ٹیلی ویژن اور اخبارکا پورے منظر میں کتنا تناسب ہے؟ ٹی وی لاؤنج یا کمرے پر نگاہ ڈالیے۔ یہ تناسب دس فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس منظرکا یہی وہ دس فیصد ہے، جو نسبتاً بہت زیادہ غیر حقیقی اور غیر مصدقہ سمجھا جاسکتا ہے۔ جبکہ بقیہ نوّے فیصد منظر نسبتاً بہت زیادہ حقیقی اور قابلِ یقین ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ براہِ راست مشاہدے میں ہوتا ہے۔ اگر ہماری توجہ کا مرکز یہ دس فیصد ہو، تو قصور حقائق کا نہیں، ہمارا اپنا ہے۔ یہ قصوروار رویہ یا نفسیات ٹی وی یا اخبارکی ایجاد یا تخلیق نہیں۔ انسان نے ہمیشہ فریبِ نظرکا سامنا کیا ہے، اور زمینی حقائق نظرانداز کیے ہیں۔ مگر زمینی حقائق نہ کبھی بدلے اور نہ ہی آج بدلے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا توجہ نوّے فیصد حقائق پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کئی پہلو زیربحث آسکتے ہیں۔
دو ممکنہ غلط فہمیاں یہاں رفع کرنا ناگزیر ہوگا۔ اوّل یہ کہ ذرائع ابلاغ فی نفسہٖ ضرر رساں نہیں۔ دوم، یہاں یہ ذرائع ہدفِ تنقید نہیں۔ حقائق خود بھی ہمیشہ ہی کسی نہ کسی ذریعۂ ابلاغ سے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون سچا مبلغ ہوسکتا ہے؟ قرآن سے زیادہ معتبر ذریعۂ خبر کیا ہوسکتا ہے؟ سو، ذرائع ابلاغ کا اصلاحی استعمال عین اسلامی ہے۔
یہاں موضوع ٹی وی اور اخبارات کی وہ اسلام دشمنی ہے، جسے دیکھ کر مسلمان قارئین یا ناظرین دل گرفتہ سے ہوجاتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا کے زمینی حقائق وہی ہیں جو یہ چھوٹی سی اسکرین باورکروا رہی ہے یا یہ مشہور کالم نگار دکھا رہا ہے۔ یہ مسلمان قاری یا ناظر کے لیے تکلیف دہ ہے۔ دو باتیں واضح کرنا مضمون کا بنیادی مقصد ہے۔ ایک یہ کہ ٹی وی، اخبارات کی اسلام دشمنی سمندر کے جھاگ سے زیادہ کچھ نہیں، دوسرا یہ کہ اس پروپیگنڈے کے برخلاف زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے نوّے فیصد منظرنامہ قابلِ توجہ ہونا چاہیے۔ بہت حقیقت پسند ہونا چاہیے، اور زمینی حقائق کو عالمی و کائناتی وسعتوں میں سمجھنا چاہیے۔ یقین کرنا چاہیے کہ جہادِ اسلامی، قوانینِ اسلامی، اور سیاستِ اسلامی کی آیات پر سودے بازی کرنے والے ایمان فروش نہ نئے کردار ہیں اور نہ ہی انوکھے۔ جب ٹی وی، اخبارات اور میڈیا کہیں موجود نہ تھا، یہی سب کچھ بنی اسرائیل نے بھی کیا تھا۔ وحیٔ الٰہی کی تعلیمات مسخ کرنے والے ہر نبوت اور ہر شریعت میں موجود رہے ہیں۔ مگر پھر ہوا کیا؟ زمینی حقائق نے اُن کا وہ حشر کیا کہ زمین پر پناہ ملنا محال ہوگیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے مثالی معاشرے نے اُنہیں سنہرے دور سے آشنا کیا۔ جو آج ابن سلمان، بندر بن سلطان امریکہ، ڈالر، اور ریال کے حوالوں پر دلائل کی عمارتیں اٹھاتے ہیں، وہ ماضی کے کلیساؤں میں انجیل کا تقدس مجروح کرچکے ہیں، زبور کی آیات کے سودے کرچکے ہیں، احکامِ الٰہی کی شکل و صورت بگاڑ چکے ہیں۔ یہ ہر عہد کے ایمان فروشوں کا شیوہ رہا۔ مگر جان لینا چاہیے کہ اُن سب کا انجام بد ہوا۔ یہی حال کے ایمان فروشوں کا حال ہونا ہے۔
مضمون کو اُن زمینی حقائق کی جانب لے چلتے ہیں، جو دس فیصد ابلیس کاری پر ہر جگہ کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ اسلام دشمن پروپیگنڈے کی ترجیحات میں سب سے اہم ’’بنیادی اسلامی عقائد‘‘ پر حملہ ہے۔ دوسری ترجیح مسلمانوں کی دہشت ناک صورت گری ہے۔ یہ دونوں کام ہر جانب سے ہر لمحے کیے جارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی چلی جاتی، مسلمانوں کی بھاری اکثریت منہ چھپاتی پھررہی ہوتی، اسلام سے لوگوں کی بدگمانی بدترین ہوچکی ہوتی، مسلمان ریاستوں نے اسلام سے لاتعلقی کا برملا اظہار کیا ہوتا، مسلمانوں کا معاشرتی شیرازہ بکھر چکا ہوتا، مسلمانوں کا خاندانی ادارہ تباہ ہوجاتا، مرتدین کثرت میں آجاتے، ملعونیت بے قابو ہوجاتی، ملحدین کی ہر جانب واہ واہ ہورہی ہوتی، مساجد خالی ہوجاتیں، روزے دار ڈھونڈے سے نہ ملتے، احکام الٰہی کی کھلی خلاف ورزیاں ہوتیں۔ مگر زمینی حقائق یہ نہیں ہیں۔ کیا کہتے ہیں یہ زمینی حقائق؟ مغربی تحقیقاتی اداروں ہی سے جان لیتے ہیں۔
اسلام اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ریاستوں کا سرکاری مذہب ہے۔ The Time of Israel پر شائع ہونے والی پیو ریسرچ سینٹرکی ڈیٹا رپورٹ کہتی ہے کہ 199 ریاستوں میں، ہر 10 ریاستوں میں سے 4 کسی نہ کسی مذہبی عقیدے سے وابستہ ہیں۔ ان 43 مذہبی ریاستوں میں سے 27 ریاستوں کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ جبکہ 13 ریاستوں کا سرکاری مذہب عیسائیت ہے۔ اسرائیل واحد ریاست ہے جس کا سرکاری مذہب یہودیت ہے۔ مشرق وسطیٰ سے شمالی افریقا تک 20 میں سے صرف 3 ممالک ہیں جن کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ یہ لبنان، سوڈان اور شام ہیں۔ ان میں بھی سوڈان اور شام کا غالب مذہب اسلام ہے، لبنان میں بھی اسلام کا کردار اہم ہے۔ پیو اسٹڈی بتاتی ہے کہ مسلمان خاندانوں میں افزائش نسل کی شرح سب سے زیادہ ہے، نصف صدی میں مسلمان دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن جائیں گے۔ 2050ء تک دس فیصد یورپین اسلام سے وابستہ ہوچکے ہوں گے۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ برطانوی مبصر اور صحافی ڈگلس مرے کی آڈیو کتاب The Strange Death of Europe میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یورپ کی عجیب خودکشی کا تذکرہ ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ یورپ کی مقامی آبادی کا خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ شرح پیدائش افسوس ناک حد تک گرچکی ہے۔ اعتماد کی شدید کمی اور خود سے نفرت کا سا ماحول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے لوگ دلیل سے محروم اور معاشرتی تبدیلیوں سے لاتعلق ہورہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنا براعظم برباد کررہے ہیں۔ تارکینِ وطن مسلمانوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرپا رہے ہیں۔
مذکورہ سروے اور مشاہدات ایک بہت ہی اہم اور بنیادی بات نظرانداز کرگئے ہیں، جو سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔ وہ یہ کہ اسلام ایک ایسی زندہ و تابندہ تہذیب ہے جس کا معاشرتی و خاندانی نظام بھی زندہ وتابندہ ہے۔ اس تہذیب کے پیروکاروں میں زندگی سے محبت زندہ ہے۔ دنیا میں بھلائی کی امیدیں زندہ ہیں۔ دنیا کو سنوارنے کی آرزوئیں زندہ ہیں۔ دنیا اور مالکِ کائنات سے وابستہ امیدیں زندہ ہیں۔ یہ وہ تہذیب ہے، جس کا ہر نیا انسان اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ رب العزت ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب سے زیادہ نشوونما پانے والی کامل انسانی تہذیب ہے۔ یہی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ منافق یا کافر چاہے لاکھ نہ چاہیں، انسانی تہذیب کا امکان صرف اسلام ہی میں ہے۔
جب زمینی حقائق یہ ہیں تو مسلمان مقتدر وغالب کیوں نہیں؟ یہ سوال بھی یقینا زمینی حقیقت ہے۔ مگر اس کا سبب ہرگز اسلام دشمن پروپیگنڈا نہیں۔ نہ صرف اکثر مسلمان بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے بلکہ کافر و مشرک بھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔ اگر مسلمان خستہ حال ہیں، پریشان ہیں، کمزور ہیں، مظلوم ہیں، مغلوب ہیں، محکوم ہیں، اور ذلت و مسکنت کا سامنا کررہے ہیں تو اس کی وجہ صرف ایمان کی کمزوری ہے، یقین کی کمزوری ہے، علم کی کمزوری ہے، عمل کی کمزوری ہے، اورحکمت کی کمزوری ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ مہربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت وہ آئے گا جب ساری دنیا تمہاری طرف ایسے دوڑی آئے گی جیسے بھوکے ہر طرف سے کھانے پر ٹوٹ پرتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اُس زمانے میں ہم بہت کم تعداد میں ہوں گے؟ تو اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ نہیں، تم بہت زیادہ تعداد میں ہوگے مگر سمندر کے جھاگ کی طرح بے وقعت اور بے وزن ہوجاؤ گے، جس کے سبب دشمنوں کے دل سے تمہارا ڈر نکل جائے گا اور تمہارے دل میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف بیٹھ جائے گا۔
مسلمانوں کی کمزوریوں کا یہ جھاگ دس فیصد اسلام دشمن پروپیگنڈے سے بہت زیادہ وزنی اور بہت زیادہ نمایاں ہے۔ اسے ایسی موجوں میں بدلنا ہوگا جن میں اضطراب ہو۔