علامہ اقبال ؒ
کیا خدا کی بارگاہ سے امت مسلمہ کا نام رکھوانے کے بعد بھی یہ گنجائش باقی تھی کہ آپ کی ہیئت اجتماعی کا کوئی حصہ کسی عربی، ایرانی، افغانی، انگریزی، مصری، یا ہندی قومیت میں جذب ہوسکتا ہے۔ امت مسلمہ کے مقابل میں تو صرف ایک ہی ملت ہے اور الکفرۃ ملۃ واحدۃ کی ہے۔
امت مسلمہ جس دین فطرت کی حامل ہے، اس کا نام ’دینِ قیم‘ ہے۔ دینِ قیم کے الفاظ میں ایک عجیب و غریب لطیفہِ قرآنی مخفی ہے اور وہ یہ کہ صرف دین ہی مقوم ہے۔ اس گروہ کے امور معاشی اور معادی کا، جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے نظام کے سپرد کردے، بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن کی روز سے حقیقی تمدنی یا سیاسی معنوں میں قوم، دینِ اسلام سے ہی تقویم پاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ کوئی دستور العمل، جو غیر اسلام ہو، نامقبول و مردود ہے۔
ایک اور لطیف نکتہ بھی مسلمانوں کے لیے قابل غور ہے کہ اگر ’’ وطنیت‘‘ کا جذبہ ایسا ہی اہم اور قابل قدرتھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقارب اور ہم نسلوں اور ہم قوموں کو آپ ؐ سے پرخاش کیوں ہوئی، کیوں نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو محض ایک ہمہ گیر معمولی ملت سمجھ کر بلحاظ قوم یا قومیت ابو جہل اور ابو لہب کو اپنا بنائے رکھا۔ اور ان کی دلجوئی کرتے رہے، بلکہ کیوں نہ عرب کے سیاسی امور میں ان کے ساتھ قومیت وطنی قائم رکھی۔ اگر اسلام سے مطلق آزادی مراد تھی تو آزادی کا نصب العین تو قریش مکہ کا بھی تھا، مگر افسوس آپ اس نکتہ پر غور نہیں فرماتے کہ پیغمبر خدا کے نزدیک اسلام دینِ قیم، امت مسلمہ کی آزادی مقصود تھی۔ ان کو چھوڑ دینا، ان کو کسی دوسری ہیئت اجتماعیہ کے تابع رکھ کر کوئی اور آزادی چاہنا بے معنی تھا۔ ابو جہل اور ابو لہب امت مسلمہ کو ہی آزادی سے پھولتا پھلتا نہیں دیکھ سکتے تھے کہ بطور مدافعت ان سے نزاع درپیش آئی۔ محمدؐ (فداہ ابی امی) کی قوم آپ کی بعثت سے پہلے قوم تھی اور آزاد تھی، لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بننے لگی تو اب قوم کی حیثیت ثانوی رہ گئی۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں آگئے، وہ خواہ ان کی قوم میں سے تھے یا دیگر اقوام سے وہ سب امت مسلمہ یا ملت محمدیہ بن گئے۔ پہلے وہ ملک و نسب کے گرفتار تھے، اب ملک ونسب ان کا گرفتار ہوگیا:
کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را
نہ داند نکتۂ دین عرب را
اگر قوم از وطن بودے محمدؐ
نہ دادے دعوت دیں بو لہب را
مضمون: جغرافیائی حدود اور مسلمان
بیابہ مجلسِ اقبال – مطالعہ ضربِ کلیم
مولانا غلام رسول مہر
اقبال نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ شعر ریاض منزل بھوپال میں لکھے گئے۔
مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں، نہ امیر جنود!
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود!
جبینِ بندۂ حق میں نمود ہے جس کی
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیرِ وجود!
یہ کافری تو نہیں، کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود!
غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی
نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود!
جنود:جند کی جمع،فوجیں۔کبود:نیلا۔
1۔ اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں، نہ لشکروںکا سالار، لیکن زمانے کا مقابلہ خوب کررہا ہوں۔ یعنی برائیوں کے جو طوفان امڈے چلے آرہے ہیں، ان کی روک تھام میں مَیں نے کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، اور کہہ سکتا ہوں کہ اس میں کامیاب بھی ہوا۔ اس لیے کہ میری تعلیم کی وجہ سے لوگوں کے خیالات میں انقلاب پیدا ہوا اور وہ برائیوں کے مقابلے میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔
2۔مجھے معلوم نہیں کہ جو چیز پیش کررہا ہوں، وہ شاعری ہے یا کچھ اور؟ میں تو یہ جانتا ہوں کہ خدا نے مجھے ذکرو فکر اور جذب و سرود کی دولت عطا کی ہے۔ ذکر یہ کہ ہر وقت خدا کے احکام یاد دلانا۔ فکر یہ کہ ہر لحظہ معرفت میں غور و خوض کرتے رہنا۔ جذب یہ کہ جو کچھ کہنا دلی کشش اور خلوص کی بنا پر کہنا۔ سرود سے مراد ہے شعر گوئی۔
3۔ خدا کے سچے بندے کا ظاہر اور باطن ایک ہوتا ہے۔ اس کی پیشانی پر جلال کی جو شان نظرآتی ہے وہی شان اس کی ہستی کے ضمیر میں لہریں لیتی ہے۔
4۔ اگر خدا کا سچا بندہ حاضر اور موجود میں الجھ کر رہ جائے تو میں نہیں کہتا کہ یہ کفر ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کفر سے کم بھی نہیں۔ یعنی مردِ حق کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جو حالات موجود ہوں وہ انہیں قبول کرکے بیٹھ جائے یا دنیوی دلچسپیوں میں گم ہوجائے۔ اس کی شان یہی ہے کہ ہر مشکل سے بے پروا ہوکر اس دنیا کو خدا کی رضا کے مطابق چلائے۔
5 ۔ اے مخاطب! تُو غمگین نہ ہو۔ابھی بہت سے دَور باقی ہیں۔ یہ نیلا آسمان نئے ستاروں سے خالی نہیں ہوا۔ یعنی جو حالت اب موجود ہے وہ ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتی۔ لازماً بدلے گی۔ نئے ستارے طلوع ہوں گے اور وہ اپنے ساتھ نئے دور لائیں گے۔