کتاب : غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق
مصنف : حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظ اللہ امیر جماعت اسلامی ہند
صفحات : 320
قیمت : 185روپے بھارتی
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
ڈی۳۰۷، دعوت نگر ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگری ، نئی دہلی ۔۱۱۰۰۲۵
فون : ۲۶۹۵۴۳۴۱ ۲۶۹۴۷۸۵۸
فیکس : ۲۶۹۷۱۶۵۲
ای میل : mmipublishers@gmail.com
ویب سائٹ www.mmipublishers.net
)زیر نظر کتاب برکۃ العصر حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظ اللہ کی معروف کتاب ہے جس کا چوتھا ایڈیشن مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی نے بڑے اہتمام کے ساتھ خوبصورت ٹائپ اور سفید عمدہ کاغذ پر مجلد شائع کیا ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں جہاںمؤمنین مسلمین کے باہمی تعلقات پر جامع ہدایات ملتی ہیں وہیںغیر مسلموں کے ساتھ رویوں کو بھی عدل و انصاف کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں ہوئی چودہ سو سال سے ہم مسلمان برصغیر میں غیر مسلموں کے ساتھ رہتے آ رہے ہیں اس طویل عرصے میں ہندو مسلم اکٹھے رہے اورانہوں نے اکٹھے رہنے کے طریق دریافت کر لیے اور ان پر عمل ہوتا رہا اور جس قسم کے مسائل پیدا ہوتے رہے ان کا حل بھی تلاش کر لیا جاتا رہا ۔ انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر کے معاشرے میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے مسلمان حکمراں تھے حکومت ان سے چھن گئی مسلمان اور اسلام پر معاندانہ حملے شروع ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام کا موقف تفصیل سے بیان کر دیا جائے اسی سلسلے میںمولانا سید جلال الدین عمری نے یہ گراں قدر کتاب تحریر کی جس میںموضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ یہ ایک مقبول کتاب ہے۔ مولانا محترم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے غیر مسلموں سے تعلقات اور حقوق پر نہایت محققانہ اور عالمانہ بحث کی ہے ۔ تعلقات کے ذیل میں خاندانی ،سماجی ،معاشرتی اور معاشی ہر نوع کے تعلق کو موضوع گفتگو بنایا ہے ۔ اور بعض اخلاقی مسائل میں معتبر علما ، مفسرین اور فقہا کی آراء سے تائید حاصل کی گئی ہے ۔ ان شاء اللہ یہ کتاب دعوت و تحقیق سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو گی ۔
حضرت مولانا عمری مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :
“اس وقت پوری دنیا مختلف اسباب کی وجہ سے عملاً ایک تکثیری معاشرہ(Plural Society) میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ جس کسی ملک میں ایک نسل ، ایک مذہب یا ایک زبان بولنے والے طبقہ کی اکثریت ہے وہاں دوسری نسل ، دوسرے مذہب اور دوسری زبان بولنے والے بھی پائے جاتے ہیں ۔ وہ گو اقلیت میں ہیں ، لیکن از روئے دستور ان کو مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ آج کے تکثیری معاشرے کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اقلیتوں کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہوں گے ۔ اس سے قانونی طور پر انکار نہیں کیا جاتا ۔
سوال یہ ہے کہ اس مسئلے میں اسلام کا موقف کیا ہے؟ جن ممالک میں اسلام کے ماننے والے اکثریت میں ہیں اور با اختیار ہیں ، وہاں کی اقلیتوں کے ساتھ اس کا کیا رویہ ہو گا اور جہاں اسلام کے ماننے والے اقلیت میں ہیں اکثریت کے ساتھ ان کے تعلق کی کیا نوعیت ہو گی؟ یہ سوال مسلم ممالک سے متعلق بھی ہے ، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور اس کا تعلق مغربی ملکوں سے بھی ہے ، جہاں مسلم آبادی اقلیت میں ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک کے لیے یہ سوال خاص اہمیت کا حامل ہے، جہاں مسلمانوں کی تاریخ ایک ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے اور آج بھی وہ مردم شماری کے لحاظ سے تقریباً چودہ فیصد ہیں ، جب کہ خود مسلمانوں کا اپنی آبادی سے متعلق اندازہ اس سے زیادہ ہے ۔
یہ ایک علمی موضوع ہے ۔ قرآن و حدیث میںٖ اس سلسلے میں رہ نمائی موجود ہے ۔ ہمارے قدیم علماء و محققین نے اس طرح کے مشترک معاشرے میں اسلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے حقوق پر اپنے حالات کے پیش نظر تفصیل سے بحث کی ہے ۔ اس سے اسلام کے موقف کو سجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
موجودہ دورمیں یہ موضوع اس لیے بھی کافی اہمیت اختیار کیا گیا ہے کہ بعض مخالف حلقے اسلام کی اس طرح تصویر پیش کرتے ہیں گویا کہ وہ اپنے ماننے والوں کے علاوہ دوسروں کو گردن زدنی اور واجب القتل قرار دیتا ہے اور اس میں روا داری اور مخالفین کو برداشت کرنے کا جذبہ نہیں ہے ۔ اسی طرح جب اسلامی ریاست یا اسلام کے نظام حکومت کا ذکر آتا ہے تو اس پر سنجیدہ غور و فکر اور بحث و تمحیص کی جگہ جذباتی رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ آج کے دور میں اسلامی افکار و نظریات نا قابل قبول ہیں اور وہ جدید زمانہ کے سیاسی و سماجی تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتے ۔ اسلام کے بارے میں ان خیالات سے آج کا تعلیم یافتہ طبقہ بری طرح متاثر ہے ۔ اس کے پیچھے اسلام سے عداوت اورتعصب کے ساتھ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت اور بے خبری بھی کار فرما ہے ۔
پیش نظر کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ غیر مسلموں سے عام تعلقات اور اسلامی ریاست میں ان کے حقوق پر مستند حوالوں کے ساتھ گفتگو کی جائے اور جن مسائل کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے ان کے سلسلے میں اسلام کی تعلیمات وضاحت کے ساتھ آجائیں ۔ اندازِ بیان رد و قدح کی جگہ مثبت اور معروضی اختیار کیا گیا ہے ۔ امید ہے ، اس سے اسلام کے موقف کو بہتر طریق سے اور اچھے ماحول میں سمجھا جا سکے گا اور اس کی صحیح تصویر سامنے آ سکے گی ۔ یہ موضوع موجودہ حالات میں اہم بھی ہے اور جدید بھی ۔ اس لیے کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اہل علم نے اس کی طرف توجہ کی ۔ یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے ۔ وہی ہر طرح کی حمد و ستائش کا مستحق ہے ۔ بعض دوستوں کا اصرار ہے کہ کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہو ۔ اس کی کوشش ہو رہی ہے ۔
یہ کتاب اس سے قبل ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ سے دو مرتبہ شائع ہو چکی ہے ۔ اس کی تیسری اشاعت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی سے ہوئی ۔ اب کی بار کسی قدر نظر ثانی کے بعد مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ہی سے زیادہ اہتمام سے شائع ہو رہی ہے ۔ اس میں حسب معمول برادرم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا تعان حاصل رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے اور اجر آخرت سے نوازے ۔
مولانا مزید تحریر فرماتے ہیں:
انسانی تعلقات کا مسئلہ سماج کا سب سے اہم اور نازک مسئلہ ہے ۔ اس کی اہمیت اور نزاکت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے ۔ جب کہ سماج میں مختلف افکار و نظریات اور عقائد و مذاہب کے ماننے والے ساتھ رہتے ہوں ، ان کا طرز حیات اور ان کی تہذیب و معاشرت و معاشرت ایک دوسرے سے الگ ہو ۔ اس صورت حال میں ظلم و زیادتی ، حق تلفی اور نا انصافی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور عدل و انصاف اور حقوق کی ادائیگی میں فکری تعصبات ، ذاتی اور قومی رجحانات اور سماجی عوامل رکاوٹ بننے لگتے ہیں ۔ا س پر قابو پانا ہر مہذب اور صالح سماج کی اولین ضرورت ہے ۔
” انسانی تعلقات کا اخلاق اور قانون سے رشتہ جڑا ہوا ہے ۔ اخلاق کا ہدف ان تعلقات کو بہتر اور خوش گوار بنانا ہے ۔ قانون اس لیے ہے کہ انہیں جائز حدودمیں رکھے اور کسی کو ان سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہ دے ۔ اخلاق اور قانون اپنا فرض ادا کریں تو سماج کو امن و امان اور سکون کی دولت نصیب ہو گی ، ورنہ جنگل کا راج ہو گا ، حقوق پامال ہوں گے اور طاقت ور کے ظلم اور چیرہ دستی سے کم زور سسکتے اور بلبلاتے رہیں گے ۔
دنیا نے الفت و محبت کے پھول کھلتے بھی دیکھے ہیں اور قتل و خون اور فتنہ و فساد کی کشتِ خزاں کا بھی مشاہدہ کیا ہے ۔ خدا کی اس زمین پر طبقات کا تصادم بھی رہا ہے اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق بھی پایا گیا ہے ۔ ظلم و زیادتی اور استحصال کی تیز و تند آندھیاں بھی چلی ہیں اور عدل و انصاف اور ایثار و ترجیح کے خوش گوار مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں ۔ انسانی تعلقات کا مسئلہ تو ویسے ہی پیچیدہ ہے اگر ذہنی ہم آہنگی بھی مفقود ہو تو صورت حال اور بھی خراب ہوجاتی ہے “بہر حال یہ عمدہ تحقیق سامنے آئی ہے جو بھارت کی طرح پاکستانی معاشرے میں بھی بامعنی ہے امید ہے جلد ہی پاکستان میں بھی شائع کی جائے گی ۔
موجودہ حالات پر ایک نظر
اسلامی ریاست اور اس میں غیر مسلموں کے حقوق
اسلامی ریاست
اسلامی ریاست کے بعض رہنما اصول
عدل و انصاف کا قیام
اسلام کے لیے جبر کی اجازت نہیں
اسلام اور دیگر مزاہب
اہل کتاب کے ساتھ اسلام کا رویہ
جہاد اور اس کے احکام
اسلام فساد اور خوں ریزی کے خلاف ہے
اسلام کا تصورِ جنگ
امن کو ترجیح حاصل ہے
اسلام خدا پرستی کے لیے آزادی چاہتا ہے
مشرکینِ عرب نے مسلمانوں کو عقیدہ کی آزادی نہیں دی
مدینہ کی اسلامی ریاست پر جارحانہ حملوں کا جواب دیا گیا
خانۂ کعبہ پر مشرکین کا ناجائز قبضہ
مشرکین عرب کا حکم
اسلامی ریاست کا دفاع اور تحفظ ضروری ہے
جنگ کے آداب
ذمیوں کے حقوق
ذمی کی تعریف
ذمی کے حقوق
ذمی کی جان کی حفاظت
ذمی کا قصاص مسلمان سے
ذمی کی دیت
ذمی کے مال کی حفاظت
ریاستی امور میں ذمیوں کی خدمات
جنگ میں غیر مسلموں کی شرکت
مال غنیمت میں غیر مسلموں کی شرکت
مال غنیمت میں غیر مسلموں کا حصہ
تحصیلِ زکوٰۃ
ذامیوں کی عبادت گاہیں باقی رہیں گی
کیا ذمیوں کی نئی عبادت گاہیں تعمیر ہو سکتی ہیں؟
اسلامی ریاست اور بین الاقوامی تعلقات
جنگ ایک عارضی کیفیت
عداوت ختم ہو سکتی ہے
مستامن کے احکام
معاہدات کا احترام
عہد شکنی پر وعید
معادہ کب ختم ہو جائے گا؟
بعض بین الاقوامی معاہدے
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
جو قوم جنگ نہ کرے اس سے جنگ نہ کی جائے
غیر مسلموں سے عدم تعلق کے احکام کا پس منظر
کن حالات میں یہ احکام دیے گئے؟
مخالفین کا رویہ او ران کے عزائم
اعداء دین سے عدم تعلق کی ہدایت
یہود، نصاریٰ اور منافقین کا کردار
صلح حدیبیہ
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کا واقعہ
مشرکین کی عہد شکنی اور جہاد کا حکم
اللہ اور رسول کی محبت ہر محبت پر غالب آ جائے
غیر جانب داروں کے ساتھ حسن سلوک
عدم تعلق کے ذیل کی بعض اصطلاحات
بطانۃ کا مفہوم
مولیٰ کے معنی
مودّت کی تشریح
آخرمیں اشاریہ بھی لگایا گیا ہے
خوش قسمت ہیں کہ ہم اس عہد میں زندہ ہیںجس میں جماعت اسلامی جیسی خادم اسلام تحریک برپا ہے ۔جماعت اور اہل جماعت کی فکر اسلامی کے سلسلے میں گراں قدر خدمات اور کوششیں اللہ پاک کی خاص عنایت کا مظہر ہیں اللہم زد فزد اسی سلسلے میں زیر نظرکتاب بھی اسلامی فکر کی تفہیم میں وقیع و ثمین اضافہ ہے اللہ پاک قبول فرمائے
اسی کتاب کاانگریزی زبان میں ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے اس کا تعارف بھی ہم کرا رہے ہے ۔
کتاب : Relationship with Non- Muslims & Their Rights Translation of Urdu Book “Ghair Muslimon se Talluqaat Aur un ke Huqooq”
مصنف : حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ
صفحات : 312 قیمت310 روپے بھارتی
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی 307، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی110025
فون نمبر : 26981652, 26984347
ای میل : mmipublishers@gmail.com
ویب سائٹ : www.mmipublishers.net
زیرنظرکتاب مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ کی گرانقدر تحقیق ’’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘‘ کا نہایت ہی خوبصورت انگریزی میں ترجمہ ہے۔ اردو کتاب کا تعارف سطور بالا میں کرایا جا چکا ہے، انگریزی ترجمے کے متعلق مولانا عمری تحریر فرماتے ہیں:
“The” Relationship with non- Muslims and their Rights” was the first scholarly attempt on this topic in the Urdu language. Hence it was well received by the intellectuals. There have been four editions of the same. Immediately after its publication there arose a need to bring out its English translation. In view of this need the famous institution in the UK, the Islamic Foundation translated its introduction and the first chapter titled “Relations with Non-Muslims and relevant regulations”. The second chapter titled “Rights of Non-Muslims in an Islamic State” has been translated into English by Prof. U. Muhammad Iqbal, Chennai who is well known litterateur and translator, Now the entire book is being published under the title- “Relationship with Non-Muslims and their Rights”.
I am grateful to Dr. Muhammad Rafat, Prof. and Ex-Chairman, Department of Applied Sciences and Humanities, Jamia Millia Islamia, New Delhi for going through the entire translations and making the necessary corrections. I also wish to thank Dr. Muhammad Raziul Islam Nadvi who extended this cooperation for this project, He checked the Arabic excerpts and translations and transliteration of Arabic words, especially in the bibliography. May Allah reward him immensely.”
انگریزی اور دوسری عالمی زبانوں میں صحیح اسلامی لٹریچر کی بہت ضرورت ہے، ان شاء اللہ اسلامی فکر کے تعارف میں اس کتاب کا بڑا حصہ ہوگا۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ اور خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔