شاید ساٹھ لاکھ سال، یا پچیس لاکھ سال؟ بلاشبہ، انسان پرلاکھوں نامعلوم سال گزر چکے۔ ہم تاریخ کے صرف چھے ہزار سال سے واقف ہیں۔ واقفیت کا یہ دعویٰ بھی محلِ نظرہے۔ اُس پر مستزاد یہ کہ مغرب نے اکثر زمانہ اپنی ہی تاریخ کا طواف کیا ہے۔ بقول اسولڈ اشپنگلر: مغرب اپنی تاریخ کو چاند سمجھ کر دیکھتا ہے، جو قریب اور چمک دار ہے، مگر وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ پس منظر میں چھوٹے چھوٹے نظر آنے والے بڑے بڑے زہرہ اور مشتری عظیم تر ہیں۔ تاریخ تمام کائنات پرمحیط ہے۔ کروڑوں میل دور اَن گنت کہکشائیں ہیں۔ یقینا انسانی علم یہاں نارسا ہے۔
یوں تاریخ کی بے شمار نامعلوم صدیوں کے حقائق کس طرح سمجھے جاسکتے ہیں؟ ظاہر ہے، جوکچھ آثار ملے ہیں وہ ظن و قیاس پر مبنی تاریخ ہوسکتے ہیں، جس پر قیاسات کی بودی عمارت تو اٹھائی جاسکتی ہے، تاریخ کا کوئی فلسفہ نہیں گھڑا جاسکتا۔ یعنی ہر علم کا کثیر اور فیصلہ کن حصہ ’وحی الٰہی‘ کا محتاج ہے۔ تاریخ سے ہماری واقفیت کا کلی انحصار مستند مابعدالطبعیاتی علم پر ہے، جو ہمیں انبیاء کی تعلیمات سے ہی ملتا ہے۔ ان تعلیمات میں بھی صرف قرآن و سیرتِ رسولؐ ہی واحد ذریعہ’علم الاصل‘ ہے۔ مثال کے طور پر اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم سے پہلے تم سے زیادہ طاقتور اور سرکش قومیں گزریں، جنہیں نافرمانی پر اس طرح مٹادیا گیا کہ جیسے ان کا وجود کبھی تھا ہی نہیں۔
زمین کی تاریخ کائنات کا ہی مختصرسا حصہ ہے، اسے کائنات سے الگ کرکے نہ دیکھا جاسکتا ہے نہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مؤرخین کی کوششیں عموماً اس سمت پر نہیں ہوئیں، اور جہاں ہوئیں وہاں بھی مابعدالطبعیات کا تعارف نہ ہونے جیسا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفۂ تاریخ کا سارا سفر سوالات کا سفر رہا۔ ہمیشہ سوالوں اور جوابوں کی سمت اور رجحان پر ہی زادِ راہ اور نشانِ منزل کا تعین ہوا۔ سوال جس دائرے میں ہوا، اُسی دائرے میں جواب تک رسائی پاسکا۔
تاریخ کی ابتدا اتمامِ حجت ہی سے ہوئی تھی۔ زمین پر زندگی کے اصول وقوانین سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ جوں جوں انسان بڑھتے گئے، خاندان بنتے گئے، قبائل پھیلتے گئے۔ توحید، یکجہتی اوراتحاد شرک، دشمنی اورتصادم بنتے گئے۔ علم الاصل گم ہوتا گیا۔ انسان مسائل میں گھرتا چلا گیا۔ ہرطرف سے سوالوں نے آلیا۔
اس صورتِ حال کا انبیاء و رسل نے تواتر سے سامنا کیا۔ اتمام حجت کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ بڑے بڑے معاشرے وحی الٰہی پر استوار ہوئے، مگر علم الاصل کے دشمن بگاڑ لاتے رہے، علم الوحی مسخ کرتے رہے۔ یہ تشکیک کے بیج بوتے رہے۔ حرص وہوس میں پڑ کر سچ کا استیصال کرتے رہے۔
بگاڑکا یہ سلسلہ سوالوں کا اذیت ناک تسلسل بنتا گیا۔ ہندو تہذیب دیوی دیوتاؤں کی داستانیں بن کر رہ گئی۔ یونانی تہذیب نے بہت سے خداؤں کی پیروی میں خودکشی کرلی۔ رومی تہذیب طاقت کے نشے میں چُور چُور ہوئی۔ عیسائی تہذیب سوالوں کا لامتناہی سلسلہ بن کر رہ گئی۔ یہودی تہذیب پر سوالیہ نشان لگ چکے تھے۔ قریب قریب ہر تہذیب کے عروج و زوال کا یہی بنیادی سبب سامنے آیا کہ علم الاصل بگاڑا گیا۔
تاریخ کے ہر مرحلے پر سوال پلٹ پلٹ کر مزاحم ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حتمی حکمِ الٰہی آگیا:
(ترجمہ) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو بطوردین یعنی مکمل نظامِِ حیات کی حیثیت سے پسند کرلیا۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا، جب انسانیت روم و فارس کی سلطنتوں تلے سسک رہی تھی۔ مغرب میں عیسائیت اور یہودیت متحارب خطوط پر پیش رفت کررہی تھیں۔ آئندہ چند صدیوں میں یہ بتدریج مغربی تہذیبِ جدید میں گم ہوگئیں۔ تہذیبوں کے تمدنی عروج و زوال سے قطع نظر، یہاں یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے کہ بناؤ اور بگاڑ کی روح ہمیشہ ایک ہی رہی ہے۔ اس کا مشاہدہ ومطالعہ اسلام اور جاہلیت کی مسلسل کشمکش میں کیا جاسکتا ہے۔
آج کی دنیا میں بناؤ اور بگاڑ کی یہ کشاکش فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ مغربی تہذیب یونانی اوررومی تہذیبوں کا جدید ورژن ہے۔ جرمن مؤرخ اسولڈ اشپنگلر نے کیا خوب تجزیہ کیا ہے، وہ لکھتا ہے: ’’رومی عالمی قوت ایک منفی مظہر ہے۔ ان کی قوت کا راز ہمسایہ اقوام کی کمزوری تھی جو اپنا دفاع نہ کرسکتی تھیں۔ رومی شہنشاہیت کا وجود تمام مشرق کی کمزوری کے سبب قائم ہوا۔ اسی لیے رومیوں کی فوجی کارروائیاں متاثر کن نہ تھیں۔ رومی دور کی بیشتر تمام بڑی لڑائیوں میں رومی فتوحات حالات کی موافقت کے سبب تھیں۔ سامراج خواہ کہیں بھی ہو، ایک دن مُردہ صفت کھڑے ہوکر اس کے ٹکڑے اڑا دیں گے، اور یہ امتدادِ زمانہ کہلائے گا۔ سامراج کے خالص تہذیبی تناظر میں مغرب کا انجام نمایاں ہے۔ ہمارا عہد ایک عبوری دور کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ بعض ناگزیر حالات کا نتیجہ ہے۔ ماضی کی مثالوں کی طرح اب مغربی یورپ کی باری ہے۔ مغرب کا مستقبل غیر محدود طور پر رفعت پذیر نہیں رہے گا۔ مگر یہ تاریخ کا ایک مظہر ہے جس کی ہیئت اور مدت طے ہوچکی ہے‘‘۔ ہم اگر یوں لکھیں تو غلط نہ ہوگا کہ امریکی و یورپی عالمی قوت ایک منفی مظہر ہے۔ اس کی قوت کا راز تیسری دنیا کی کمزوری ہے جو اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔ امریکی و یورپی سامراجیت کا وجود تمام مشرق کی کمزوری کے سبب قائم ہوا۔ اسی لیے اتحادیوں کی فوجی کارروائیاں متاثر کن نہیں ہیں۔ امریکی دورکی بیشتر تمام بڑی لڑائیوں میں امریکی چیرہ دستیاں حالات کی موافقت کے سبب تھیں۔ آج مغربی سامراج کے خالص تہذیبی تناظر میں مغرب کا انجام نمایاں ہے… مغرب کا مستقبل رفعت پذیر نظرنہیں آرہا۔ یہ تاریخ کا ایک سچ ہے، اس کا مقدر طے ہوچکا ہے۔ گو مغرب کے اہم دانشور اور مؤرخ اس صدمے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔
اسلامی تہذیب پرنگاہ ڈالیے۔ عالم ِاسلام کی موجودہ صورتِ حال سے واضح ہے کہ عروج وزوال کا منطقی عمل انجام سے دوچارہے۔ التہذیب الخاتم کے پیروکار عالمِ پیری میں ہیں۔ نبی آخرالزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے’’بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی، دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر، مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا، اور یہ بدی کا مشاہدہ اس کو اُس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اورکھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا، جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑگیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا، اور ان کے نبی داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔ قسم ہے اس ذاتِ پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو، اور جس کو برا فعل کرتا دیکھو اُس کا ہاتھ پکڑلو اور اُسے راہِ راست کی طرف موڑ دو، اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو۔ ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔‘‘
ظاہر ہے، مستقبل پر اٹھنے والے سب سے زیادہ سوالیہ نشان اسلامی تہذیب کے آگے لگے ہیں۔ اگر اسلامی تہذیب ’التہذیب الخاتم‘ ہے تو اس کی کیا دلیل ہے؟ اگر مسلمان سوادِ اعظم پر جہل چھایا ہے، تو پھر کامل انسانی تہذیب کے مہذب ترین مسلمان کون ہیں یا ہوسکتے ہیں؟ آئندہ اسلامی تہذیب کے خدوخال کیا ہوسکتے ہیں؟ یا ہونے چاہئیں؟
ان سوالوں پر فکر و نظرسے پہلے، عظیم محقق اور عالم پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کتاب ’’اسلام کا فلسفۂ تاریخ‘‘ سے علم کا کچھ حصہ بصد شکر و احسان لیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ایک ضروری بات جو قابلِ توجہ ہے وہ یہ کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق کوئی مخصوص فرد یا گروہ نائبِ خدا نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کو یہ فضیلت عطا کی گئی ہے اور دنیا کا ہر فرد خلیفۂ خدا ہونے کی حیثیت سے دوسرے انسانوں کے برابر ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے جس چیز کا مطالبہ کرسکتا ہے، وہ صرف یہی ہے کہ وہ آقا کے حکم اور اس کی ہدایت کی پیروی کرے۔ اس معاملے میں پیروی کرنے والا اطاعت کیش، اور پیروی نہ کرنے والا باغی اور سرکش ہے۔ کیونکہ جو نیابت کا حق ادا کرتا ہے، وہ حقِ نیابت نہ ادا کرنے والے سے بہتر ہے۔‘‘
یہ اقتباس التہذیب الخاتم کی تشکیل و تکمیل کی جو راہ متعین کررہا ہے، اُسی راہ پر مذکورہ سوالوں کی رہنمائی ہوسکتی ہے۔ اسلامی تہذیب ہی التہذیب الخاتم ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ علم الاصل حتمی وکامل صورت میں رہنمائی کررہا ہے۔ علم الوحی کی نعمت تمام ہوچکی ہے۔ اب قیامت تک انسانی تہذیب کی حکمت و عظمت قرآن حکیم کی پیروی میں ہی مضمر ہے۔ التہذیب الخاتم کے نمائندہ انسان وہ عالم و عامل ہوسکتے ہیں، جو موروثی و نسلی جمود کا حصہ نہیں ہیں۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ اگر تم نہیں اٹھوگے تو ہم تمہاری جگہ دوسری قوم کو اٹھائیں گے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ مشرق میں مسلمان حکومتیں اور علماء و زعماء کردار کے بحران میں مبتلا ہیں، جبکہ مغرب میں مسلمان براہِ راست تہذیبی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی میں نومسلم اور مہاجرین کی بودو باش اور تہذیبی نفوذ کفر کی نیندیں اڑا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مضمون یہاں کفایت کرے گا۔ یہ مغرب کی درجن بھر نیوزویب سائٹس پر شائع کیا گیا… “UK Islamization: Full Speed Ahead” کے عنوان سے Judith Bergman نے برطانیہ میں اسلام کے فروغ پر ماتمی رپورٹ لکھ ڈالی ہے۔ یہ مضمون کہتا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے فروغ پارہا ہے، اور اس معاملے میں برطانوی اسٹیبلشمنٹ غافل نظر آرہی ہے۔ مضمون میں ہینری جیکسن سوسائٹی کی رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی ٹیکس دہندگان کا پیسہ اسلامی فلاحی اداروں پر خرچ کیا جارہا ہے۔ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگر یہ اسلامی فلاحی ادارے یوں ہی توانا ہوتے رہے تو ’انتہا پسندی‘ مقامی آبادی کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں مسلمان تہذیبی کشمکش کا سرگرم حصہ ہیں۔
یقینا جب بنی اسرائیل خدا کے چنیدہ نہیں ہیں، تو موروثی ونسلی و بے عمل مسلمان بھی خدا کے چہیتے نہیں ہیں۔ یہ مبنی برانصاف بھی نہیں۔ یہ وضاحتی اور شرمندہ مسلمانوں کا کام ہی نہیں کہ عظیم انسانی تہذیب کی تشکیل وتکمیل میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔
بلاشبہ دنیا بھرکے سعید فطرت انسانوں کا یہ حق مبنی برانصاف ہے کہ آخری کامل انسانی تہذیب میں تعمیری کردار ادا کرسکیں۔ یہ وہ نفوس ہوسکتے ہیں، جو ہر خطۂ زمین سے علم و تحقیق اور عمل کا وہ جامع نمونہ پیش کرسکیں جنہیں التہذیب الخاتم قرار دیا جاسکے۔
مسلمانوں کے لیے وہی راہِ عمل موزوں ہے، جو اسلامی تہذیب کی تشکیل و تکمیل کی تفہیم تک رہنمائی کرسکے۔