شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے دورۂ بیجنگ سے جوہری تنازعے کے پُرامن حل کی امید قوی ہوگئی ہے۔ اس مرحلے پر جزیزہ نمائے کوریاکی ایک مختصر سی تاریخ قارئین کی دلچسپی کے لیے، کہ 1979ء میں گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان پر حملے سے پہلے گزشتہ صدی کے آغاز میں روس نے کوریا پر قبضے کی کوشش کی۔ یہ 1904ء کی بات ہے۔ اُس وقت جاپان ایشیا بلکہ پوری دنیا کی ایک بڑی طاقت تھا۔ سارا بحرالکاہل جاپانی بحریہ کی گرفت میں تھا اور اس عظیم سمندر تک روس کی رسائی بہت محدود تھی۔ بحرِ جاپان میں کھلنے والی بندرگاہ ولاڈی واسٹک (Vladivostok) کا قرب و جوار موسم سرما میں منجمد رہتا ہے، جبکہ بہار کی آمد پر برف پگھلنے سے پیدا ہونے والی کیچڑ بڑی گاڑیوں کی نقل و حمل میں مانع تھی، اور یہ بندرگاہ صرف گرمی کے چند مہینوں میں قابلِ استعمال رہتی تھی۔ اُس وقت روسی بحریہ نے بحرالکاہل کی نگرانی کے لیے بحر زرد (Yellow Sea) میں واقع پورٹ آرتھر کی بندرگاہ چین سے کرائے پر لے رکھی تھی۔ یہ بندرگاہ جزیرہ نمائے کوریا کے مغرب میں چینی صوبے لیاوننگ (Liaoning)کا حصہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ولاڈی واسٹک کی بندرگاہ اب سارا سال استعمال میں رہتی ہے اور اِس وقت یہ روسی بحریہ کے بحرالکاہل بیڑے کا اڈہ ہے۔
بحرالکاہل پر بالادستی اور جزیرہ نمائے کوریا پر قبضے کے لیے چین کی چنگ (Qing) سلطنت بھی 1894ء میں جاپانیوں سے دودو ہاتھ کرچکی تھی جس میں چین کو شکست ہوئی، جس کے بعد روس اور جاپان کی چھوٹی موٹی بحری جھڑپیں ہوتی رہیں اور ہر جنگ میں اپنے فوجی اور بحری جہاز گنوانے کے باوجودگرم پانیوں تک رسائی کے لیے روس نے کوریا پر قبضے کی کوشش جاری رکھی۔ روز روز کی کھٹ پٹ سے تنگ آکر 6 فروری 1904ء کو جاپان نے روس کے زیراستعمال پورٹ آرتھر کے بحری اڈے پر زبردست حملے سے ایک بھرپور جنگ کا آغاز کیا اور بحرِ زرد میں کئی روسی جہاز ڈبو دیے۔ یہ سردی کا زمانہ تھا جس کی وجہ سے ولاڈی واسٹک کی بندرگاہ ناقابلِ استعمال تھی۔ جنگ ابتدا ہی سے یک طرفہ رہی اور جاپانیوں نے روس کو شدید نقصان پہنچایا۔ روسیوں نے ہمت کرکے جنگ جاری رکھی لیکن اسی دوران 1905ء میں روسی انقلاب کا آغاز ہوگیا اور روسی قیادت نے امریکہ بہادر کو ثالثی کا سندیسہ بھیج دیا۔ امریکی صدر تھیوڈر روز ویلٹ (Theodore Roosevelt) کی کوششوں سے جاپانی بات چیت پر راضی ہوگئے اور امریکی ریاست نیوہمپشائر کے شہر پورٹس مائوتھ (Portsmouth) میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔ کہنے کو تو یہ امن بات چیت تھی لیکن درحقیقت یہ روس کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز کو کسی حد تک باعزت بنانے کی ایک کوشش تھی۔ جاپان کا اصرار تھا کہ روس تاوانِ جنگ ادا کرے۔ یہ شرط اس اعتبار سے غیر منصفانہ تھی کہ جارحیت کا آغاز جاپان کی طرف سے ہوا تھا، لیکن فاتحین کی ہر بات مستند سمجھی جاتی ہے۔ صدر روزویلٹ کی کوششوں سے جاپان تاوان کے مطالبے سے تو دست بردار ہوگیا لیکن اس کے بدلے میں روس نے چین سے پورٹ آرتھر کا معاہدہ ختم کردیا اور اپنے سب سے بڑے جزیرے سخالن (Sakhalin Island)کی ملکیت جاپان کے حوالے کردی۔ اس کے ساتھ ہی روس نے جزیرہ نمائے کوریا پر جاپان کی غیر مشروط عمل داری کو تسلیم کرلیا۔ ’’عظیم الشان امن کوششوں‘‘ پر صدر روز ویلٹ نوبیل امن انعام کے حق دار ٹھیرے۔ قارئین خود ہی بتائیں کہ ان شرائط کو کون امن معاہدہ تسلیم کرسکتا ہے! یہ تو صاف صاف اعترافِ شکست اور ادائیگیٔ تاوان کا وعدہ ہے، لیکن اندھوں کی نوبیل امن کمیٹی اُس وقت بھی صرف اپنوں ہی کو ریوڑیاں تقسیم کرتی تھی۔ اس جنگ کے بعد سارا جزیرہ نمائے کوریا جاپان کے زیرنگیں آگیا۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کی شکست پر امریکہ اور روس نے جزیرہ نمائے کوریا کو برابر برابر تقسیم کرلیا۔ روسی سرحد سے متصل شمالی ٹکڑا روس کے زیرانتظام آگیا، اور جنوب پر امریکی پرچم لہرا دیے گئے۔ اسی کے ساتھ روس نے جزیرہ سخالن بھی جاپان سے واپس لے لیا۔ کوریا کے باشندوں نے روس کے زیرتسلط شمالی حصے اور امریکی مقبوضہ جنوبی کوریا کے ادغام کی کوشش کی لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی، اور 1948ء میں ایک لاکھ 20 ہزار 540 مربع کلومیٹر پر مشتمل شمالی حصے کو عوامی جمہوریہ کوریا بنادیا گیا جو شمالی کوریا کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے زیرانتظام جنوبی نصف ’ریپبلک آف کوریا‘ کے عنوان سے آزاد ہوگیا۔ ایک لاکھ 210 مربع کلومیٹر رقبے والا یہ ملک جنوبی کوریا کہلاتا ہے۔
شمالی کوریا کے سربراہ اور مشہور کمیونسٹ رہنما کم ال سنگ کو کوریا کی تقسیم پسند نہ آئی اور انھوں نے اپنے جنوبی ہم منصب صدر سنگمن رھی(Syngman Rhee) کو ادغام کی پیشکش کی، جسے ترنت مسترد کردیا گیا، جس پر مشتعل ہوکر کم ال سنگ نے اپنے گوریلے جنوبی کوریا میں داخل کردیے، تاہم جنوبی کوریا کی فوج کے ہاتھوں ان چھاپہ ماروں کی اکثریت ماری گئی۔ گوریلا فوج کی یہ درگت دیکھ کر کم ال سنگ نے جنوبی کوریا پر فوج کشی کا منصوبہ بنایا اور جنگ چھیڑنے سے پہلے روس کے سربراہ جوزف اسٹالن اورچین کے مائوزے تنگ کو اعتماد میں لیا۔ اسی دوران اکتوبر 1949ء میں چین میں کمیونسٹ انقلاب کی شاندار کامیابی اور عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے علاقے میں کمیونسٹوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ روس نے کامیاب جوہری دھماکا کرکے ایٹمی اسلحہ کے میدان میں امریکہ کی اجارہ داری کا خاتمہ کردیا۔ روس اور چین کی آشیرواد کے ساتھ کم ال سنگ نے 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا پر حملے کا آغاز کیا اور شمالی کوریا کی فوجیں تیزی سے پیش قدمی کرتی ہوئی جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول تک جاپہنچیں۔ صرف پانچ دن میں جنوبی کوریا کے دوتہائی سے زیادہ فوجی ہلاک ہوگئے۔ امریکہ یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا جہاں روس نے شمالی کوریا کے خلاف مذمتی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بجائے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ روس کا مؤقف تھا کہ عوامی جمہوریہ چین ہی اصل چین ہے اور سلامتی کونسل سے تائیوان کو بے دخل کرکے یہ نشست چین کو دی جائے، اور جب تک ایسا نہیں ہوگا روس سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوگا۔ یہیں سے شمالی کوریا اور روس کے تعلقات میں رخنہ پیدا ہوا اور ساری دنیا میں چینی نواز کمیونسٹوں نے روسیوں پر ترمیم پسند کی پھبتی کسنی شروع کردی۔ سلامتی کونسل سے مذمت کی قرارداد منظور ہوتے ہی امریکی صدر ہیری ٹرومین نے امریکی فوج کوریا بھیج دی۔ برطانیہ اور اُس کے یورپی اتحادی بھی میدان میں آگئے، حتیٰ کہ چین کی دشمنی میں ہندوستان نے بھی 70سپاہیوں کا دستہ بھیج کر اس جنگ میں علامتی شرکت کی۔ امریکی فضائیہ کی بمباری نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور جلد ہی دارالحکومت سیول پر جنوبی کوریا کی فوج نے دوبارہ قبضہ کرلیا۔ آخرکار 27 جولائی 1953ء کو ایک معاہدے کے تحت شمالی و جنوبی کوریا نے ایک دوسرے کو خودمختار ریاست تسلیم کرلیا۔ 3 سال جاری رہنے والی اس خونریزی میں 25 لاکھ کوریائی شہری ہلاک ہوئے، لاکھوں خواتین بے آبرو کی گئیں، شمالی کوریا کے 5 لاکھ اور جنوبی کوریا و امریکہ کے 2لاکھ فوجی مارے گئے۔ سارے کا سارا جنوبی کوریا ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ مالی نقصانات کا تخمینہ 1500 ارب ڈالر ہے۔
ہمیں احساس ہے کہ بہت سے قارئین کو تاریخی پس منظر کی یہ تفصیل غیر ضروری اور خشک محسوس ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ جزیرہ نمائے کوریا سے دنیا کے بڑوں کی دلچسپی کئی دہائیوں بلکہ ایک صدی پر محیط ہے، اور گزشتہ سوا سو سال کے دوران یہاں تین خوفناک جنگیں ہوچکی ہیں، جن میں لاکھوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ بڑی طاقتوں کی دلچسپی کی بنیادی وجہ علاقے کا جغرافیہ ہے۔ جزیرہ نمائے کوریا براعظم ایشیا کے جنوب مشرقی حصے کو بحرالکاہل میں 11 سو کلومیٹر تک پھیلائے ہوئے ہے۔ شمال اور شمال مغرب میں شمالی کوریا اور چین کی سرحد 1420 کلومیٹر طویل ہے۔ شمال میں دریائے یالو (Yalu) اور دریائے تومن (Tumen)کے کنارے 17کلومیٹر کی سرحدی پٹی شمالی کوریا کو روس سے ملاتی ہے۔ شمالی کوریا اور چین کے درمیان خلیجِ کوریا حائل ہے تو جنوب میں چین اور جنوبی کوریا کے درمیان بحر زرد یا Yellow Sea موجزن ہے۔ جزیرہ نما کے مشرق میں بحرمشرق (بحر جاپان) کے دوسری جانب جاپان ہے۔
شمالی کوریا کا 80 فیصد علاقہ پہاڑوں اور سطح مرتفع پر مشتمل ہے جو تقریباً سب کا سب درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کی تاریخ خونریز جنگوں سے مزین ہے، جس کی وجہ سے خود انحصاری اُن کے ملّی عزم اور قومی بیانیے کا حصہ ہے جسے کوریائی زبان میں نظریۂJucheکہتے ہیں۔ اس نظریے کے تحت دفاع سمیت ہر شعبے میں مکمل خودانحصاری ریاست کی آئینی ذمے داری ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی والے اس ملک میں باقاعدہ فوج کی نفری 11 لاکھ، اور ریزرو فوجیوں کی تعداد 84 لاکھ ہے۔ یعنی ملک کی 38 فیصد آبادی ہمہ وقتی یا ضرورت پڑنے پر فوج کا حصہ ہے۔ شمالی کوریا کے پاس ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لڑاکا اور بمبار طیارے ہیں اور اس کی بحریہ 1000 تباہ کن جہازوں، کشتیوں اور آبدوزوں پر مشتمل ہے۔ شمالی کوریا کے بانی کم ال سنگ اپنے نظریۂ Jucheکے تحت شمالی کوریا کی فوج کو امریکہ کے ہم پلہ لانا چاہتے تھے اور جوہری ہتھیاروں کے ساتھ بین البراعظمی میزائلوں کا حصول اُن کے مشن کا حصہ تھا۔ کم ال سنگ کے بعد برسراقتدار آنے والے ان کے صاحبزادے اور موجودہ رہنما کے والد کم جونگ ال نے(Kim Jong Il) بھی اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ 2006ء میں پہلی بار شمال کوریا پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن چین اور روس کی مدد سے شمالی کوریا نے ہتھیاروں پر کام جاری رکھا۔ دسمبر 2011ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد موجودہ حکمران کم جونگ ان (Kim Jong-un) نے اپنے باپ اور دادا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسے میزائلوں کی تیاری شروع کی جو براہِ راست امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔ کم جونگ کے اس جارحانہ انداز کا تجزیہ کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کہا تھا کہ کم جونگ صدر صدام کے حشر سے خوف زدہ ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ جیسے عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD)کی شرمناک تلاش اور یہ یقین کرلینے کے بعد کہ عراق کے پاس جوہری یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں، امریکہ نے سارے ملک کو تباہ اور صدام حسین کو اُن کے پورے خاندان کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا، امریکہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کرے گا۔ چنانچہ کم جونگ نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی تیاری میں جھونک دیا۔ چین کو بھی بحرالکاہل اور بحر جنوبی چین میں امریکی بحریہ کی سکھا شاہی کا سامنا ہے اور واشنگٹن چین کا گھیرائو کرنے کے لیے جس طرح ہندوستان، آسٹریلیا اور جاپان کو اکسا رہا ہے، بیجنگ کو چچا سام کے اس رویّے پر بھی خاصی پریشانی ہے۔ چین اور شمالی کوریا ایک دوسرے کے نظریاتی حلیف ہیں، چنانچہ امریکہ پر دبائو ڈالنے کے لیے پابندیوں کے باوجودچین نے شمالی کوریا کی غیر اعلانیہ حوصلہ افزائی جاری رکھی۔ 2015ء کے آغاز سے شمالی کوریا نے اپنے دُورمار منجنیقی یا Ballistic میزائلوں کے تجربات کا آغاز کیا۔ شروع میں نتائج خاصے مایوس کن تھے لیکن کم جونگ کی مستقل مزاجی رنگ لائی اور 2017ء میں پیانگ یانگ نے کامیاب تجربات کا انبار لگادیا، اور ایک مرحلے پر تو تقریباً ہر دو تین ہفتے بعد ایک نیا میزائل داغا گیا۔
اگست 2017ء میں سلامتی کونسل نے شمالی کوریا سے کوئلے، لوہے اور مچھلیو ں کی برآمد پر پابندی لگادی اور چین نے بھی اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں پابندیوں کو مزید سخت کرتے ہوئے شمالی کوریا کو خام تیل اور پیٹرول و ڈیزل مہیا کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ اس بار بھی چین نے سلامتی کونسل کے فیصلے کو ویٹو نہیں کیا اور شمالی کوریا کے غیر ذمے دارانہ رویّے کی مذمت کی۔ چین نے شمالی کوریا سے تجارتی تعلقات عملاً منقطع کرلینے کے ساتھ چینی ائرلائن کی شمالی کوریا کے لیے پروازیں بھی ختم کردیں۔ شمالی کوریا کی 85 فیصد سے زیادہ تجارت چین سے ہوتی ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ساری دنیا میں شمالی کوریا کا چین کے سوا کوئی دوست نہیں، اور اکلوتے دوست کے آنکھ پھیر لینے سے شمالی کوریا کی معیشت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ معاشی مفادات کے علاوہ یہاں چین کی اپنی سلامتی کا سوال بھی ہے۔ شمالی کوریا سے دوستی اپنی جگہ، لیکن چین کے لیے اپنے پڑوس میں ایک اور جوہری ریاست قابلِ قبول نہیں، اور جب تک شمالی کوریا جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کرتا رہے گا، علاقے میں کشیدگی اور اس کے نتیجے میں جزیرہ نمائے کوریا میں امریکہ کی عسکری موجودگی کا جواز باقی رہے گا۔ جو چین علاقے کے استحکام کے لیے مناسب نہیں سمجھتا۔ اس لیے چین بھی غیر جوہری کوریا کا حامی ہے۔
شمالی کوریا کے مزاج میں تبدیلی کا پہلا عندیہ اُس وقت ملا جب صدر کم جونگ نے سالِِ نو پر جنوبی کوریا کو دوستی و محبت کا پیغام بھیجا اور سیول کے سرمائی اولمپک میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ شمالی کوریا کے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا اور صدر کم جونگ نے تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ شمالی کوریا کے سربراہ نے کہا کہ ان کے ہتھیاروں کا نشانہ ’اغیار‘ ہیں اور اپنے جنوبی کوریائی بھائیوں کے خلاف جارحیت کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ خیرسگالی کے طور پر سرمائی اولمپک میں شمالی کوریا کے دستے نے جنوبی کوریا کی ٹیم کی حیثیت سے شرکت کی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کم جونگ کی طرف سے خیرسگالی کا اظہار پابندیاں نرم کرانے کی ایک کوشش تھی، لیکن امریکہ بہادر اپنی بات پر اَڑے رہے اور چین نے بھی مستقل مزاجی سے امریکہ کا ساتھ دیا۔
چین کی بے وفائی کی وجوہات بہت معقول ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چین کی ترجیح اس کی معاشیات ہے، اور اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ سیاسی و نظریاتی معاملات پر پسپائی سے بھی گریز نہیں کرتا۔ امریکہ کو چین کی برآمد کا حجم 479 ارب ڈالر سالانہ کے قریب ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی باہمی تجارت کے عدم توازن اور املاکِ دانش (Intellectual Property) کی چوری کا الزام لگاکر چینی درآمدات پر قدغنوں کا آغاز کردیا ہے، چنانچہ بیجنگ شمالی کوریا کے لیے امریکہ سے پنگا لے کر اپنی تجارت کو دائو پر نہیں لگا سکتا، کہ مائوزے تنگ کے دور کی نظریاتی سیاست کا دور اب ختم ہوگیا، اورچینی معیشت کی تعمیرنو سرمایہ دارانہ فلسفے کے تحت کی جارہی ہے۔ عالمی تنہائی کا شکار شمالی کوریا کے لیے چین کی طرف سے سردمہری کے بعد اپنے پیروں پر کھڑا رہنا ممکن نہ رہا، چنانچہ اب کم جونگ باعزت پسپائی کا راستہ اختیار کرتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے بیانات میں انھوں نے تحفظ کی ضمانت پر جوہری پروگرام سے دست برداری پر آمادگی ظاہر کی اور کہا کہ شمالی کوریا اس معاملے پر امریکہ سے براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
کم جونگ کے دورۂ چین کے بارے میں مختلف باتیں کہی جارہی ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کا دورۂ چین دراصل پُروقار پسپائی کا راستہ تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جبکہ چند دوسرے سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ کم جونگ کی جانب سے صدر ٹرمپ کو مذاکرات کی براہِ راست پیشکش چینی قیادت کو پسند نہیں۔ علاقے کے ’بڑے‘ کی حیثیت سے چین اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ جنوبی کوریا کے بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ چین کی بے وفائی پر کم جونگ دل شکستہ ہی نہیں بلکہ خاصے مشتعل ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جوہری پروگرام سے دست برداری کے ساتھ جنوبی کوریا اور امریکہ سے قریبی تعلقات قائم کرکے چین کو سبق سکھایا جائے۔ اس ضمن میں شمالی اور جنوبی کوریا کی ایک کنفیڈریشن بھی زیرغور ہے۔ اس کنفیڈریشن کی افواہ کو تقویت اُس وقت ملی جب گزشتہ ہفتے دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں جنوبی کوریا کی قیادت کوریا انضمام کے وزیر چو میونگ جیان (Cho Myoung- Gyon)نے کی۔ خیال ہے کہ ان افواہوں کی تردید یا تصدیق اور چین سے بالا بالا براہِ راست بات چیت کا ڈول ڈالنے پر ناراضی کے اظہار کے لیے ہی کم جونگ کو بیجنگ طلب کیا گیا تھا۔
کم جونگ کے دورۂ چین کو خفیہ رکھنے کی کوشش سے بھی دال میں کچھ کالا کا پتا چلتا ہے۔ افواہوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی نے کم جونگ کی خاندانی ریل گاڑی کی چین کی جانب روانگی کا انکشاف کیا۔ یہ گہرے سبز رنگ کی بلٹ پروف ریل گاڑی شمالی کوریا کے بانی اور کم جونگ کے دادا کم ال سنگ نے اپنے سفر کے لیے بنوائی تھی۔ کم ال سنگ اور اُن کے بعد اقتدار سنبھالنے والے کم جونگ دوم (موجودہ سربراہ کے والد) بین الاقوامی سفر سے پرہیز کرتے تھے۔ اپنے دورِ اقتدر میں وہ صرف چین اور روس گئے اور ہر دفعہ یہی ریل گاڑی استعمال کی۔ کم جونگ دوم کے دورِ اقتدار میں اس ریل گاڑی کی تزئینِ نو گئی۔ کھڑکیوں میں دبیز شیشے اور باہر گہرے سیاہ رنگ پر رات کو جھلملاتی پیلی پٹی بنائی گئی۔ ریل میں ایک جدید شراب خانہ اور رقص کدہ قائم کیا گیا۔ آرام دہ خواب گاہوں، ورزش کے کمرے اور ایک سماعت گاہ سمیت یہ ریل گاڑی اب 21 ڈبوں پر مشتمل ہے اور ہر ڈبہ ایک بکتربند گاڑی ہے۔ بھاری وزن کی وجہ سے اس ریل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 60 میل فی گھنٹہ ہے۔ جب اس ریل گاڑی کی چین کی طرف روانگی کا انکشاف ہوا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کم جونگ کی ہمشیرہ کم یو جونگ اپنے حکمران بھائی کا خصوصی پیغام لے کر بیجنگ جارہی ہیں۔ لیکن دوسرے دن چینی وزارتِ خارجہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ کم جونگ ان اپنی اہلیہ کے ہمراہ بیجنگ آئے ہیں۔ یہ 2011ء کے آخر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کم جونگ کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق کم جونگ نے چین کے صدر ژی سے ملاقات کی، اور چینی صدر نے اپنے کوریائی مہمان کے اعزاز میں ایک پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا۔ سرکاری ملاقات میں صدر ژی کے علاوہ وزیراعظم لی کیویانگ (Li Keqiang) اور چین کے نائب صدر وانگ قیشن (Wang Qishan) نے بھی شرکت کی۔ مسٹر وانگ جناب ژی کے بہت قریب اور اُن کے کلیدی مشیر ہیں، اور کم جونگ سے ملاقات میں چینی نائب صدر کی شرکت کو سیاسی تجزیہ نگار بہت اہمت دے رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ چینی صدر کے ترجما ن نے واشنگٹن فون کرکے اپنے ہم منصب کو کم جونگ کے دورے اور صدر ژی سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔ چینی خبر رساں ایجنسی نے اس دورے کی جو وجہ بیان کی ہے اُس کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما جزیرہ نمائے کوریا میں ہونے والی تبدیلیوں اور امن کی کوششوں کے بارے میں اپنے ’دوست‘ کو بالمشافہ بتانا چاہتے تھے۔ چینیوں کا کہنا ہے کہ کم جونگ جنوبی کوریا سے قریبی اور دوستانہ تعلقات کے بارے میں پُرعزم ہیں اور وہ جوہری تنازعے کو حل کرنے کے لیے امریکی صدر سے ملاقات کے لیے بھی تیار ہیں۔ امریکی صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے کو تیار ہے لیکن اس سے پہلے وہ اپنے تحفظ کی ضمانت چاہتا ہے اورکم جونگ نے اسی موضوع پر چینی صدر سے بات کی ہے۔ پروگرام کے مطابق اب 27 اپریل کو کم جونگ جنوبی کوریا کے صدر سے براہِ راست ملاقات کریں گے، جس کے بعد مئی میں شمالی کوریا کے سربراہ کی صدر ٹرمپ سے ملاقات متوقع ہے۔ خیال ہے کہ امریکی صدر سے بات چیت کا ایک نکاتی ایجنڈا بھی شمالی کوریا اور کم جونگ کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کو امید ہے کہ شاید انھیں بھی صدر روزویلٹ کی طرح امن کا نوبیل انعام مل جائے۔