فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے 70برس

فلسطین میں 30 مارچ کو یوم الارض سے جاری رہنے والی خونریزی میں اب تک 34 معصوم نوجوان مقدس وطن پر اپنی پاکیزہ جوانیاں لٹا چکے، اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ یہ مظاہرے 15 مئی تک جاری رہیں گے جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کی 70 ویں سالگرہ یا مُردہ انسانیت کی برسی ہے۔ یوم الارض کیا ہے، اس کا ایک مختصر سا تاریخی پس منظر قارئین کی دلچسپی کے لیے۔
29 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردیے، جس کے بعد برطانیہ نے دو قومی نظریے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا، اور اس تقسیم میں ویسا ہی ’’انصاف‘‘ کیا گیا جس کا مظاہرہ ایک سال پہلے تقسیم ہندوستان کے وقت ہوا تھا۔ یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatum قرار پایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد 5 لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38 ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشنِ آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کیے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عمل درآمد اور اس کے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمے داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ لیکن یہ ذمے داری برطانیہ نے کچھ اس طرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا، اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ مسلح اسرائیلیوں کے حملے میں ہر ہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادکے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948ء تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی، چنانچہ مارچ سے ہی برطانوی فوجیوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کررہے ہیں۔ عربوں کے اس شبہ کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948ء کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی، حالانکہ معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات، کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ اس تصادم میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں ان کے کمانڈر اور مفتیٔ اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیمِ فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا، لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael (ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔
ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھ دیا۔ مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا، وہ بھی اس طرح کہ بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز (Hectares) اراضی چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہوتا ہے، یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948ء کو مکمل ہوا جسے فلسطینی ’’یوم النکبہ‘‘ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی آخری بے دخلی نہیں تھی، ابھی حال ہی میں برمی مسلمان النکبہ کی اذیت سے گزرے ہیں جب 32 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو اُن کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا گیا جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ ان میں سے 18 لاکھ راکھین یا اراکانی مسلمان ذبح کردیے گئے۔ باعفت بچیاں اوباشوں کا نشانہ بنیں اور دس سے بارہ لاکھ اراکانی مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا۔
فلسطینی ہرسال اس ڈکیتی کی یاد میں یوم النکبہ مناتے ہیں۔ فلسطینیوں کے رہنما شیخ احمد یاسین مرحوم نے النکبہ کے بجائے اس دن کو یوم الارض کہنا شروع کیا تھا۔ بلند حوصلہ شیخ صاحب کا خیال تھا کہ یوم النکبہ سے مصیبت اور مسکینی جھلکتی ہے، جبکہ یوم الارض اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لینے کے عزم کا اظہار ہے۔ اس بے دخلی کا آغاز 30 مارچ 1948ء کو ہوا تھا اور یہ آپریشن 15 مئی کو مکمل ہوا، چنانچہ فلسطینی اپنے پورے خاندان کے ساتھ چھے ہفتوں تک غزہ کے باہر خیمہ زن ہوجاتے ہیں اور زمین پر زیتون کے درخت لگاکر اپنی سرزمین سے پیار ومحبت کا اظہار کرتے ہیں۔ زیتون وادیٔ مقدس کی علامت بھی ہے اور امن وسلامتی کا نشان بھی۔ یعنی جہاں شدید آزمائش اور دورِ ابتلا میں یہ نہتے لیکن پُرعزم فلسطینی حریت و آزادی کے لیے اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہیں وہیں انبیا علیہم السلام کی اس مقدس سرزمین پر امن و آشتی اور یہاں کے باسیوں کے لیے خوشی و خوشحالی ان کے قومی بیانیے کا لازمی جزو ہے۔
اِس بار یوم الارض اُس وقت آیا ہے جب فلسطینی بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے پر سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اُس دن کے بعد سے ہر جمعہ کو سارے فلسطین میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ اتفاق سے یوم الارض یعنی 30 مارچ اِس بار جمعہ کو آیا تھا جس کی وجہ سے غیر معمولی جوش وخروش دیکھا گیا۔ اس دن 30 ہزار فلسطینی غزہ سے اسرائیلی چوکیوں کی طرف نکل آئے اور خاردار تاروں کے کنارے خیموں کی بستیاں آباد کردیں۔ یہ لوگ عورتوں اور بچوں کے ساتھ خیمہ زن ہوگئے۔ ان کا عزم ہے کہ وہ 15 مئی تک ان خیموں میں رہیں گے۔ رائٹرز کے مطابق سارے فلسطینی غیر مسلح ہیں اور ان کے بچے کیمپ کے باہر فٹ بال کھیل رہے تھے۔ اس دوران فلسطینی نوجوانوں نے وطن کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ جواب میں اسرائیلی فوج ٹوٹ پڑی اور ان کی وحشیانہ فائرنگ سے 17 نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ فوج نے براہِ راست گولی چلانے کے ساتھ ربڑ چڑھے فولاد کے چھروں سے فائرنگ کی، جس سے 2000 افراد زخمی ہوگئے۔ مجروح ہونے والوں میں اکثریت اُن بچوں کی ہے جو فٹ بال کھیل رہے تھے۔ جمعہ کی صبح فلسطینیوں کو باڑھ کی جانب جانے سے روکنے کے لیے اسرائیلی فوج نے توپ کے گولے بھی پھینکے جس سے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ زخمیوں اور لاشوں کو دیکھ کر ریڈکراس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے سروں اور سینوں کے علاوہ گھٹنے اور کمر کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو قتل کرنے کے ساتھ بچ جانے والوں کو تاعمر معذور بنادینا چاہتی ہے۔
ریڈکراس کے اس دعوے کا کوئی ثبوت تو نہیں مل سکا لیکن چند ماہ پہلے جب ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیل آئے تھے تو اُن کے مشیرِ سلامتی اجیت کمار دوال بھی اُن کے ساتھ تھے جنھوں نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے انسداد ’’دہشت گردی‘‘ پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔ شری دوال نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے اس کے ہزاروں نوجوان کارکنوں کو اپاہج کیا ہے۔ دوال جی کا کہنا ہے کہ موت سے تحریک کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور جنازوں کے اجتماعات میں وارثوں کی تقاریر سے دوسرے نوجوانوں کے سینے آگ سے بھر جاتے ہیں، لیکن گھر میں معذور نوجوان کی موجودگی سارے گھر کو مفلوج کردیتی ہے۔ یہی ’حکمت عملی‘ کشمیر میں استعمال ہورہی ہے۔ دنیا کے سارے جبّار ایک ہی انداز میں سوچتے ہیں اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ درندگی دوال نے اسرائیلیوں کو سکھائی ہے یا اسرائیل نے ہندوستان کو؟ برما میں بھی نوجوانوں کو ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے پر مجبور کیا گیا، جس کے بعد ان کے گھٹنوں پر سے گاڑیاں گزار دی گئیں۔ سب سے دلدوز منظر تو وہ ہے جس میں سات اور آٹھ سال کے بچوں کے گھٹنوں پر آہنی بوٹ والے لحیم شحیم فوجی کودتے نظر آرہے ہیں۔
ستم ظریفی کہ جب غزہ میں فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اُس وقت سعودی عرب کے بانکے ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ میں تھے۔ روشن خیالی کے اظہار کے لیے انھوں نے روایتی لباس ’ثوب‘ کو ترک کردیا ہے اور وہ ٹائی اور کوٹ میں ملبوس رہتے ہیں۔ اُن سے جب کسی صحافی نے یوم الارض کے موقع پر فلسطین میں خونریزی کا ذکر کیا تو انھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جہاں اسرائیل سے ’’تحمل‘‘ کی درخواست کی، وہیں حماس اور اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اخوان بظاہر جمہوری راستے سے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کی خواہاں ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ خلافت قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دلچسپ بات کہ جس وقت شہزادہ گلفام واشنگٹن میں صحافیوں کے سامنے یہ بقراطی فرما رہے تھے، اُس وقت اُن کے والدِ بزرگوار شاہ سلمان بن عبدالعزیز صدر ٹرمپ سے فون پر محوِ گفتگو تھے اور سرکاری اعلامیے کے مطابق سعودی فرماں روا نے اسرائیلی مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ سے تل ابیب پر دبائو ڈالنے کو کہا۔ بعد میں سعودی عرب کے سرکاری میڈیا پر شاہ سلمان کی جانب سے فلسطینیوں کی مکمل حمایت کی خبر شائع ہوئی۔
دو دن بعد امریکہ اور برطانیہ نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو غیر مؤثر کردیا، جس میں غزہ کے حالیہ قتلِ عام کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی اس تجویز میں اسرائیل کا نام بھی نہیں لیا گیا، لیکن امریکہ نے یہ کہہ کر مسودے کو مسترد کردیا کہ ’’ناپسندیدہ عناصر اس احتجاج کو تشدد پھیلانے کے لیے استعمال کررہے ہیں جس سے معصوم جانوں کو شدید خطرہ ہے‘‘۔ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ایل او کی رہنما محترمہ حنان اشروی نے کہا کہ سلامتی کونسل میں تحقیقات کی تجویز کو مسترد کرکے امریکہ اور برطانیہ نے اس قتلِ عام میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے بہیمانہ تشدد، عرب اورمسلمان ملکوں کی بے وفائی، اور عالمی اداروں کی خاموشی سے فلسطینیوں کے حوصلے پست ہوتے نظر نہیں آرہے۔ پُرامن جدوجہد کے باب میں ان کی مستقل مزاجی ضرب المثل ہے۔ آج سے 82 برس پہلے 1936 میں انھوں نے برطانوی راج کے خلاف 6 مہینہ طویل ہڑتال کی تھی جو دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔ 1987ء سے1993ء تک حماس نے انتفاضہ المبارکہ (مقدس مزاحمت) کے عنوان سے بھرپور لیکن پُرامن مہم چلائی۔گولی اور گولوں کے مقابلے پر نوجوان فلسطینی پتھر اور غلیل لے کر میدان میں اترے۔ اس چھے سالہ تحریک کے دوران 1100 فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے جن میں ڈھائی سو کمسن بچے تھے۔ اسرائیلی فوج کے علاوہ فلسطینیوں کی زمین ہتھیانے والے صہیونی قبضہ مافیا نے بھی گولی چلائی جس کے نتیجے میں 54 فلسطینی مارے گئے۔ مزاحمت روکنے کے لیے اسرائیل نے اجتماعی سزا کا نظام قائم کیا، یعنی جس محلے سے جلوس نکلا وہاں کے تمام پختہ مکانات مسمار کردیے گئے، چنانچہ دو ہزار سے زیادہ مکانات کو منہدم کیا گیا۔ وزیراعظم اسحق رابن نے پولیس کو باقاعدہ تحریری حکم دیا کہ مظاہروں میں ملوث نوجوانوں کی ہڈیاں توڑ دی جائیں۔ اور پولیس نے پکڑے جانے والے بچوں کو سرِعام لٹاکر اُن کے گھٹنوں، کہنیوں اور ریڑھ کی ہڈی پر ہتھوڑوں یاSledge Hammer سے ضرب لگائی۔ تاہم انھی رابن صاحب کو 1994ء میں نوبیل امن انعام دیا گیا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، بچوں کو معذور کرنے کی حکمت عملی آج بھی جاری ہے۔
365 مربع کلومیٹر پر مشتمل غزہ دس سال سے مکمل ناکہ بندی کا شکار ہے۔ یہاں بجلی اور پانی بند ہے، گیس پہلے بھی نہیں تھی۔ غذائی سامان کے ٹرک ہفتے میں ایک دن مصر کی جانب سے رفح گیٹ کے راستے آتے ہیں جس سے فلسطینیوں کا گزارا ہورہا ہے۔ گویا یہاں آباد 20 لاکھ نفوس شعب ابی طالب کی آزمائش جھیل رہے ہیں۔ مایوس کن حالات کے باوجود فلسطینی اپنی آزادی پر کسی قسم کی سودے بازی کے لیے تیار نہیں۔ 30 مارچ سے روزانہ لاشیں اٹھانے کے باوجود ہزاروں فلسطینی خیمہ زن ہیں۔ یہ نعرہ زن بھی ہیں اور آزادی کے لیے پُرعزم بھی۔ گزشتہ روز منار ٹیلی ویژن پر ایک 13 سالہ فلسطینی بچی نے کہا ’’دنیا کے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں رہتے ہیں اور ہمارا فلسطین ہمارے دلوں میں آباد ہے۔ میرے آبا و اجداد کو اسرائیلیوں نے ان کے گھروں سے نکال دیا، لیکن میرے وطن کو کوئی بھی میرے دل سے نہیں نکال سکتا۔‘‘