ہم اپنے ساتھیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ایک ہی جملے میں ’تا‘ کے ساتھ ’تک‘ نہیں آنا چاہیے، جیسے ’’صبح تا شام تک‘‘۔ لیکن ہمارے ایک نوجوان ساتھی نے بڑے معتبر ادبی رسالے ’قومی زبان‘ کا تازہ شمارہ (اپریل۔2018ء) ہمارے سامنے رکھ دیا۔ اس میں ایک صاحب جاوید احمد خورشید کا تحقیقی مضمون فیض کے استاد، اردو، عربی اور فارسی کے شاعر و ناول نگار پروفیسر سید جمیل واسطی کے بارے میں ہے۔ مضمون میں تین جگہ ’تا‘ کے ساتھ ’تک‘ جلوہ فرما ہے(صفحہ 47، 48)۔ لکھتے ہیں ’’پروفیسر واسطی نے 1932ء تا1936ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘‘۔ اگلے صفحے پر پھر یہی غلطی دہرائی گئی۔ دوسری جگہ لکھا کہ ’’تدریس کا سلسلہ 1940ء تا 1943ء تک جاری رہا‘‘۔ اردو، فارسی کے استاد جمیل واسطی تو یہ غلطی کرنے سے رہے، لیکن ہمارے نوجوان صحافی نے یہ کہہ کر ہمیں شرمندہ کردیا کہ ’’دیکھیے، ماہ نامہ قومی زبان کو مرتب کرنے اور مجلسِ مشاورت میں اردو ادب کی بڑی اہم شخصیات شامل ہیں مثلاً پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ذوالقرنین جمیل وغیرہ۔ مدیر اس کی معروف شاعرہ اور ادیب ڈاکٹر فاطمہ حسن ہیں‘‘۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اتنے بڑے بڑے استادوں کے سامنے آپ کیا بیچتے ہیں۔ بات تو صحیح ہے، لیکن ہم پہلے بھی قومی زبان کے مرتبین کو توجہ دلا چکے ہیں کہ اس رسالے میں شائع ہونے والی زبان سند بن جاتی ہے، چنانچہ مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
ابھی ہم جسارت سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے غلط اشعار پر اپنا ہی سر پیٹ رہے تھے کہ ماہنامہ ’قومی زبان‘ نے بڑا حوصلہ دیا کہ ہم اکیلے ہی نہیں ہیں۔ مذکورہ شمارے میں جناب مسلم شمیم نے حضرتِ امیر خسرو پر تحقیقی مضمون لکھ کر اُن کے مشہور شعر کی ایسی تیسی کردی ہے۔ ان کی مشہور غزل کے مقطع کو مطلع بنادیا اور شعر بھی غلط۔ لکھتے ہیں (صفحہ 36) ان کی غزل کا مطلع ملاحظہ کیجیے:
خدا خود میر مجلس بود شب جائے کہ من بودم
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
صحیح شعر یہ ہے:
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمدؐ شمعِ محفل بود شب جائے کہ من بودم
خسرو پر تحقیقی مضمون میں تحقیق کا یہ عالم! ابھی شاید ایس ایم معین قریشی کو خبر نہیں ہوئی ورنہ وہ خبر لے چکے ہوتے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا مراسلہ ابھی راہ میں ہو۔ مسلم شمیم سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے شعروں کے ساتھ جو چاہیں کریں کہ یہ ان کا استحقاق ہے، لیکن اساتذہ کو تو معاف کردیں۔
ماہنامہ ’قومی زبان‘ ہم زبان سیکھنے اور اپنی اصلاح کے لیے پڑھتے ہیں۔ اس میں تو کمپوزنگ کی غلطیاں بھی نہیں ہونی چاہئیں، ورنہ نوجوان غلطی کو سند بنا لیں گے۔ اپریل کے شمارے میں اسماعیل میرٹھی کی شعری جہات پر پروفیسر علی احمد فاطمی (صدر شعبہ اردو، الٰہ آباد یونیورسٹی) کا بڑا جامع مضمون ہے اور نئی نسل کے لیے اسماعیل میرٹھی کے کلام کے احیاء کی بہت ضرورت تھی۔ اس مضمون میں ساحر لدھیانوی کی نظم کا مصرع ہے ’’اودھ بڑھے، نفرت گھیرے، لالچ کی عادت گھیرے‘‘۔ غالباً اودھ کی جگہ ’کرودھ‘ ہوگا، ’’اودھ‘‘ کا کوئی تک نہیں ہے۔ اسماعیل میرٹھی کی مشہور اور مقبول لوری کا ایک شعر ہے:
’’چندا ماما دور کے۔ پوئے پکائے بُور کے‘‘
یہ ’’پوئے‘‘ کیا ہے، معلوم نہیں۔ ہم نے تو ’پوڑے‘ پڑھا تھا۔ اور آگے یہ کہ ’پکائیں‘ نہ کہ ’’پکائے‘‘۔ یہ غلطی اسماعیل میرٹھی نہیں کرسکتے۔ یہ کمپوزنگ کا سہو ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ دوسرے مصرع میں ’’آپ کھائیں تھالی میں‘‘ ہے جو احترام کا لفظ ہے۔ اسے شاید شترگربہ کہتے ہیں۔ بہرحال یہ شمارہ بھی کئی قیمتی اور تحقیقی مضامین سے مالامال ہے۔
اب ذرا اپنی خبر لیتے ہیں کہ ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ سنڈے میگزین شمارہ یکم تا سات اپریل میں جروار نام کے کسی شخص کا مضمون ایک بار پھر شائع ہوا ہے۔ انہوں نے ایک نیا لفظ ’’ملمہ سازی‘‘ ایجاد کیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کمپوزنگ یا پروف ریڈنگ کا سہو ہو، کیونکہ کئی قارئین یہ پوچھ چکے ہیں کہ کیا جسارت میں کوئی پروف ریڈر نہیں ہے؟ کیوں نہیں، بہت سے ہیں مگر سب ہمارے جیسے ہیں۔ موصوف نے مضمون کے آخر میں تو ستم ڈھا دیا ہے۔ ایک بڑے مشہور شعر کو اس طرح لکھا ہے:
’’نورِ خدا ہے کفر کی پیشانی پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘
کیا وہ بتائیں گے کہ کفر کی پیشانی کیا ہوتی ہے، کیسی ہوتی ہے؟ اصل شعر میں ’’پیشانی‘‘ نہیں ’حرکت‘ ہے۔ اس شعر کی اشاعت کے بعد ہم مسلم شمیم کے سہو کو نظرانداز کیے دیتے ہیں۔ اسی شمارے میں کسی ’’ظالم‘‘ نے اپنے تخلص کے ساتھ مرزا غالب سے کھلواڑ کیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’کعبہ کس منہ سے جائو گے ظالم۔ شرم تم کو مگر آتی نہیں ہے‘‘۔ غالب کی جگہ ظالم صاحب نے اپنا تخلص استعمال کیا تو کوئی بات نہیں، مگر دوسرے مصرعے پر بھی ظلم ڈھا دیا۔ پوری ردیف ہی بدلنی پڑے گی، مثلاً ’’آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر آتی نہیں ہے‘‘۔ وغیرہ۔ یہ حضرت خود شاعر بھی ہیں۔
ہم نے کئی بار یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ صحیح لفظ ’لاپروائی‘ ہے، ’’لاپرواہی‘‘ نہیں۔ لیکن سنڈے میگزین کے اگلے ہی شمارے میں پھولوں کی دنیا کے صفحے پر بڑی جلی سرخی ہے ’’لاپرواہی کا انجام‘‘۔ جانے ان پھولوں کا مالی کون ہے۔ کیا بچے ’’لاپرواہی‘‘ ہی کو صحیح نہیں سمجھ لیں گے! ویسے ’’لا‘‘ کے بجائے ’بے پروائی‘ زیادہ بہتر ہے۔
بہت سے بڑے ادیب و کالم نگار بھی الفاظ کی ترتیب پر دھیان نہیں دیتے۔ سرخیوں میں تو بسا اوقات صورتِ حال مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ ہمارے ایک بہت پسندیدہ کالم نگار جو جسیم بھی ہیں اور قدیم بھی کہ ہم انہیں 50 سال سے پڑھ رہے ہیں، گزشتہ دنوں انہوں نے ایک مرغی نامہ لکھا جس میں انہوں نے شاعری کی اصطلاح میں تعقید لفظی کا مظاہرہ کیا، مثلاً ’’ایک مرغیوں کی دکان‘‘… ’’ایک پسند کی مرغی‘‘۔ بھلا ’مرغیوں کی ایک دکان‘ اور ’پسند کی ایک مرغی‘ لکھنے میں کیا قباحت تھی! ’’کھلی چھٹی‘‘ اور ’مارشل لا‘ کے بعد ہمزہ یعنی ’’لاء‘‘ کی غلطی تو اتنی عام ہوگئی کہ 10 اپریل کے بیشتر اخبارات میں نااہل وزیراعظم کے بیان میں ’’کھلی چھٹی‘‘ موجود ہے۔ اس پر پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہ ’کھلی چھوٹ‘ ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ بھی لغت میں نہ آجائے۔ ’لا‘ (LAW) انگریزی کا لفظ ہے، اس کے آگے عربی کی ہمزہ لگانے کا کوئی تک نہیں ہے۔ اور اب ایک خط لاہور سے محمد انور علوی کا
’’اردو میں جب ہم کسی دوسری زبان کا لفظ لیتے ہیں تو یا تو اسے اسی طرح قبول کرلیتے ہیں، یا اس میں تھوڑی بہت حسبِ ضرورت تبدیلی کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے معنی ہی بدل دیتے ہیں۔ بلاشبہ عربی میں اور خود قرآن حکیم میں لفظ قمیص ہی استعمال ہوا ہے لیکن اردو والوں نے ’ص‘ پر نقطہ ڈال کر اسے اپنایا ہے اور عام مستعمل ہے۔ مستقبل میں لغت میں بھی آجائے گا۔
حامد ریاض ڈوگر صاحب کے کالم میں مندرج غالب کے شعر میں آپ نے جو اصلاح فرمائی ہے وہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ دوسرے مصرعے میں ’’بھی‘‘ زاید ہے۔ البتہ پہلے مصرعے میں ’تیرے‘ ہی درست ہے۔ ’’ترے‘‘ سے تو وزن ہی بگڑ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ غالب نے پہلا لفظ ’’اُتنے‘‘ نہیں، ’’کتنے‘‘ استعمال کیا ہے، اس پر آپ نے گرفت نہیں فرمائی، جب کہ اس ایک لفظ کے بدلنے سے شعر کا سارا حسن ہی غارت ہوگیا۔
اسی پرچے میں ایک خاتون کے ایک مضمون ’’قرارداد والا پاکستان زبوں حالی کا شکار‘‘ کے جملے ’’ہم جیسی عوام بھی ناقص العقل ٹہری‘‘ پر بجا گرفت کی ہے کہ عوام جمع ہے اور مذکر بھی۔ مگر ’ٹھیری‘ کو آپ نے بھی ’’ٹہری‘‘ بنادیا (یہ ہم نے نہیں بنایا، خاتون کا جملہ نقل کیا ہے)۔ پچھلے پرچے میں آپ نے خوردبرد کا مطلب ’کھایا‘ اور ’ڈوبا‘ لکھا تھا۔ ’ڈوبا‘ نمعلوم آپ نے کہاں سے لے لیا۔ ’بردن‘ لے جانے کو کہتے ہیں۔ برد کے معنی ہوئے لے گیا۔‘‘
یہ خوب فرمایا کہ ’’قمیض‘‘ عام مستعمل ہے۔ مستقبل میں لغت میں بھی آجائے گا۔ اس طرح تو اردو میں در آنے والی غلطیوں کو نظرانداز کردینا چاہیے کہ کیا پتا کب لغت میں آجائے۔ لیکن ’ٹہری‘ پر گرفت کی ہے۔ کیا پتا کل کو یہ بھی لغت میں آجائے۔ ویسے لغت میں ٹھہری اور ٹھہرانا تو ہے۔ ٹھہر بروزن سحر۔
ایک شعر سن لیجیے: