یقین محکم۔ عمل پیہم، محبت فاتِح عالم

پروفیسر رشید احمد انگوری
ایک مردِ دانا و اقبال شناس کی خدمت میں چند لمحات کے لیے حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ وہ تاکید فرما رہے تھے کہ آج پاکستانی قوم بحیثیتِ مجموعی بے یقینی اور غلامی کا شکار دکھائی دیتی ہے، اور ایسے میں علامہ اقبالؒ کے اشعار و افکار کی روشنی میں اس کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اسی دوران افواجِ پاکستان کے شعبۂ اطلاعات کی جانب سے 78 واں یوم پاکستان بحوالہ قراردادِ پاکستان منانے کا اعلان نظر سے گزرا۔ اﷲ کا نام لے کر ’’آسان کلیاتِ اقبال‘‘ (از الفیصل کمپنی) کی ورق گردانی شروع کردی۔ اچانک خیال آیا کہ علامہ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں اشتراکیت کے پس منظر اور کارل مارکس کے بارے میں جو شہرۂ آفاق مصرع لکھا کہ
نیست پیغمبر ولے دارد کتاب
(یعنی پیغمبر تو نہ تھا مگر صاحبِ کتاب ضرور تھا) تو ایسے لگا کہ امتِ مسلمہ کے ایک بے مثل قائد و رہبر کے طور پر علامہ خود بھی اس مصرع کا مصداق قرار پاتے ہیں کہ جس طرح رومیؒ اپنی مثوی ہاتھ میں اٹھائے صدیوں سے امت کی رہبری فرما رہے ہیں اسی طرح اقبال اپنی شاعری کی کتاب ہاتھ میں پکڑے اپنے دَور سے لے کر آنے والی صدیوں کے لیے اپنے پیارے رسولؐ کی امت کی رہبری و قیادت فرما رہے ہیں۔ خصوصاً نوجوانانِ ملت کو
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تُو نے
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
جیسے حیات آفریں نغمے سنارہے ہیں۔
علامہ کے بقول چونکہ ان کے کلام کا اصل سرچشمہ عرشِ الٰہی سے نازل ہونے والا کلام قرآن مجید ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان طلبِ ہدایت و راہ نمائی کے لیے کلام و فرمانِ اقبال کی جانب رجوع کرے اور خالی ہاتھ واپس آجائے۔ اقبال نے بجا طور پر ارشاد فرمایا کہ
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اﷲ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
مگر راقم جیسے عاجز، یکے از طالبانِ فیوضِ اقبال، نے تو کلام ِاقبال کے ’’بحر اقبالیات‘‘ میں ہی چھوٹی موٹی غوطہ خوری کی تو ایسا لگا کہ کتنے ہی اقبالی جواہر و موتی ہاتھ میں آگئے۔ آیئے آپ خود اقبال کے اشعار سے لطف اندوز بھی ہوں اور اس کے مطالب و معانی اخذ کرنے کی ایمانی و روحانی ’’اقبالی مشق‘‘ بھی کریں۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہ شعر پوری زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سہ نکاتی حکمت عملی اقبالی ضمانت یا گارنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان و یقین کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ اپنے ایمانی عقائد پر پختہ یقین کہ کامیابی کا راستہ ’’توحید، رسالت، آخرت‘‘ کے سائے میں طے ہوتا ہے، یعنی کائنات اﷲ وحدہٗ لاشریک کی ملکیت ہے، ہم اُس کی دی ہوئی نعمتوں کو اُس کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق کام میں لائیں۔ کبھی اُس کی یاد اور اطاعت سے غافل نہ ہوں۔ حضور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و محبت عظیم ترین اور عزیز ترین سرمایۂ حیات ہے، اور اﷲ کی مخلوق سے حسبِ مقام و مرتبہ محبت اور خیر خواہی کا طریقہ اپنائیں اور عفو و درگزر سے کام لینے میں مسرت و سکون محسوس کریں۔ یہ پورا فلسفۂ حیات قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ جہدِ مسلسل سے زندگی کو حسن و کمال ملتا اور کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔
…………
یقین افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے
پہلے شعر کے معانی کو پوری ملت کی کامیابیوں کا طریقہ قرار دیتا ہے۔ افراد کا یقین اُن اینٹوں کی مانند ہے جن کے باہم جڑنے سے ملت کی خوب صورت اور عظیم الشان عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ یہی صورتِ حال تو قوم کی تقدیر سنوارنے کا راستہ ہے۔ جس طرح افراد ملت کو وحدت بخشتے ہیں اسی طرح ان کا پختہ اور سچا یقین ملت کی تقدیر سنوار دیتا ہے۔
…………
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
علامہ کے کلام کا قابلِ ذکر حصہ ’’ظریفانہ‘‘ کے عنوان کے تحت آتا ہے جہاں انتہائی اہم موضوعات کو سادہ ترین اور ہلکے پھلکے الفاظ میں پیش کردیا گیا ہے، جس کی بہترین مثال یہ شعر ہے کہ جس طرح ایک گندہ انڈا گھر میں نہیں رکھا جاتا اور باہر پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح تہذیب کے میدان میں اسلام کی ارفع و اعلیٰ تہذیب کے مقابلے میں فرنگی اور مغرب کی گھٹیا اور اصلاً ناپاک تہذیب کا مقام یہ ہے کہ اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیاجائے، چہ جائے کہ اسے اختیار کیا جائے۔
…………
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
علامہ کا یہ شعر زبان زدِ عام ہے اور علامہ کے پختہ یقین کی نمائندگی کرتا ہے کہ جس نوجوان نسل کے ذہنی و فکری آباو اجداد نے تاریخ کے صفحات پر اپنی عظمتوں کے لازوال نقوش ثبت کیے ہیں اور ان کی رگوں میں ان اہلِ ایمان کا خون رواں دواں ہے، اور جس امت کو انسانیت کی راہ نمائی کے لیے اٹھایا گیا ہے، تو اگرچہ اسے فریب خوردہ شاہین بناکر غلامی کی ذلتوں تک پہنچا دیا گیا ہے، مگر حضرتِ علامہ کو اپنی ایمان افروز جدوجہد اور اپنی ایمانی و روحانی صدائوں کی سچائی پر اس قدر پختہ یقین ہے کہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ امت کی اس بظاہر ویران و برباد کھیتی سے ہرگز مایوس نہیں ہیں، اور وہ اپنے محبت بھرے نغموں کی فضائوں میں اپنے افکار کی برکت سے لہلہاتے ہوئے پھول اپنی نگاہِ بصیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ علامہ کا پُرمغز اور بصیرت افروز کلام امت کی ویران کھیتی کے لیے طاقت ور پانی کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ قرآن کے فرمان کا مفہوم ہے کہ مُردہ کھیتیوں کو زندہ کرنا تو اﷲ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے۔
…………
لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مے ’’لا‘‘ سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ ’’الا‘‘
اس شعر کا مطلب ہے کہ جدید مغربی تہذیب اپنی اصل کے لحاظ سے مادہ پرستی اور اﷲ کے انکار پر مبنی ہے، اور اس کے لیڈروں اور دعوے داروں کا دامن اﷲ پر ایمان سے بالکل خالی ہے۔ یہ مادہ پرستی اور دنیاوی اغراض کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ مسلمان کے پس اسے ٹھکرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
…………
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
اس شعر میں علامہ اقبال غلام کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ وہ تو غلامی کی لعنت میں مبتلا ہوتا اور انسانی شرف و احترام سے بالکل محروم ہوتا ہے، وہ گراوٹ کے اس مقام پر ہوتا ہے کہ اسے خوب صورتی اور زیب و زینت کا کچھ پتا ہی نہیں ہوتا، غلام اندر باہر سے بدصورت اور انسانیت کے معیار سے گرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ صرف آزاد انسان کا کام ہے کہ وہ رائے یا فیصلہ دے سکتا ہے کہ کون سی چیز کس حد تک موزوں یا خوب صورت اور پسندیدہ ہے۔ خوب صورتی اور زینت و زیبائش کا شعور صرف آزاد انسانوں کو نصیب ہوتا ہے، غلام کے تصور سے یہ دور کی بات ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلامی سے نکلنا ہی صحیح راستہ ہے خواہ اس کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑے۔ اصل ہدف مغرب پرستی اور مغربیت سے آزادی حاصل کرنے کا سبق ہے۔
…………
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری
اس شعر میں دورِ جدید کی مادہ پرستانہ تہذیب و ثقافت سے بیزاری کا درس دینے کے لیے اُس کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ مغربی تہذیب کے پھندے میں گرفتار ہوکر آزادی کا جو جھوٹا اور باطل تصور زبان پر آتا ہے وہ اصل میں انسان کو اپنے عقیدے، اپنے دین، اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنے اسلاف کی محبت سے دور کرکے ایک کھوکھلی تہذیب کا دلدادہ بنادیتا ہے، اور اقبال جیسا نباضِ فطرت اور تہذیبوں کا شناسا اپنی ملت کو غلامی کی لعنت سے آزادی دلانے کی جدوجہد کرتا ہے۔
…………
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک
موجودہ بے خدا تہذیب کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ اس کا کُل اثاثہ اس دعوے پر مبنی ہے کہ ہمارے پاس اتنی معلومات کا خزانہ ہے جس سے ہمارے دماغ روشن ہیں۔ جب کہ دلوں کی دنیا تاریک ہے، جذبوں سے خالی اور سوز و محبت سے محروم ہے۔ اسی طرح آنکھ میں نہ شرم ہے نہ حیا، بلکہ ہر جانب بے شرمی اور بے حیائی کا راج ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عریانی میں ڈوبی تہذیب ہے۔ مسلمان کی تو زندگی خوفِ خدا سے معمور دل و دماغ، اور شرم و حیا کی پیکر نگاہوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی کے نتیجے میں انسانی زندگی عاجزی و دردمندی کا مظہر ہوتی ہے۔ اور علم تو سکھاتا ہی خوفِ خدا کا سبق ہے۔ سورۂ فاطر میں ارشاد ہوتا ہے ’’اﷲ سے تو علم والے ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
…………
نئی تہذیب تکلّف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا، حاجتِ گلگونہ فروش
اس شعر میں مغربی تہذیب کا ایک اور زاویے سے تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ محض ظاہرداری، بناوٹ، تصنع اور ظاہری رکھ رکھائو پر مبنی اور اصلاً کھوکھلی تہذیب ہے، جسے بناوٹی ذرائع سے خوب صورت دکھانے کی چالیں چلی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو چیز اصل میں خوب صورت ہے وہ بناوٹی طریقے سے خوب صورت دکھائی دینے کی محتاج نہیں۔ اسی کو عام الفاظ میں یوں بیان کیا جاتا ہے: ’’نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی‘‘۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ’’سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے… کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے‘‘۔
…………
یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں، اﷲ مستی، خود گزینی
سُن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
’’بالِ جبریل‘‘ کی اہم رباعی میں علامہ پختہ یقین (ایمان) کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امامِ انسانیت، ابوالانبیا، ملّتِ ابراہیمی کے قائد حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جب اﷲ کریم کی ذات و صفات پر پختہ یقین نصیب ہوتا ہے تو پھر ’’بے خطر کود پڑا، آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، تب انسان اپنی اور اپنے رب کی حقیقت و مقام سے آگاہ ہوتا ہے، خودی کا ادراک اسے اپنے رب کا فرماں بردار ایسا بندہ بنادیتا ہے جو اپنے مالک کے حکم کی تعمیل میں آگ میں داخل ہوتا ہے تو اسے گلزار بنادیا جاتا ہے۔ علامہ یقین کی نعمت سے محروم جدید مغربی مادی تہذیب کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حقیقت کو سمجھ لو کہ غلامی اگرچہ بہت بڑی لعنت ہے مگر یقین سے محروم ہوکر بے یقین بن جانا غلامی سے بھی زیادہ بری اور بدتر حقیقت ہے۔ لطف کی بات ہے کہ یہ رباعی ہمارے موضوع اور عنوان کی زبردست وضاحت کرتی ہے۔ یقین اور آزادی کی نعمت کا احساس دلاتے ہوئے غلامی اور بے یقینی سے آزادی حاصل کرنے کی راہ دکھاتی ہے اور اس پر ہمیں علامہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
…………
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غربت
کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے
مغربی تہذیب کی حقیقت مادہ پرستی اور حرص و ہوس کی بندگی ہے۔ ان کی ذہنیت تاجرانہ یعنی خالصتاً مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ ان میں کوئی فکری وحدت اور یگانگت یا مرکزیت پیدا کرنے والا عنصر نہیں ہے، یعنی لامرکزیت کی صورت ہے۔ جب کہ اسلامی تہذیب کا مرکز و محور کعبہ المکرمہ ہے کہ ہر مسلمان صبح اٹھتے ہی حرم کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ دن میں پانچ وقت کی ادائیگیِ نماز کا آخری مرحلہ بھی یہی ہے کہ قبلہ رخ ہوکر عشاء کی نماز ادا کرے۔ اسلامی تہذیب جس عقیدۂ توحید پر قائم ہے اس کا ظاہری ثبوت مرکزیتِ قبلہ ہے۔
(جاری ہے)