل نہیں کریں گے، ملیامیٹ ہوجائیں گے‘‘۔ آزاد بن حیدر نے کہا کہ جہالت کی وجہ سے دہشت گردی، جرائم اور کرپشن کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو تعلیمی صورتِ حال پر کمیٹی بنانے پر مبارک باد دی اور مطالبہ کیا کہ تعلیمی بجٹ میں 100فیصد اضافہ کیا جائے، تمام سرکاری ملازمین کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخل کرائیں تاکہ ملک میں یکساں تعلیمی معیار رائج ہوسکے۔
ماہرِ تعلیم پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ ہمیں تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ایک پریشر گروپ بنانا چاہیے، جو الیکشن میں سیاسی جماعتوں سے پوچھے کہ تم نے اپنے منشور میں تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کیا بنیادی اور ضروری نکات رکھے ہیں۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر ہارون الرشید نے کہا کہ جتنی کرپشن آج شعبۂ تعلیم میں ہے، کسی اور شعبے میں نہیں۔ یہاں تک کہ تعلیم کا 80فیصد بجٹ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر خواجہ قمرالحسن نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد کی قیادت نے تعلیمی شعبے میں اچھا کام کیا مگر بعد میں آنے والوں کی ترجیحات بدل گئیں۔ پروفیسر محترمہ فرحت عظیم خان نے کہا کہ ہمیں اُس نظامِ تعلیم کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو۔ اسلام آباد سے آئے ہوئے چیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر افضل بابر نے کہا کہ ہمیں جدید تعلیمی پالیسی میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ملک میں تین لاکھ سے زائد تعلیمی ادارے اور تینتیس لاکھ اساتذہ اس سیکٹر سے وابستہ ہیں مگر آج بھی بڑی تعداد میں ہمارے بچے تعلیمی نظام سے باہر ہیں۔ ہمیں پاکستان کو محفوظ بنانا ہے تو ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کا نعرہ اپنانا ہوگا۔
ونگ کمانڈر (ر) عاصم نواز نے کہا کہ پاکستان پہلی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی، مگر ہم نے قراردادِ مقاصد کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور غیر ملکی نظام سیاست کو اپنا لیا ہے جو کہ ایک المیہ ہے۔ ہمیں نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد بتانے ہوں گے اور یکساں نظامِ تعلیم کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔
اس موقع پر پروفیسر آزاد بن حیدر نے درج ذیل قراردادیں پیش کیں جنہیں ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا:
٭جناح تعلیمی اسمبلی چیف جسٹس پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت تعلیمی اصلاحات کے لیے قائم کردہ کمیٹی پر مبارک باد پیش کرتی ہے۔
٭ یہ اسمبلی چیف جسٹس سے یہ بھی درخواست کرتی ہے کہ وہ تمام صوبوں کو ہدایت فرمائیں کہ وہ آرٹیکل 25-A کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کریں اور رولز آف بزنس ایک ماہ میں تیار کریں۔
٭ وفاقی وزارتِ تعلیم بین الصوبائی وزارت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھی اپنی پالیسی ایک ماہ میں مرتب کرنے کی ہدایت فرمائے۔
٭ صوبائی محکمہ تعلیم کو اختیار دیا جائے کہ وہ پرائمری کے بچوں کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم دے۔
٭ محکمہ تعلیم کو کرپشن فری بنانے کے لیے ماہرینِ تعلیم ہی کو محکمے میں مقرر کیا جائے۔
٭ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ جامعات کی مالی اور انتظامی ذمے داری کو پورا کرے۔
٭ تمام صوبوں کے تعلیمی بجٹ میں 100فیصد اضافہ کیا جائے۔
٭ اسمبلی سندھ ہائی کورٹ کے اس حکم کو خوش آئند قرار دیتی ہے جس میں اُس نے اپنے 2013ء کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے سیکریٹری ایجوکیشن کو نوٹس دیا ہے کہ آئین کے پہلے حصے کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
٭2 مارچ 2018ء کو سندھ اسمبلی نے کالی موری کالج حیدرآباد کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا مگر جامعات ترمیمی بل 2018 کی وجہ سے اسے ابھی تک یونیورسٹی نہیں بنایا جا سکا۔ اسمبلی مطالبہ کرتی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات میں کسی بھی صوبائی حکومت کو دخل اندازی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
٭ اسمبلی مطالبہ کرتی ہے کہ ایک قوم تشکیل دینے کے لیے ایک یکساں قابلِ عمل تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔