برکۃ العصر حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ (پ1935ء) عالم اسلام کے ایک جیّد عالم دین، بہترین خطیب، ممتاز محقق اور صاحب طرز مصنف کی حیثیت سے معروف ہیں۔ قرآن و سنت سے گہری واقفیت کے ساتھ جدید افکار پر موصوف کی اچھی نظر ہے۔ موضوع کا تنوع، اسلوب کی انفرادیت، طرزِ استدلال کی ندرت اور زبان وبیان کی شگفتگی ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
مولانا عمری معروف دینی درس گاہ جامعہ دارالسلام عمرآباد (تمل ناڈو) کے فارغ التحصیل، مدراس یونیورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی میں گریجویٹ ہیں۔ وہ اس وقت جماعت اسلامی ہند کے امیر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، جامعۃ الفلاح بلریا گنج کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرستِ اعلیٰ، ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ اور تصنیفی اکادمی دہلی کے صدر اور مشہور سہ ماہی مجلہ ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ علی گڑھ کے بانی مدیر ہیں۔ تقریباً پانچ سال تک ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ دہلی کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔
مولانا عمری کی مختلف موضوعات پر چار درجن سے زائد تصانیف منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان میں تجلیاتِ قرآن، اوراقِ سیرت، معروف و منکر، غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، انسان اور اس کے مسائل، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام… انسانی حقوق کا پاسبان، کمزور اور مظلوم… اسلام کے سایے میں، غیراسلامی ریاست اور مسلمان، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، عصرِ حاضر میں اسلام کے علمی تقاضے، دعوت و تربیت: اسلام کا نقطۂ نظر … مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کے ترجمے عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، تلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل میں ہوچکے ہیں۔ حقوقِ نسواں مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، اسلام کا عائلی نظام، عورت اور اسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں جیسی تصانیف اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
زیرنظر کتاب ’’راہیں کھلتی ہیں‘‘ مولانا کے چند مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین اصلاً وہ تقاریر ہیں جو مختلف اوقات میں کی گئی ہیں، یا وہ خطبات ہیں جو عیدین کے موقع پر مرکزِ جماعت اسلامی ہند دہلی میں واقع جامع مسجد’مسجد اشاعتِ اسلام‘ میں دیے گئے ہیں۔ ان مضامین میں امتِ مسلمہ کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ملکی اور بین الاقوامی ناسازگار حالات میں اس کے اندر حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولانا عمری تحریر فرماتے ہیں:
’’اس عاجز کے مضامین کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں:1۔ دعوت و تربیت… اسلام کا نقطۂ نظر، 2۔ یہ ملک کدھر جارہا ہے؟ 3۔ ملک و ملت کے نازک مسائل اورہماری ذمہ داریاں۔ اب یہ چوتھا مجموعہ ’’راہیں کھلتی ہیں‘‘ پیش خدمت ہے۔
اس مجموعہ کے تمام مضامین وہ تقاریر ہیں جو مختلف اوقات میں کی گئیں، یا وہ خطبات ہیں جو عیدین کے موقع پر دیے گئے۔ انہیں نظرثانی، ترمیم اور حذف و اضافے کے بعد مضامین کا قالب دیا گیا ہے۔ ان مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
پہلے حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ اہلِ ایمان کے لیے اسوہ ہے۔ ان مضامین میں آپ علیہ السلام کی زندگی کے نمایاں پہلوئوں کی وضاحت ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ اس سے جو راہ نمائی ملتی ہے، وہ بھی سامنے آئے۔
اس مجموعہ کے دوسرے حصے میں دورِ حاضر میں اسلام کی راہ نمائی… دعوتِ دین، خدمتِ خلق اور اخلاق فاضلہ سے متعلق مضامین ہیں اور امت کو ان سے متعلق ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
تیسرا حصہ خطباتِ عیدین پر مشتمل ہے۔ یہ خطبات مسجد اشاعتِ اسلام میں دیے گئے ہیں۔ان میں سے بعض کتابچوں کی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ دو ایک خطبات اس خاکسار کے مضامین کے دوسرے مجموعوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ان مضامین میں جو چیز قدرِ مشترک ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نوع انسانی کے لیے راہِ نجات ہے۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔ جو فرد یا معاشرہ اس کی راہ نمائی میں بڑھے گا وہ سرخرو ہوگا، اور جو اس سے گریز کرے گا، ناکامی اور خسران سے دوچار ہوگا۔ یہی حقیقت ان مضامین میں مختلف جہات سے بیان ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کہیں کہیں تکرار کا احساس ہوتا ہے، لیکن ان میں سے ہر مضمون اپنی جگہ مستقل ہے۔ اسے اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تکرار محسوس نہ ہوگی۔
اس وقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف شدید تعصب اور نفرت کی فضا پائی جاتی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات بہ ظاہر اس کے لیے سازگار نہیں ہیں، اس لیے کبھی کبھی یہ خیال ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ آج کے انسان کے لیے اسلام شاید قابلِ قبول نہ ہو، لیکن اس واقعے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان ناموافق حالات نے حق کی تلاش کا جذبہ بھی ابھارا ہے۔ یہ جذبہ توقع ہے کہ اسلام کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرے گا۔ جن لوگوں نے اسلام کا پرچم اٹھایا ہے انہیں ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور دلائل سے راہِ حق واضح کرنی ہوگی۔ امید ہے، موجودہ گھٹا ٹوپ اندھیرے سے روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی اور اسلام اپنی پوری تابانی کے ساتھ ابھرے گا۔ ان مضامین میں یہی حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسے قبولیت سے نوازے اور اس عاجز کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔
اس مجموعہ کی ترتیب میں برادرِ عزیز ڈاکٹر محمد رضی الاسلام کے مشورے شامل رہے ہیں۔ انہوں نے حسبِ ضرورت عنوانات قائم کیے اور پروف ریڈنگ کی۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔‘‘
مضامین کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
باب اول: ذکر ابراہیم علیہ السلام
٭ اسوۂ ابراہیمی
٭حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیاں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت
باب دوم: راہِ اسلام
٭اسلام۔ موجودہ دور کے تمام مسائل کا حل
٭عصر حاضر میں دعوتِ دین کی اہمیت اور اس کا طریقۂ کار
دعوتِ دین کے اصول و آداب
خدمتِ خلق۔ دینی نقطۂ نظر سے
٭درسِ اخلاق
باب سوم: راہیں کھلتی ہیں
پیش نظر خطبات
٭ ملک وملت کے حالات اور ہماری ذمے داریاں
(خطبہ عیدالفطر)
٭ قرآن کی روشنی (خطبۂ عیدالفطر)
ہمارے مسائل اور ان کا حل (عیدملن کی تقریب کے موقع پر)
٭ اللہ کی کتاب ہم سے کیا چاہتی ہے؟ (خطبۂ عیدالفطر)
٭انصاف کے گواہ بنو (خطبۂ عیدالفطر)
٭موجودہ حالات کیا چاہتے ہیں؟ (خطبۂ عیدالفطر)
٭موجودہ حالات میں اسلام کی رہنمائی (خطبۂ عیدالاضحی)
٭ عید کا پیغام… امت کے نام (خطبۂ عیدالفطر)
٭ امتِ مسلمہ کی موجودہ صورتِ حال اور ہماری ذمے داریاں (خطبۂ عیدالفطر)
]مورخہ یکم جولائی 2017ء کو جماعت اسلامی کی جانب سے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں ’’عیدملن پروگرام‘‘ رکھا گیا جس میں مختلف مذاہب کی نمائندہ شخصیات، مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے نمائندوں اور سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے جو مختصر خظاب کیا تھا اسے ماہ رمضان کے تربیتی پہلو کے عنوان سے یہاں درج کیا جاتا ہے[
ماہِ رمضان کے تربیتی پہلو
ملک کے اضطراب انگیز حالات، پاکیزہ زندگی کے فوائد و ثمرات، رمضان ماہِ تربیت
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔ اسلامی لٹریچر میں وقیع اضافہ ہے۔