ڈاکٹر اسامہ شفیق
سندھ کی جامعات حکومت سندھ کے نشانے پرہیں اساتذہ ،طلبہ،ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔اس پس منظر میں مظاہرے،فورم اور سیمنارز کا اہتمام کیا جارہا ہے ،اسی تسلسل میںترمیمی بل کی آمد کے بعدجامعہ کراچی میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا قیام گزشتہ عمل میں لایا گیا تھا ۔
سیمینار کی صدارت سابق وائس چانسلرجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر ظفر سعید سیفی نے کی، نظامت کے فرائض ڈاکٹر اسامہ شفیق نے انجام دیے ۔ڈاکٹر ظفر سعید سیفی نے اپنے صدارتی خطاب میںکہا کہ” میرے تمام طالبعلم ساتھیو!قائداعظم نے 8مارچ 1948ءکو فرمایا تھا بچوں کی لئے میرا پیغام ہے تعلیم ۔۔تعلیم۔۔تعلیم۔اور بڑوں کے لئے کام ۔۔کام اور کام۔
بات اصل یہ ہے کہ یہاں ہم کیوں جمع ہوئے ہیں؟اس لئیے جمع ہوئے ہیں کہ تعلیم صرف اسکا نام نہیں ہے کہ ہم آئیں،کلاسز لیں اور چلے جائیں۔بلکہ تعلیم عقل و شعور کے حصول کا چراغ ہے ۔
جب مجھے یہ عہدہ سونپا گیاتو مجھے ناموں کی ایک لسٹ دی گئی کہ صاحب یہ انتہائی ناکارہ اور بے ایمان ہو گئے ہیں انکو نکال دئجئیے۔میں حیران رہ گیا۔میں نے کیا انیس سو ارسٹھ سے لے کر آج تک میں یہاں پر ہوں میں نے تو انکو ایسا نہیں پایا!!یہ تو رات دن اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔کیوں انکو نکالنا چاہتے ہیں آپ؟کہنے لگے بس یہ اوپر سے آرڈر آیا ہے۔ ایک بہت بڑے افسر نے مجھ سے کہا کہ انکے بھانجے نے کاپی خالی چھوڑ دی ہے میرا فرض یہ ہے کہ میں اسے نکالوں ،کسی دوسرے سے لکھواؤںاور پھر اے گریڈ دلواؤں۔!!میں نے ان سے کہا کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔وہ اتنے بڑے افسر تھے میں نام نہیں لے سکتا ۔انھوں نے میں آپ سے بات کر رہا ہوں اور کس سے بات کر رہا ہوں!!میں نے کہا بات سنئے !ایک دن روزِ محشر ہو گا۔آپکا قیامت پر اعتبار ہے؟کہنے لگے جی ہاں۔میں نے کہا اللہ تعالی مجھ سے پوچھے گا ہم نے تمہیں امانت دی تھی تم نے خیانت کیسے کی؟آپ جواب دینگے یا میں دونگا؟تو کہنے لگے جواب تو آپ ہی کو دینا پڑے گا۔میں نے کہا کہ میرا جواب یہ ہے کہ میں یہ نہیں کروں گا۔تو غصے میں کہنے لگے میں تمہیں کرسی پر نہیں بیٹھے رہنے دونگا،نکال دونگا۔اس کے بعد مجھے ذہنی طور پر ایذا دی گئی۔ اچانک مجھے گورنر ہاؤس بلا لیا جاتا ۔اور کئی گھنٹوں کا طویل انتظار کروا کے بلا کسی وجہ واپس بھیج دیا جاتا۔پھر مجھے پوچھنے پر کہا گیا کہ سیکیٹری صاحب سے ملئیے جب میں ان سے ملا تو یہ وہی تھے جنھوں نے اپنے بھانجے کے نمبرز بڑھانے اور اسے پاس کرنے کا کہا تھا۔انھوں نے کہا ہم نے یہ تہییہ کیا ہے کہ ہم آپکو نکال رہے ہیں۔میں نے کہا کوئی بات نہیں نکال دیجئیے۔میں تو اس کے لئے تیار ہو کے آیا ہوں تو یہ چار پانچ دن اس بات کے لئے مجھے ذہنی اذیت کیوں دی گئی؟کہنے لگے وہ اسلئے کہ آپ نے ہمیں انکار کیا تھا۔اب بتائیے یہ یونیورسڑی جس میں اے بی اے حلیم صاحب،ڈاکٹر محمود حسین خان جیسی قدآورشخصیات رہی ہوںوہاں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس یونیورسٹی کو اس طرح روند دیا جائے؟یہ نہیں ہو سکتا کبھی بھی اور مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ آپ سب لوگ بھی انشائاللہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
فپواسا پاکستان کے جنرل سیکرٹری،انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے سابق صدر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے اپنے تفصیلی میں خطاب میں کہا ”ایک عجیب صورتحال ہے یہاں جامعہ کراچی کے اساتذہ بھی موجود ہیں،طلبہ و طالبات بھی موجود ہیں،افسران بھی ہیں ،ملازمیں بھی ہیں۔اس عمارت میں ہم جمع ہوئے ہیں ایک ایسے حملے کے خلاف آواز اُٹھانے جو کہ نا صرف اس عظیم تعلیمی ادارے بلکہ سندھ میں جو دیگر اعلی تعلیمی ادارے ہیں انکی بنیادیں ہلا دینے کے درپے ہے۔
پاکستان بھر میں جامعات اپنا کام کر رہی ہیںاور سندھ میں بھی کر رہی ہیںان کے قوانین وضع ہو چکے ہیں،1972ءمیں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جو اب ان کے لئے روحانی رہنما کا درجہ رکھتے ہیںانھوں نے اس ملک کو تمام دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ایک آئین دے دیااور اسی آئین کے تحت جامعات کا قانون بھی سندھ کی سطح پر تشکیل پا چکا تھا ۔اور اس قانون کے تحت جامعات چلتی ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی تبدیلی کی ضرورت تھی یا کسی تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس کا کوئی جواز بھی موجود ہو گا!!کوئی توجیح ہو گی!وہ تبدیلی کہاں سے آئے گی؟اس تبدیلی کی ضرورت کی نشاندہی وہ لوگ کریں گے جو دن رات ان تعلیمی اداروں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیںیا وہ لوگ کریں گے جنھوں نے جرائم پیشہ افراد سے ڈگریاں خرید کر اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔جنھوں نے جامعات کو دیکھا نہیں،جو جامعات کو سمجھ نہیں سکتے کیا وہ تبدیلی لائیں گے؟؟میری جانب سے حکومتِ سندھ کو ،وزیرِ اعلی سندھ کو اور نثار کھوڑو صاحب کو کھلا چیلنج ہے کہ کسی مقام پر آئیں اور ہم سے مباحثہ کر لیں۔آپ اپنی دلیل دیں ہم اپنی دلیل دیں گے اور ہم آپ کو یہ ثابت کر کے بتائیں گے کہ کسے تبدیلی کی ضرورت نہیں۔یہ تبدیلی نہیں صرف بد نیتی ہے!!یہ ڈاکہ ہے،یہ شبِ خون ہے جو آپ اعلی تعلیمی اداروں پہ مارنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ عادی ہیں۔
میں وزیرِاعلی سے یہ سوال کرتا ہوں کہ پانچ سال سے سندھ ہائی ایجوکیشن کمیشن کے نام پر جو گرانٹ آپ دبا کر بیٹھے ہوئے ہیںاور یونیورسٹیز کو آپ ریسرچ گرانٹ جاری نہیں کر رہے ۔نہ ہی یونیورسٹی کو جو سالانہ گرانٹ مل رہی ہے وہ جاری کر رہے ہیں۔یہ آپ کی کارکردگی ہے !!اور اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیز آپکے قبضے میں دے دی جائیں!!یہ یونیورسٹیز اس طرح اتنی آسانی سے آپ کے قبضے میں نہیں آسکتیں۔اس یونیورسٹی کا ہر طالبعلم،ہر ملازم،ہر افسر اور ہر استاد سینہ تان کر آپکی راہ میں کھڑا رہے گا .
کنوینر جوانتٹ ایکشن کمیٹی ونائب صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی قدر کا کہنا تھا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پچھلے ایک مہینے سے اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کرمختلف جگہوں پر پروگرام کر رہی ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ جو ترمیمی بِل پیش کیا گیا ہے۔اس سے یونیورسٹی کی تباہی و بربادی کا ایک راستہ کھولا گیا ہے۔
ہم سندھ گورنمنٹ کی زمیں قبضہ کرو کے خلاف ،اور جس طریقے سے انھوں نے سنڈیکیٹ میں اپنی نمائندگی بڑھائی ہے اسکے خلاف تمام لوگ ایک ہیں۔
سابق ممبر سنڈیکیٹ جامعہ کراچی، پروفیسر ڈاکڑ فیاض وید نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1972ءکا یونیورسٹی ایکٹ میں ایک حد تک ہمیں جامعاتی خود مختاری دے رکھی ہے۔یہ خود مختاری انتظامی نوعیت کی بھی ہے،فنائنشل نوعیت کی بھی اوراکیڈمک کے ساتھ انتظامی بھی ہے۔ان ترامیم کے ذریعے انھوں نے ہم سے ہماری ان چاروں خود مختاریوں کو جو کہ ہمارا حق بھی ہیں ،ہم سے چھین لیا ہے۔سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تمام کے تمام لوگ جو بلدیاتی معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ اب یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اکیڈمک معاملات کوحل کرینگے۔کیا میں اور آپ اس بات کی انھیں اجازت دے سکتے ہیں؟جن سے گلیوں میں پڑا کوڑا کرکٹ نہیں اٹھایا جاتا ،جو ہمارے لئے صفائی ،ستھرائی،صحت کے انتظامات نہیں کر سکتے ہیں کیا ان سے میں اور آپ یہ توقع رکھیں کہ وہ تعلیم جیسے معاملات کے اندر دخل اندازی کرتے ہوئے کسے نوع کی بہتری پیدا کر سکتے ہیں؟ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ نمائندگی کے لئے وہ یہ کرتے کہ اساتذہ کی نمائندگی کو سنڈیکیٹ کے اند رذیادہ کر دیتے۔لیکن اس کے برعکس کیا کیا گیا؟
کیا میں اور آپ تیار ہیں ااس کے لئے کہ انھیں اجازت دیں کہ کل وہ یہ طے کریں کہ آپکی تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہئے؟اکیڈمک کونسل کے اندر جہاں پر آپ کے لئے تعلیمی پالیسی وضع کی جاتی ہے ۔اس تعلیمی پالیسی کے اوپر ڈیڑھ سو سے زیادہ پروفیسرز ہیں وہ بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں اس اکیڈمک کونسل میں بننے والے تمام فیصلے اب سندھ حکومت بنا کر آپکو اور مجھے دے گی اور وہ نافذ کئے جائیں گے۔مجھے ایک آدمی اب تک ایسا نہیں ملا جس نے یہ بات کہی ہو کہ یہ جو ترامیم کی گئی ہیں یہ انصاف پر مبنی ہیں۔یہ عقل پر مبنی نہیں ہیں اور عقل کے خلاف ہیںکہ کام کہیں اور کیا جارہا ہو اور فیصلے کسی اور ایوان میں ہو رہے ہوں۔
استاد شعبہ ابلاغِ عامہ جامعہ کراچی و کا لم نگار ڈاکٹر توصیف احمدخان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ”ا یک یونیورسٹی کے اور جمہوریت کے طالبعلم ہونے کی حیثیت سے یہ جو سندھ یونیورسٹی آرڈیننس ہے میں اسے علمی آزادی کے ادارے کی نظر سے دیکھتا ہوں۔اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ علمی آزادی کا ادارہ جو یہ یونیورسٹی کی بنیاد ہے۔جسے اکیڈمک فریڈم کہا جاتا ہے ۔یہ اس پر ایک بہت بڑا حملہ ہے ۔اور علمی آزادی کا جو ادارہ ہے یہ ایک جمہوریت کی بنیاد ہے ۔اور جمہوریت جہاں ارتقاءپذیر ہوتی ہے وہاں جامعات کو آزادی ہوتی ہے ،اساتذہ کو آزادی ہوتی ہے اورطلبا کو بھی آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیالات پیش کریں۔ ماضی بھی ہمارے اکابرین نے علمی آزادی کے لئے جدوجہدکی جس کے نتیجے میں 1972ء کا ایکٹ آیا۔جس میں ایک حد تک علمی آذادی کے ادارے کو تقویت فراہم کی گئی تھی ۔وہ بھی ناکافی تھی مگر1977ءکے آئین کے حوالے سے وہ ایک بڑاانقلابی قدم تھاجس میںجامعات میں اساتذہ کی بھی نمائندگی ہوئی اور طالبعلموں کی بھی نمائندگی ہوئی۔یہ نمائندگی صرف یونیورسٹی کے طالبعلموں کی نہیں تھی بلکہ کالجوں کے طالبعلموں کی بھی تھی ۔سندھ گورنمنٹ نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی،اسے تو جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہئیے تھا،اسے اپنے پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ایکٹ کوبحال کرنا چاہیئے تھا۔پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کی جامعات کو تباہ نہیں کر رہی بلکہ اپنے لئے مشکل حالات پیدا کر رہی ہے۔
اور ہماری آذادی وخود مختاری کو سِلب کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہم اس میں سے راستہ نہیں نکالیں گے بلکہ مز احمت کریں گے اور اسکو روکنے کی کوشش کریں گے۔
سابق صدر سندھ پروفیسر لیکچرار ایسوسی ایشن پروفیسر علی مرتضی کا کہنا تھا کہ یہ ترمیمی بِل2018ءطالبعلموں کو قبول نہیں ہے۔سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ کو قبول نہیں ہے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ترمیمی بِل جامعات کی خودمختاری وآزادی کے خلاف ہے۔اگر جامعات خود مختار نہ ہوں پابند ہوں،اوپر سے فیصلے مسلط کئے جائیںتو ہم تعلیمی اداروں میں تعلیم کا فروغ کیسے دیں گے۔یہ ہماری ااعلی تعلیمی درس گاہیں ہیں اور اساتذہ اور طالبعلموں کے ساتھ کی وجہ سے ہم اچھے ریسرچ اسکالرز پیدا کرتے ہیںاور تعلیمی ماحول کو بہتر بناتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک حکمرانوں کی تعلیم ترجیح رہی ہی نہیں ہے۔ان کی دانست میں عام آدمی تعلیم حاصل کر کے ان کے لئے خطرے کا باعث بنے گا۔اور چونکہ انکے بچے ہمارے اسکولنگ سسٹم میں نہیں ہیں۔ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں حکمران طبقوں کے بچے نہیں آتےوہ باہر پڑھتے ہیں۔تو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایکٹ ہمارے لئے اور تعلیم کے لئے خطرے کا باعث ہے۔ہم سندھ پروفیسر لیکچر ایسوسیشن کی طرف سے سندھ بھی کی جامعات کے اساتذہ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ رہیں گے۔
سیکرٹری اطلاعات، ایمپلائز ایسوسی ایشن، جامعہ کراچی وقار احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا میں تمام ملازمین جامعہ کراچی کی جانب کی جانب سے اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر سطح پہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نظریے کے تحت اس تحریک کا اس وقت تک حصہ بنے رہیں گے جب تک نتائج آپ کے اور ہمارے مطابق نہیں آجاتے ۔سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ کے عبد البصیر حسینی نے کہا کہ سندھ جامعات ایکٹ سے جامعات کی خود مختاری کوختم کیا گیا ہے اور جامعات ترمیمی ایکٹ آئین سے متصادم ایکٹ ہے جس کے ذریعے جامعات کی خود مختاری کو چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آئین جو خودذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھااور وہ اختیارات جو خود ذوالفقار علی بھٹو نے جامعات کو دئیے تھے انھی کی پارٹی نے آج اس آئین پہ شبِ خون مارا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی جب حکومت آئی تو وزیر اعظمبننے کے بعد یوسف رضا گیلانی نے اس بات کا اعلان کیاکہ وہ طلبہ یونین کو بحال کریں گے۔ان کے حقوق کی بات کی جائے گی۔یونیورسٹیز اور کالجز کے اندر طلبہ اپنا نمائندہ چنیں گے۔لیکن سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اس ایکٹ کے اندرسنڈیکیٹ کے اندر جو طلبہ کی نمائندگی ہوا کرتی تھی اس نمائندگی کو کُلی طور پر ختم کر دیا گیاہے۔
اس وقت اساتذ طلبہ اور ملازمین جامعات کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔یہ بنیادی حقوق کو سلب کرنے کا معاملہ ہے ،جمہوری حقوق کو سلب کرنے اور جامعات کی خود مختاری کو ختم کرنے کی بات ہے اورچیف جسٹس سپریم کورٹ کوبنیادی انصاف کے تقاضوں سے متصادم قانون سازی کا از خود نوٹس لینا چاہئیے ۔۔