پارلیمنٹ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے جارہی ہے اور نگران حکومت کی آمد آمد ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نگران وزیراعظم کے نام کی فہرست وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دینے والے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے لیے عبدالرزاق دائود، ڈاکٹر عشرت حسین، جسٹس(ر) تصدق جیلانی، حفیظ پاشا اور ڈاکٹر شمشاد اختر سامنے آئے ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے ابھی کوئی نام نہیں دیا گیا۔ آئین کے تابع رہ کر نگران وزیراعظم کے لیے پارلیمانی قاعدہ تو یہی ہے کہ باہمی مشورے سے قائد حزبِ اختلاف اور وزیراعظم نگران وزیراعظم مقرر کریں گے، اگر کسی وجہ سے دونوں میں اتفاقِ رائے نہ ہو تو معاملہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں بھجوا دیا جائے گا، وہاں بھی فیصلہ نہ ہوا تو کمیٹی چار متفقہ نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دے گی۔ نگران وزیراعظم کی تقرری کا حتمی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
آئین کی اٹھارہویں ترمیم میں یہی طریق کار بتایا گیا ہے۔ ملک کے اگلے عام انتخابات جس سیاسی ماحول، تپش اور انتہائی پیچیدہ سیاسی صورتِ حال میں ہونے جارہے ہیں اس میں نگران وزیراعظم کا تقرر اور الیکشن کمیشن کا کردار نہایت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ بات بجا طور پر سمجھی جارہی ہے کہ ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات بہت ہی جذباتی اور تلخ ماحول میں ہوں گے۔ نگران حکومت اور عبوری وزیراعظم کو فیصلہ کرتے وقت ملک میں آزاد، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے۔ نگران حکومت کے لیے سب سے پہلا امتحان بجٹ ہوگا۔ نئے مالی سال کے لیے آمدن اور اخراجات کے لیے اسے اختیارات درکار ہوں گے۔ حکومت چاہتی ہے کہ نگران عبوری سیٹ اپ سے پہلے پارلیمنٹ میں بجٹ منظور ہو، لیکن اپوزیشن کی کسی جماعت نے ابھی تک اُسے تعاون کی یقین دہانی نہیں کرائی۔ غالب امکان ہے کہ بجٹ میں اپوزیشن کی تجاویز شامل کرنے سے یہ مرحلہ بھی جیسے تیسے طے ہو ہی جائے گا۔
حکومت کے لیے اسمبلی میں بجٹ پیش کرنا کوئی مشکل امر نہیں، اصل مرحلہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہے، اور یہی مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ اس امتحان میں سرخرو ہونے کی صورت میں ہی مسلم لیگ(ن) عوام میں جاسکے گی۔ اگر حکومت قومی اسمبلی میں بجٹ منظور نہ کرا س کی تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ آئین کہتا ہے کہ اسمبلی اپنی مدت مکمل کرکے برخاست ہو تو 60 روز کے اندر اندر ملک میں عام انتخابات کا ہونا لازمی ہے، اگر مدت مکمل ہونے سے پہلے اسمبلی توڑ دی جائے تو انتخابات 90 روز میں کرائے جائیں گے۔ بجٹ کے موقع پر ہی فیصلہ ہوجائے گا کہ ملک میں عام انتخابات آئینی لحاظ سے کب ہوں گے، لیکن ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے ایک یہی مشکل نہیں، بلکہ ’’عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لیے نہ جانے کتنے دریا عبور کرنا ہوں گے، ابھی سے کہا جارہا ہے کہ انتخابات مقررہ مدت میں نہیں ہوں گے۔ ان میں دو تین ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے۔
نگران حکومت کے لیے دوسرا بڑا مرحلہ امن و امان سے متعلق ہے۔ عدالتی پیشیوں کے تپتے ہوئے صحرا میں اس کے جلتے ہوئے پائوں کے نشانات مستقبل میں مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے کسی سخت ردعمل کی اطلاع دے رہے ہیں، جب کہ ہلکا پھلکا ردعمل آنا شروع بھی ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف آئین کے آرٹیکل62/1/f کے تحت عوامی نمائندگی کے کسی بھی عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیے جاچکے ہیں۔ کسی بھی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے ان کی تاحیات نااہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ گہرے سیاسی اثرات رکھتا ہے۔ انتخابات میں کاغذاتِ نامزدگی چیلنج ہوجانے کی صورت میں سیاست دان اس فیصلے کی زد میں آئیں گے اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ آئینی لحاظ سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یہ معاملہ اب پارلیمنٹ بھی کسی آئینی ترمیم کے ذریعے حل نہیں کرسکتی، یہ معاملہ اب صرف سپریم کورٹ ہی حل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو پہلے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے ذریعے کیے جانے والے فیصلوں پر اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کرنا ہوگی اور اسے مؤثر بہ ماضی نافذ کرنا ہوگا، تب کہیں جاکر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاسکی گی۔ اس وقت ملک میں کوئی قانون موجود نہیں کہ متاثرہ فریق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں فیصلے کے خلاف اپیل کرسکے۔ آئین کے آرٹیکل62/1/f کے تحت عوامی نمائندگی کے کسی بھی عہدے کے لیے تاحیات نااہلی کے اس فیصلے کے نتیجے میں ملک میں ایک بڑا سیاسی بحران جنم لے چکا ہے۔ عدلیہ کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ فیصلہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آئین میں ایسی کسی قانون سازی کے نہ ہونے پر افسوس کا اظہار تو کیا لیکن تشریح کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کا فیصلہ دے دیا۔ اسی طرح کے مقدمات میں عدلیہ پہلے یہ مدت زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک نااہلی قرار دے چکی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کیس اس کی مثال ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اور اسے سمجھنے کے لیے ماضی کے متعدد مقدمات میں عدلیہ کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو عدالتی نظیروں میں فرق نظر آتا ہے۔ قاری کی رہنمائی کے لیے اس مقدمہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال، مسٹر جسٹس اعجازالاحسن اور مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62/1/f کی تشریح سے متعلق متعدد درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے 14فروری 2018ء کو ان درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اس کیس میں نوازشریف فریق نہیں تھے، انہیں نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا تاہم انہوں نے اس کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے دستخطوں سے عدالت میں جواب داخل کیا تھا جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس کیس میں فریق نہیں ہیں اور نہ ہی فریق بننا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی تھی کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم اس بینچ میں دو ایسے جج جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن بھی شامل ہیں جنہوں نے انہیں پاناما کیس میں نااہل قرار دیا تھا۔ نوازشریف نے عدالت میں اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ وہ اگر اس کیس میں فریق ہوتے تو ان دونوں ججوں کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کرتے، کیوں کہ وہ پہلے ہی نااہلی کیس میں اپنا نقطہ نظر دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اب قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62/1/f کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ متعدد مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق ایسے آئینی آرٹیکلز جن میں نااہلی کی میعاد کا تعین نہیں ہے، سے مراد مستقل نااہلی ہے۔ اس کیس میں ایک اہم بات جسٹس شیخ عظمت سعید کا اضافی نوٹ ہے جس میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل62(1) اسلامی اقدار سے لیا گیا ہے، جبکہ بینچ کے دیگر ارکان کے فیصلے میں یہ آبزرویشن موجود نہیں ہے۔ اگر بینچ کے دیگر ارکان بھی مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرلیتے تو پھر اس آرٹیکل میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کے لیے ناممکن ہوجاتا، کیوں کہ سپریم کورٹ اسلامی احکامات کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرچکی ہے۔ اس بابت متعدد فیصلے موجود ہیں جن کے تحت آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ اس سے قبل یہ بحث بھی قانونی حلقوں اور میڈیا پر زیربحث رہی ہے کہ کیا آئین کی دفعات 62 اور63 بنیادی دستوری ڈھانچے کا حصہ ہیں؟ ملکی عدالتی تاریخ میں1997ء میں پہلی مرتبہ محمود خان اچکزئی کیس میں سپریم کورٹ نے بنیادی آئینی ڈھانچے کے تصور کو قبول کیا۔اس سے قبل بنیادی آئینی ڈھانچے کا پاکستان میں کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے اسلامی تشخص، پارلیمانی نظام ِحکومت اور آزاد عدلیہ کو بنیادی آئینی ڈھانچہ قرار دے رکھا ہے۔ فوجی عدالتوں کے کیس سمیت پاکستانی سپریم کورٹ کے ایسے متعدد فیصلے موجود ہیں جو پارلیمان کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی اجازت نہیں دیتے۔ آئین کے آرٹیکل 238 کے تحت پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے، جبکہ آرٹیکل 239(6) میں اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ آئین میں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کے اختیار پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستانی پارلیمنٹ کوئی بھی آئینی ترمیم کرنے کی مجاز ہے۔ 1997ء سے قبل پاکستانی عدالتیں آرٹیکل 238 اور 239(6)کے تحت پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے کلی اختیار کو تسلیم کرتی چلی آرہی تھیں۔ چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ قرار دے چکے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین میں ہر قسم کی ترمیم کرنے کی مجاز ہے۔5 اگست 2015ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام سمیت 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ کے17میں سے 13ججوں نے اکثریتِ رائے کے ساتھ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نظریے کو قبول کیا، جبکہ اُس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک، جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس اقبال حمید الرحمن نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو قبول نہیں کیا تھا اور قرار دیا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے اور عدالت کسی آئینی ترمیم کا جائزہ لینے کی مجاز نہیں ہے۔ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں 17 میں سے 11ججوں نے مسترد کی تھیں، تاہم 4 کے سوا دیگر تمام 13ججوں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو تسلیم کیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم کوئی آئینی ترمیم نہیں کی جاسکتی اور کسی بھی آئینی ترمیم کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کیس میں مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے تحریر کیے گئے فیصلے سے سپریم کورٹ کے 7 دیگر ججوں نے اتفاق کیا، انہوں نے بنیادی آئینی ڈھانچے کو تو مانا تاہم ترامیم کو اس سے متصادم قرار دینے سے انکارکیا۔ مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے تحریری فیصلے کے اختتامی پیراگراف نمبر180میں پاکستانی آئین کے جو نمایاں خدوخال یا بنیادی ڈھانچہ بیان کیا گیا ہے وہ جمہوریت، وفاقی پارلیمانی طرزِ حکومت اور عدلیہ کی آزادی پر مشتمل ہے۔ مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید سمیت 8 ججوں نے اپنے تحریری فیصلے کے پیراگراف نمبر60 میں محمود خان اچکزئی کیس، وکلا محاذ کیس، ظفر علی شاہ کیس اور پاکستان لائرز فورم کیس کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ ان کیسوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق جمہوریت، وفاقی نظام، اسلامی شقوں کے ساتھ پارلیمانی طرزِ حکومت، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق، مساوات، انصاف اور فیئر پلے آئین کے بنیادی خدوخال ہیں۔ ان ججوں کے فیصلے کے پیراگراف نمبر65 میں قراردادِ مقاصد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جوآرٹیکل 2(اے)کے تحت اب آئین کا حصہ ہے۔ مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے کیس میں قراردادِ مقاصد کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے قرار دیا ہے کہ کوئی آئینی ترمیم پاکستان کا اسلامی تشخص ختم نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی ایسی آئینی ترمیم عمل میں لائی جاسکتی ہے جو اسلام کے منافی ہو، یا پھر پاکستان کا اسلامی تصور ختم کرتی ہو۔ اس کیس میں مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان اور مسٹر جسٹس اعجاز احمد چودھری نے اپنے تحریری فیصلے میں نہ صرف اسلام کو بنیادی ڈھانچے میں پہلے نمبر پر رکھا بلکہ قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کی اُس تقریر پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے جس میں قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہوں گے۔ ان دونوں فاضل ججوں نے قرار دیا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام ہی اس کے آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے خطاب سے یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتی کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے۔ مسٹر جسٹس دوست محمد خان اور مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنے فیصلوں میں اسلام کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں آئین کے بنیادی ڈھانچے میں جمہوریت، وفاقی نظام اور اسلامی شقوں کے ساتھ پارلیمانی طرزِ حکومت، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق، مساوات، انصاف، فیئر پلے، آئین اور قراردادِ مقاصد شامل ہیں۔ اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63کے وہ ذیلی آرٹیکلز جو آئین کے مذکورہ بنیادی ڈھانچے کے تابع ہیں اُن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔ آئین کے آرٹیکل63میں اسلامی تشخص کے حوالے سے کوئی شق شامل نہیں ہے، تاہم آئین کے آرٹیکل 62(1)ڈی میں رکن پارلیمنٹ کی اہلیت کے لیے شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ایسے شخص کے طور پر موسوم نہ کیا جاتا ہو جواسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہو، جبکہ 62(1) ای میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ لازمی فرائض پر عمل کرنے اور کبیرہ گناہوں سے بچنے والا ہو۔ عدالت کی طرف سے قرار دیئے گئے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا بغور جائزہ لیا جائے تو نظریہ پاکستان کے مخالف کو نااہل قرار دینے سے متعلق آرٹیکل 62(1) جی میں بھی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
جہاں تک آئین کے آرٹیکل 62 (1)ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ کی نااہلیت کا سوال ہے اس میں ترمیم سپریم کورٹ کی طرف سے قرار دیئے گئے بنیادی آئینی ڈھانچے سے بادی النظر میں متصادم نہیں ہے، چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم مذکورہ 5رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ آرٹیکل 62(1)ایف کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں پر ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں فاضل بینچ نے اس آرٹیکل کو آئین کے بنیادی اسلامی ڈھانچے میں شامل نہیں کیا ہے، جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے اس کے برعکس آبزرویشن دی ہے۔ اب پارلیمنٹ کو اس آرٹیکل میں ترمیم یا اسے منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ یہ معاملہ اسلامی احکامات کے تحت آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شمار نہیں کیا گیا۔ اگر مزید احتیاط مقصود ہو تو اس آرٹیکل میں صادق اور امین کی شرط کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایسی ترمیم عمل میں لائی جاسکتی ہے جس سے سابق وزیراعظم سمیت مختلف سیاست دانوں کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے غیر مؤثر ہوجائیں گے، جیسا کہ 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل62، 63 اور 63(اے) میں متعدد ترامیم کی گئی تھیں۔ ان ترامیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت نے آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ جس آئینی آرٹیکل کو سپریم کورٹ یا دیگر اعلیٰ عدالتیں جائز قرار دے چکی ہوں انہیں منسوخ یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔
عدلیہ کے فیصلے اور سیاسی حدت ذہن میں رکھی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت ’’ڈارون نظریہ‘‘ کی زد میں آچکی ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ ’’طاقت ور ہی زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور کمزور اپنی بقاء کی جنگ نہیں لڑسکتا‘‘۔ قارئین اب خود فیصلہ کریں کہ ہمارے ملک میں سب سے کمزور اور طاقت ور طبقہ کون ہے۔