پاکستان اور بھارت کو دو حصوں میں بانٹا جائے تو کشمیر اور پانی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ دونوں مسائل پر پیش رفت ہونے کے بجائے دور تک اُلجھائو ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے29 اور 30 مارچ کو ہونے والے دو روزہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پانی کا بہائو کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال پانچ سو ارب کے مالی خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق عالمی عدالتِ انصاف کے منفی کردار نے پاکستان کے لیے مزید مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ پچھلے تین برسوں میں پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کے بہائو میں بیس فیصد کمی آئی ہے۔ دریائے چناب پر بھارت کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے بجلی گھروں کے بعد اس میں مزید چالیس فیصد کمی آئے گی جس کے بعد پاکستان میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی بنجر ہوکر رہ جائے گی۔ سات سے نو کروڑ لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت جن دریائوں کا پانی پاکستان استعمال کرسکتا ہے اُن کے سوا پاکستان کے لیے پانی کے حصول کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں، جبکہ بھارت ان دریائوں پر بھی کئی ڈیم بناکر پاکستان کا پانی روک رہا ہے۔ پانی کی کمی اس وقت پاکستان کے لیے ایک سنگین چیلنج ہی نہیں اس کی بقا کا معاملہ بھی بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت اس حقیقت کو پوری طرح جان کر ہی پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا پانی روکنے کی مرحلہ وار اور منظم کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف وہ پاکستان میں بعض سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو استعمال کرکے پانی کے بڑے ذخیروں کی تعمیر کی مخالفت کا ماحول بنائے ہوئے ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر اور اسے مخالفانہ ماحول کی نذر کرنا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس طرح بھارت دو جہتی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔
ایک دور میں پاکستان کے ایک سیاسی رہنما اس حد تک آگے نکل گئے تھے کہ انہوں نے کالاباغ ڈیم بننے کی صورت میں اسے بم سے اُڑانے کی دھمکی تک دے دی تھی۔ اس مخالفانہ فضا میں کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے پر کام کا آغاز ناممکن تھا۔ دوسری طرف عالمی اداروں کا حال یہ ہے کہ ان کے اصول، قواعد اور ضوابط صرف کمزوروں کے لیے ہیں۔ ہٹ دھرم اور طاقتور ملکوں کے آگے یہ ادارے دست بستہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی اداروں کے لیے پاکستان اور بھارت کا یہی فرق ہے۔ ایک فریق مضبوط اور ہٹ دھرم ہے جبکہ دوسرا نسبتاً کمزور اور صلح جُو۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس نے حال ہی میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ سے کردار ادا کرنے کے لیے رجوع کیا مگر بھارت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ یہ دنیا کے تنازعات حل کرنے کی غرض سے قائم ہونے والے عالمی ادارے کی ایک بڑے اور سیکولر جمہوریہ کہلانے والے ملک پر ہٹ دھرمی اور قانون شکنی کی چارج شیٹ ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف جیسے اداروں کا حال بھی یہی ہے۔ وہ کلبھوشن یادیو کا سیدھا سادہ جاسوسی کا کیس تو قابلِ سماعت قرار دے کر باقاعدہ سماعت شروع کردیتے ہیں، مگر اپنے اصل دائرۂ کار اور اختیار میں آنے والے کیس سندھ طاس معاہدے پر پیدا ہونے والی شکایتوں کو اس وجہ سے بے بسی کے ساتھ داخلِ دفتر کردیتے ہیں کہ بھارت اس معاملے میں عدالت کے فیصلوں اور قوانین کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں پاکستان کے لیے کارڈ اور آپشن محدود رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ماہرین یہ پیش گوئی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر چلنے والی کھٹ پٹ اور توتکار کسی بھی لمحے فیصلہ کن ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا حالیہ دور بھی بھارت کی ہٹ دھرمی اور ضد کے باعث ناکام ہوا۔ مشیر برائے قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میںایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے بجائے شملہ معاہدے کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سمیت کئی بھارتی اہلکاروں سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان کی حالیہ ملاقات اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا سے ہوئی، جس پر پاکستان میں کئی سیاسی رہنمائوں نے تنقید کی ہے۔ تنقید کرنے والوں میں چودھری نثار علی خان اور رضا ربانی بھی شامل ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں اس ملاقات پر دبے لفظوں میں تنقید کی تھی۔ اب ناصر جنجوعہ کے اس بیان کو ان ساری ملاقاتوں کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ گویا کہ بھارت کی سوئی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وہیں اٹک کر رہ گئی ہے جہاں وہ روزِاوّل سے تھی۔ اگر جنگیں اور کشیدگی بھارت کو معقولیت کے راستے پر نہیں لاسکی تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور موم بتی والوں کے دھمال اور ٹھنڈے ہالوں میں منعقد ہونے والے سیمیناروں نے بھی بھارت کا ذہن نہیں بدلا۔ بھارت کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل وہی ہے جو اس کی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنا رکھا ہے۔ وہ حل بے گناہوں کو قتل کرنا، گم کرنا، ان کی بینائی چھیننا، گھر جلانا، خواتین سے زیادتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت پوری بے رحمی سے اس حل کو اپنائے ہوئے ہے۔ اس دوران مقبوضہ کشمیر ایک قتل گاہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان کور ایشو صرف مسئلہ کشمیر ہے، باقی سب مسائل ثانوی حیثیت کے حامل ہیں۔ کشمیر پر نمایاں پیش رفت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ساری فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سمیت بہترین تعلقات فروغ پا سکتے ہیں۔ کشمیر کو نظرانداز کرکے دونوں ملکوں میں مصنوعی دوستی تو ہوسکتی ہے مگر حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بھارت اگر کشمیر پر مذاکرات کے لیے تیار نہیں تو پھر بات چیت کرنے کو کیا موضوع باقی رہ جاتا ہے؟ آلو، پیاز کی بے مقصد تجارت کو کشمیریوں کے کھاتے میں ڈالنا اور سی بی ایم بنا کر پیش کرنا خودفریبی ہے۔ شملہ معاہدہ ایک حقیر اور بے معنی دستاویز ہے، کیونکہ اس میں بنیادی فریق یعنی کشمیری عوام شامل نہیں تھے۔کشمیریوں کو اصل فریق صرف پاکستان نے ہی نہیں جواہر لعل نہرو نے بھی مانا ہے، اور اقوام متحدہ میں بھارتی نمائندوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اسی تصور کے گرد گھومتی ہیں۔ شملہ معاہدہ اسلام آباد اور دہلی کے درمیان مجبوری کا معاہدہ تھا، جس میں ایک فریق شکست کھا چکا تھا اور دوسرا فتح کے نشے سے سرشار تھا۔ جبکہ تنازعے کا اصل فریق منظر سے غائب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اصل فریق نے 1988ء میں بندوق اُٹھاکر شملہ معاہدے کو اپنے تئیں فسخ کردیا ہے۔ اب اس ازکارِ رفتہ معاہدے کی مالا جپنا وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں۔ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ کا بیان ان سب پاکستانیوں کے لیے چشم کشا ہے جو بھارت کی ہمدردی کے جراثیم دلوں میں چھپائے اور سجائے بیٹھے ہیں۔