تنقید سے پہلے تحقیق کا مشورہ

ہم یہ جو کچھ لکھتے ہیں اپنے صحافی بھائیوں کے لیے لکھتے ہیں جن میں سے اکثر غلطیوں میں پختہ ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ نہ ہم ماہر لسانیات ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تحقیق سے تعلق ہے۔ ایک بڑے ادیب احمد ہمیش کی دختر نیک اختر انجلا ہمیش نے بھی مشورہ دیا ہے کہ تنقید سے پہلے تحقیق کرلیا کریں۔ لیکن ہم تنقید ہی کہاں کرتے ہیں! ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ انجلا ہمیش نے بھی ہمیں قابل توجہ سمجھا۔ یہ 1978-79ء کی بات ہوگی جب احمد ہمیش اپنے مخصوص حلیے میں اپنے چند دوستوں سے ملنے کے لیے جسارت کے دفتر آتے تھے۔ وہ تو اُس وقت ادب میں اپنا نام بنا چکے تھے اور ہم صحافت کی دنیا میں نوآموز تھے۔ مرحوم کی بٹیا کا خط عبدالمتین منیری، بھٹکل کے توسط سے ملا ہے۔ منیری بڑا کام کررہے ہیں کہ ہر طرح کا تبصرہ ہم تک پہنچادیتے ہیں۔ منیری کے مطابق انجلا ہمیش ہمارے کالم کو پابندی سے فیس بُک پر پوسٹ کرتی آرہی ہیں۔
انجلا ہمیش نے اپنی تحریر کو عنوان دیا ہے ’’تنقید سے پہلے تحقیق‘‘۔ وہ لکھتی ہیں:
’’اطہر ہاشمی صاحب کے کالم بہ عنوان ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘کو میں ہمیشہ بہت سنجیدگی سے پڑھتی ہوں۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ زبان کی تصحیح ہوتی رہنی چاہیے۔
آتشؔ کے مصرعے سے استفادہ کرتے ہوئے اطہر ہاشمی صاحب کام تو خوب کررہے ہیں، مگر کیا ہی اچھا ہوکہ تنقید سے پہلے تحقیق کا کام کرلیا جائے۔
اطہر ہاشمی صاحب کے 23 مارچ کے کالم سے اس بات کا تو اندازہ ہوگیا کہ وہ ’’عورتوں کے اسلامی مہینے‘‘ کے صاحبِ تحریرسے بالکل واقف نہیں ہیں، اگر واقف ہوتے تو ان کا نام درست لکھتے۔ ڈاکٹر اسد اریب (ڈاکٹر اسد ادیب نہیں)۔ اریب اور ادیب میں ’ر‘ اور ’د‘ کا فرق ہے۔ ڈاکٹر اسد اریب اردو، فارسی اور عربی زبان کے عالم ہیں جن سے اہلِ علم اور اہلِ دانش بخوبی واقف ہیں۔
اب تنقیدی متن پر آتے ہیں، تو اطہر ہاشمی صاحب ’’اب املا نہیں بدل گیا ہے‘‘۔ مولوی عبدالحق اور الٰہ آباد سے تعلق رکھنے والے عالم عبدالستار صدیقی جو لسانیات میں سندکا درجہ رکھتے تھے، نے املا کے مسائل پر ’’تنقیدیں‘‘ کے نام سے مضامین تحریر کیے ہیں۔ ان کی سند اور تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر اسد اریب نے اپنے مضمون میں یہ املا برتا ہے۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ اردو زبان میں کون سے الفاظ عربی سے آئے،کون سے الفاظ فارسی سے آئے اور کون سے الفاظ ہندی سے آئے۔
ایک بحث چلی تھی بیسویں صدی کے نصف میں کہ ’’طوطا‘‘ عربی کے ’ط‘ کے بجائے ہندی صوتیے کے ’ت‘ سے شروع کیا جائے، یعنی ’’توتا‘‘۔ فورٹ ولیم کالج کی ’’توتا کہانیوں‘‘ کو جب دیکھا گیا تو اس میں طوطا ہندی صوتیے کے اعتبار سے ’ت‘ سے لکھا گیا تھا، یعنی ’’توتا‘‘۔
جیسے ٹھیکہ، راجہ وغیرہ ہندی کے الفاظ ہیں، لہٰذا اہلِ لسانیات نے ان الفاظ کے لیے یہ اصول برتا کہ ان کے آخر میں عربی کی ’ہ‘ کے بجائے ’ا‘ آئے گا، یعنی ٹھیکہ ہوگیا ’ٹھیکا‘، راجہ ہوگیا ’راجا‘۔
اب آئیے تیرھا تیزی کے’’تیرھا‘‘پہ۔ پہلی بات، یہ جو ہندسے ہیں بارہ، تیرہ، چودہ… یہ ہندی سے اردو میں آئے ہیں۔ دوسری بات، ہندی صوتیا ہے بھا، تھا، ڈھا، دھا۔ ڈاکٹر اسد اریب نے اسی اصول کے تحت کہ چونکہ ہندی زبان کے الفاظ ہیں تیرہ ’’تیرھا‘‘ یعنی پہلا اصول ہندی صوتیا’تھا‘کے تحت تیرکے بعد ’ھ‘‘ برتا، اور دوسرا اصول یہ کہ چونکہ یہ ہندی کے الفاظ ہیں اس لیے آخر میں عربی کی ’ہ‘ کے بجائے ’ا‘ لگایا جائے یعنی تیرھا۔
اطہر ہاشمی صاحب ڈاکٹر اسد اریب سے واقف نہیں ہیں، اگر واقف ہوتے تو یہ بھی جانتے کہ اریب صاحب املا کے مسائل پر کافی مضامین تحریر کرچکے ہیں اور وہ لسانیات کے حوالے سے سندکا درجہ رکھتے ہیں۔
اب آئیے راجا جے پال اور راجا پال کے مسئلے پر۔ تو ہاشمی صاحب یہ زبان کا مسئلہ تو نہیں ہے۔ یہ تو تاریخ کا حوالہ ہے۔ ڈاکٹر اسد اریب نے پورا نام راجا جے پال کے بجائے راجا پال لکھ دیا تو اس میں کیا قباحت ہے! جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ سمجھ جائیں گے کہ اگر راجا پال لکھا گیا ہے تو راجا جے پال کے بارے میں ہی (بارے ہی میں) بات ہورہی ہے۔‘‘
ارے بٹیا، اسد اریب کا نام اسد ادیب ہم نے نہیں کیا۔ کر ہی نہیں سکتے تھے، کیوں کہ ماہنامہ قومی زبان میں ان کا مضمون ہمارے سامنے تھا۔ اریب نام ایسا نامانوس بھی نہیں۔ حیدرآباد دکن کے ایک بڑے شاعر سلمان اریب تھے۔ اَریب اور اُریب (الف پر پیش) کے معانی بھی لغت میں دیکھے تھے۔ لفظ اُریب کا تعلق خاص طور پر خواتین سے ہے یا تھا۔ اُریب دار پاجامہ یعنی آڑا پاجامہ جس کی مہری اتنی تنگ ہوتی ہے کہ پنڈلی سے چپک جاتی ہے۔ اُریب کا مطلب ہے آڑا، ترچھا۔ اریبی کاٹ کی اصطلاح معروف تھی، مگر اب خواتین کیا شاید درزی بھی نہ سمجھیں۔ اسی سے ’اریب کی باتیں‘، ’اریب کی چال‘ یعنی پیچیدہ، فریب کی باتیں کبھی روزمرہ میں شامل تھیں۔ قارئین کی اطلاع کے لیے اَرِیب (’ا‘ پر زبر اور ’ر‘ پر زیر) کا مطلب بتادیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: عقل مند، دانا۔ اخبارات میں احتیاطاً لکھا جاتا ہے کہ نفسِ مضمون یا نقطہ نظر سے مدیر کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح کمپوزر کا تصحیح سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ بہت پہلے کسی نے لکھا تھا کہ اطہر ہاشمی اپنی غلطی کمپوزر کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ چوں کہ پروف ریڈنگ ہم خود کرتے ہیں اس لیے غلطی میں شامل ہیں۔ لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ ہماری تصحیح کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ پچھلے کالم میں ہم نے دو، ایک جگہ تصحیح کی تھی جو قبول نہیں کی گئی۔ مثلاً ہم نے لکھا تھا کہ لوگ نماز کے نون کو بھی زیر کرلیتے ہیں (نِماز)۔ لیکن شائع ہوا ہے ’’زبر کرلیتے ہیں‘‘۔ کچھ قارئین نے پوچھا ہے کہ نَماز کے نون پر زبر لگانے میں کیا غلطی ہے، صحیح تو یہی ہے۔
اردو کے بہت سے الفاظ کا املا یقینا بدل گیا ہے، آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد اریب یقینا بڑے عالم ہیں۔ ان کے علم میں ضرور یہ بات ہوگی کہ ’’اہلِ لسانیات‘‘ نے گیارہ سے لے کر اٹھارہ تک تمام اعداد کا املا بدل دیا ہے اور اب وہی رائج ہے۔ پرانی لغات میں بھی گیارہ، بارہ، تیرہ ہے۔ تیرھا لکھنے سے پہلے کوئی اچھی لغت ہی دیکھ لیتے۔
ہندسوں کا املا طے ہوچکا ہے۔ اریب صاحب یقینا سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ جہاں تک راجا پال کے حوالے سے ہماری بٹیا کا اعتراض ہے کہ یہ زبان کا مسئلہ نہیں، یہ تو تاریخ کا حوالہ ہے۔ لیکن یہ حوالہ ان کے اردو زبان سے متعلق مضمون ’’عورتوں کے اسلامی مہینے‘‘ میں آیا ہے، چنانچہ وضاحت ضروری تھی۔ انجلا ہمیش کی یہ دلیل کہ اسد اریب نے پورا نام راجا جے پال کے بجائے راجا پال لکھ دیا تو جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ سمجھ جائیں گے کہ راجا جے پال کے بارے میں ہی (ہی میں) بات ہورہی ہے) لیکن بی بی! جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پال کے لاحقہ کے ساتھ دو راجے تھے یعنی جے پال اور انند پال، اور دونوں کی محمود غزنوی سے جنگ ہوئی تھی، تو یہ کیسے معلوم ہو کہ بات کس پال کے بارے میں ہے۔ بہرحال، ہمیں خوشی ہے کہ انجلا ہمیش بھی یہ تحریریں پڑھتی ہیں، اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے، مگر یہ گمان دور کرلیں کہ یہ کوئی تحقیقی کام ہے۔