ٹرمپ اخلاقی طور پر نااہل ہیں

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایسے شخص ہیں جو ’اخلاقی طور پر امریکہ کے صدر رہنے کے قابل نہیں‘ اور جو خواتین کو ’گوشت کا لوتھڑا‘ سمجھتے ہیں۔ کومی گزشتہ سال صدر ٹرمپ کے ہاتھوں اپنے عہدے سے برطرف کیے جانے کے بعد پہلی بار انٹرویو دے رہے تھے۔ انھوں نے امریکی میڈیا اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ٹرمپ ایسے شخص ہیں جن کے لیے سچائی کی بہت زیادہ قدر و قیمت نہیں ہے‘۔ اس انٹرویو کے فوراً بعد صدر ٹرمپ کا ردعمل بھی سامنے آیا۔ انھوں نے جیمز کومی پر ’بہت جھوٹ بولنے‘ کا الزام لگایا۔
جیمز کومی نے اے بی سی کے 20/20 پروگرام میں کہا: ’’مجھے اس بات پر اعتبار نہیں ہے کہ وہ ذہنی طور پر نااہل ہیں، یا وہ نسیان کے مرض کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ میرے خیال سے وہ طبی طور پر صدر کے عہدے کے لیے نااہل نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اخلاقی طور پر صدر کے عہدے کے لیے نااہل ہیں۔‘‘

سعودی عرب میں پہلا سنیما گھر

سعودی عرب میں کئی عشروں کے بعد دارالحکومت ریاض میں بدھ سے پہلا سنیما گھر کھل گیا ہے۔العربیہ کے مطابق سعودی عرب نے آئندہ پانچ سال کے دوران میں 15 شہروں میں 40 سنیماگھر کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام مملکت میں تفریحی شعبے کی ترقی کا حصہ ہے۔ 2030ء تک 25 سعودی شہروں میں ایک سو تھیٹر قائم کیے جائیں گے۔ سعودی وزارتِ اطلاعات کے مطابق 2030ء تک مختلف شہروں میں 350 سنیما تھیٹر کھولے جائیں گے اور ان کی 2500 اسکرینیں ہوں گی۔ سعودی عرب میں سنیما گھر چلانے کے لیے جس کمپنی کو پہلا لائسنس جاری کیا گیا ہے، وہ امریکی کمپنی اے ایم سی ہے۔

کشمیر: لاپتا انڈین فوجی کا ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت کا امکان

کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہونے والے 22 سالہ ادریس میر کے بارے میں پولیس کو شبہ ہے کہ وہ حکومت مخالف مسلح گروپ حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے ہیں۔
ادریس کئی ماہ پہلے شمالی کشمیر میں اپنے کیمپ سے لاپتا ہوگئے تھے۔ ادریس کا تعلق ضلع شوپیاں سے ہے اور وہ صاف نگری گاؤں کے رہائشی ہیں۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر ادریس کی مسلح تصویر کے ساتھ جزبِ المجاہدین میں ان کی شمولیت کی تاریخ 15 اپریل لکھی گئی ہے اور ان کا نیا نام ’حمزہ حزبی‘ ہے۔ کشمیر میں تعینات انڈین فوج کی 15 ویں کور سے وابستہ ایک اعلیٰ فوجی افسر نے بتایا ’’ہمارے لیے یہ معاملہ ابھی تک ڈیوٹی سے بغیر اجازت غیر حاضری کا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں کہ ادریس کسی دہشت گرد گروہ میں شامل ہوگئے ہیں۔‘‘
حزب المجاہدین نے ابھی تک ادریس میر کی گروپ میں شمولیت کی تصدیق نہیں کی ہے، تاہم ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جس انداز سے ادریس میر کی تصویر اور تفصیل موجود تھی، حزب المجاہدین میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تصاویر اور تفصیلات بھی اسی انداز سے سامنے آئی تھیں۔

صدام حسین کی لاش غائب؟

عراق کے شہر تکریت میں واقع سابق عراقی صدرصدام حسین کے مقبرے کو تباہ کردیا گیا۔ جہاں مزار تھا وہاں اب صرف ملبہ پڑا ہے، قبر بھی کھدی ہوئی ہے اور میت غائب ہے، جبکہ مزار کی نگرانی کرنے والا شیخ ندا بھی لاپتا ہوگیا ہے۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایک عراقی طیارے نے مزار پر بمباری کی ہے، لاش صدام کی بیٹی ہالہ اردن لے گئی ہیں۔ تاہم مقامی عالم دین کا کہنا ہے کہ سابق صدر کی بیٹی ہالہ یہاں نہیں آئیں۔ دوسری طرف صدام حسین کے سابق گارڈ کی رائے ہے کہ سابق صدر کی لاش ملبے میں دبی ہوئی ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ صدام حسین کے مقبرے پر کثیر تعداد میں لوگ آنے لگے تھے جو اُن کے اب بھی معتقد ہیں۔
واضح رہے امریکہ کے خلاف مزاحمت کی علامت 69 سالہ صدام حسین کو 30 دسمبر 2006ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1427ھ (عید الاضحی کے دن) کو پھانسی دی گئی تھی۔

بے گناہوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا

جسٹس نجفی رپورٹ بھی عدالت کو دی جائے گی اور کہا جاتا ہے کہ اس رپورٹ میں جناب شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کو بھی ’’ملزمان‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ میں انہی کالموں میں نصف درجن بار لکھ چکا ہوں کہ بے گناہوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ ایک وقت آتا ہے جب قاتل کا خنجر خود بولتا اور اس سے ٹپکتا لہو خود پکارتا ہے۔ میں نے اس سارے سانحے کو ٹی وی اسکرین پہ دیکھا تھا۔ ظلم و زیادتی کے ساتھ قتل و غارت کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔ پنجاب پولیس نے جہاں سفید داڑھیوں والے بزرگوں کو گھسیٹا اور ان پر لاٹھیاں برسائیں، وہیں ان ’’بہادر‘‘ نوجوانوں نے باپردہ خواتین کو بھی نہ بخشا۔ برس ہا برس گزر گئے لیکن ٹی وی پر نظر آنے والے یہ مناظر میں آج تک نہیں بھول سکا۔ ماشاء اللہ یہ اس پولیس کا کارنامہ ہے جسے بدلنے اور پروفیشنل بنانے کا کریڈٹ جناب وزیراعلیٰ ببانگِ دہل لیتے ہیں۔ میں نے 39 برس حکومت اور انتظامیہ میں گزارے ہیں۔ ہر روز اخبارات میں جرائم کی پھیلتی ہوئی وبا، پولیس مقابلوں میں معصوم شہریوں کا قتل عام، چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے رشوت، نام نہاد ملزموں کو پکڑ کر ان کے لواحقین سے بھاری رقم کے مطالبات ورنہ پار کرنے کی دھمکی، پولیس حوالاتوں سے لاشوں کی برآمدگی، اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی اور وارداتوں کا سراغ لگانے میں نااہلی جیسے واقعات پڑھ کر مجھے اس حاکم پر رحم آتا ہے جو چودہ برس سے پولیس کلچر کو بدلنے کا خواب عوام کو دکھا رہا ہے۔ میں نے اپنی 39 سالہ انتظامی ملازمت میں اتنی نااہل، کرپٹ، نالائق اور سنگ دل پولیس نہیں دیکھی جو میرے مہربان شہبازشریف کے دور میں پروان چڑھی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے گھر پر دو بار فائرنگ پنجاب میں لاقانونیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہری زیادتی برداشت کرلیتے ہیں لیکن تھانے میں قدم رکھنے یا شکایت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ میں ایسے سینکڑوں مناظر کا عینی شاہد ہوں اور انتظامیہ سے مایوس سے مایوس تر ہوچکا ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے مہربان خادم اعلیٰ نے خدمت کے جذبے سے معمور ہوکر سارا صوبہ 56کمپنیوں کے حوالے کردیا ہے اور پنجاب کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ماڈل بنادیا ہے۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔جنگ17اپریل2018ء)

سپریم کورٹ پر یلغار اور ججوں کو تقسیم کرنا

سپریم کورٹ پر یلغار کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔ شریف خاندان نے ایک حملے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ آخرکار ججوں کو تقسیم کرنے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں صدر رفیق تارڑ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اُس زمانے کی روداد بیان کرنے والے کئی ذمے دار لیڈروں نے بعدازاں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ذہنی کیفیت کا ذکر کیا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے فرزند، قومی اسمبلی کے اسپیکر الطاف گوہر کے مطابق، وزیراعظم ان سے مشورے کے طالب تھے کہ کس طرح چیف جسٹس کو کم از کم ایک رات کے لیے حوالات میں بند کیا جاسکتا ہے۔
شریف خاندان اور ان کے حواری اُس زمانے میں بھی حیران تھے کہ جج حضرات ان کی من مانی میں رکاوٹ کیسے ہوگئے! سوشل میڈیا کا اگرچہ وجود نہ تھا اور اس محاذ پر بھاڑے کے ٹٹوئوں کی کوئی فوج سرگرم نہ تھی مگر سجاد علی شاہ کے خلاف بھی ویسی ہی زبان برتی گئی، آج کی اعلیٰ عدلیہ جس کی سزاوار ہے۔ جمہوریت کا گیت شریف خاندان بہت گاتا ہے مگر عملی طور پر ان کا طرزِ حکمرانی مختلف ہے۔ انہیں جسٹس قیوم، جسٹس رفیق تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف جیسے لوگ ہی سازگار ہیں جو کاروبارِ حکومت میں ان کے مددگار ہوں۔ جسٹس رفیق تارڑ گھریلو محفلوں میں ابا جی کو سکھوں اور قادیانیوں کے لطیفے سنایا کرتے اور یہ سب کے سب پارلیمانی زبان میں نہ ہوتے تھے۔ جسٹس خواجہ شریف ابھی لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے کہ ان کی خودنوشت شائع ہوئی۔ نہایت فراخ دلی کے ساتھ جج صاحب نے میاں محمد نوازشریف اور جناب شہبازشریف کو خراج تحسین پیش کیا تھا اور اُن تحائف کا ذکر کیا تھا جو ان کے خاندان پہ نچھاور کیے جاتے رہے۔ جسٹس ملک عبدالقیوم کی کہانی سے اخبار کا ہر قاری آشنا ہے کہ کس طرح میاں محمد نوازشریف کے ایک پیغام پر، محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ کسی طرح یہ گفتگو ٹیپ کرلی گئی تھی، بعد میں لاکھوں لوگوں نے یہ سنی۔
(ہارون رشید، 16اپریل 2018ء)

بالا دست طاقتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں

۔12اگست1977ء کو میر غوث بخش بزنجو اپنے بیٹے میر حاصل بزنجو کے ہمراہ جنرل ضیا الحق کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے کے لیے آرمی ہائوس پہنچے۔ انتہائی گرم جوشی سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد میر غوث بخش بزنجو صاحب جب جانے لگے تو جنرل ضیا الحق نے اُن سے پوچھا کہ وہ ان کے لیے مزید کیا کرسکتے ہیں، جس پر میرغوث بخش بزنجو صاحب جنرل ضیا الحق سے کہنے لگے کہ ان کی مرسڈیز گاڑی کچھ پرانی ہوگئی ہے اگر منا سب سمجھیں تو اس سلسلے میں مہربانی کردی جائے۔ اپنے گھر آئے ہوئے مہمان کے منہ سے انتہائی قیمتی گاڑی کی فرمائش سن کر جنرل ضیا الحق کچھ حیران تو ہوئے لیکن انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بزنجو صاحب کے کندھے پر رکھتے ہوئے ملٹری سیکرٹری کو حکم دیا کہ ان کو فوری طور پر بالکل نئے ماڈل کی مرسڈیز خرید کر دی جائے۔
’’آج سینیٹ کے چیئرمین کے لیے ووٹنگ کے عمل سے ثابت ہوگیا ہے کہ بالادست طاقتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں۔ آج اس انتخاب نے پارلیمنٹ کا منہ کالا کردیا ہے اور اس ایوان میں بیٹھتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے‘‘۔ یہ الفاظ میر حاصل خان بزنجو کے ہیں جو انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی کی میاں نوازشریف اور محمود خان اچکزئی کے مشترکہ امیدوار راجا ظفرالحق کے خلاف کامیابی کے بعد کہے۔ میر حاصل بخش بزنجو کو اُس وقت تکلیف کیوں نہیں ہوئی جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہوکر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق سے ایک گھنٹے کی طویل ملاقات کی؟ اُس وقت کیوں نہ ہوئی جب وہ ایک فوجی آمر اور غیر جمہوری قوت سے مفت میں سب سے قیمتی مرسڈیز دینے کی منت سماجت کررہے تھے؟
(منیر احمد بلوچ، 16اپریل2018ء)