عمارالساعدی، جماعۃ الاسلامیہ یوتھ شام کے صدر ہیں، تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر ہیں، گزشتہ دنوں مینارِ پاکستان کے زیر سایہ منعقدہ ’’جے آئی یوتھ کنونشن‘‘ میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر لاہور آئے۔ یہاں انہوں نے کنونشن سے خطاب میں اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔ شام کی صورتِ حال اور جے آئی یوتھ شام، کی سرگرمیوں کے بارے میں ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے…!!!
………٭٭٭………
فرائیڈ ے اسپیشل: شام ایک طویل عرصے سے آگ اور خون میں نہایا ہوا ہے اور آئے دن ظلم و ستم کی نئی نئی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ آپ شام کے اس بحران سے متعلق کیا کہیں گے؟
عمار الساعدی: شام میں بحران کا بنیادی سبب بشارالاسد اور اُس کے باپ کے زمانے سے جاری ظلم و ستم ہے۔ یہ مظالم اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی میں گزشتہ سات برس میں ناقابلِ بیان حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اس تباہی کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں، مختلف عالمی ماہرین کے اندازے کے مطابق شام میں روا رکھے گئے مظالم کے باعث ہونے والی تباہی اس قدر وسیع اور زیادہ ہے کہ شام میں تعمیرِنو کے مرحلے کے لیے اس سے زیادہ وسائل درکار ہوں گے جتنے عالمی طاقتوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد خرچ کیے تھے۔ صرف کام کے آغاز ہی کے لیے تین کھرب ڈالر سے زیادہ رقم درکار ہوگی۔
فرائیڈ ے اسپیشل: شام کے اس بحران سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
عمار الساعدی: جس قدر قتل و غارت گری شام میں کی جا چکی ہے اس کے بعد کوئی بھی ایسا حل شام کے عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں، جس میں بشارالاسد کا اقتدار باقی رہے، مگر بدقسمتی سے مختلف عالمی اور علاقائی قوتیں فساد اور بحران کی اصل جڑ بشارالاسد کو باقی رکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے تجویز کردہ حل میں یہ راہ دکھائی جارہی ہے کہ شام میں بشارالاسد کی مرضی کے مطابق دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ان انتخابات میں بشار ہمیشہ کی طرح 99 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر قابض رہے گا اور ظلم و جبر کے موجودہ دور کو مزید شدت سے جاری رکھے گا۔
فرائیڈ ے اسپیشل: اس گمبھیر صورتِ حال میں آپ امتِ مسلمہ کے کردار کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
عمار الساعدی: شام ہی نہیں، عالم اسلام کے تمام مسائل کا حقیقی حل امتِ مسلمہ کی وحدت اور یک جہتی میں ہے۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ بشارالاسد کا اقتدار اور اُس کے مظالم محض اس وجہ سے جاری ہیں کہ کئی علاقائی مسلم طاقتیں بشار کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اگر یہ علاقائی تعاون دستیاب نہ ہوتا تو بشار شام کے پُرامن عوام کے احتجاج کے سامنے چند روز بھی ٹھیر نہیں سکتا تھا۔ امتِ مسلمہ اگر آج یک آواز ہوکر ظلم کو مسترد کردے اور شام میں ایک متفقہ پالیسی مسلم دنیا کی طرف سے اختیار کی جائے تو یہ بحران بہت آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ اصل بدقسمتی تو یہی ہے کہ آج مسلم امہ نام کی کوئی چیز کہیں موجود نہیں، اور کفر کی عالمی طاقتیں اپنی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی دیرینہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عالم اسلام میں اپنے مکروہ ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
فرائیڈ ے اسپیشل: امت کے اس انتشار کا انجام آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
عمار الساعدی: حالات یقینا بہت تکلیف دہ اور مایوس کن ہیں، مگر ہمیں ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، خاص طور پر ایک مسلمان جب یہ دیکھتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان بھائی اس کے دکھ کو اپنے ذاتی دکھ کی طرح محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جمع دیکھا اور ان کے جذبات کو خود دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا، اس سے پہلے بھی پاکستان خصوصاً کراچی میں اپنے مسلمان شامی بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور حلب اور غوطہ الشرقیہ میں روا رکھے گئے غیر انسانی مظالم کی مذمت میں جو ملین مارچ کیے گئے اُن سے ہمارے ایمانی جذبات کو تقویت ملتی ہے کہ الحمدللہ امت میں بہت خیر ابھی باقی ہے اور اِن شاء اللہ انہی ایمانی جذبات و احساسات اور حتی المقدور اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے نتیجے میں رب ذوالجلال کی طرف سے پوری امت پر رحمت کی نظر ہوگی، اور ہمیں کامل یقین ہے کہ ظلم کی رات جس قدر بھی طویل ہو، انصاف کی سحر کو بالآخر، بہرصورت طلوع ہونا ہے۔
فرائیڈ ے اسپیشل: موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں جے آئی یوتھ شام آپ کی قیادت میں اپنی سرگرمیاں کس طرح سے جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کی نوعیت زیادہ تر کیا ہے؟
عمار الساعدی: ہماری سرگرمیوں کا محور زیادہ تر ریلیف اور تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے۔ ہم بشار کی افواج سے آزاد علاقوں میں مہاجرین کے لیے خوراک اور تعلیم کی فراہمی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ترکی میں اس وقت 35 لاکھ کے قریب شامی مہاجرین غریب الوطنی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہم مسلسل اُن کی بنیادی ضروریات کی خبر گیری کرتے ہیں اور مختلف تنظیموں سے روابط کے ذریعے اپنے ان بھائیوں کے دکھوں اور مشکلات میں حتی المقدور کمی کی سعی کرتے ہیں۔ ہماری خصوصاً یہ کوشش ہوتی ہے کہ کیمپوں میں مقیم بچوں اور نوجوانوں کے تعلیمی تسلسل کو منقطع نہ ہونے دیں اور ہر ممکن طریقے سے اُن کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں۔
فرائیڈ ے اسپیشل: پاکستان میں آپ نے نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں اور خاص طور پر مینارِ پاکستان کے زیر سایہ جماعت اسلامی کے یوتھ کنونشن میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ آپ کے جذبات و تاثرات کیا ہیں…؟
عمار الساعدی: میں نے یہاں ہر لمحہ خود کو اپنے بھائیوں کے درمیان محسوس کیا… کسی بھی لمحے مجھے کسی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا… جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں اپنے قیام، جے آئی یوتھ اور اسلامی جمعیت طلبہ کے قائدین سے ملاقاتوں اور مینارِ پاکستان پر یوتھ کنونشن میں شریک ہوکر میں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے نوجوان امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں ان کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کی دلی تمنا اور تڑپ پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے نوجوان دین کے شیدائی ہیں اور اسلام کے عملی نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ میری دعا ہے کہ پاکستان امت ِمسلمہ کے مسائل کے حل اور اتحاد و یک جہتی میں مؤثر و فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔