2 سال سے لے کر 6 سال کی عمر کے بچوں کو ساتھ لانے والی اکثر مائیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ بچہ رات کو سوتے میں دانت پیستا ہے، منہ سے رال ٹپکتی ہے، صبح اٹھتے ہی پیٹ میں درد کی شکایت کرتا ہے، پیٹ میں گڑگڑ کی آوازیں آتی ہیں، کبھی پیٹ میں اپھارہ ہوجاتا ہے۔ کسی بچے کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ کھاتا پیتا خوب ہے پھر بھی اس کو فوراً بھوک لگتی ہے، لیکن اس کے چہرے کا رنگ زرد ہے، آنکھوں میں چمک نہیں۔ کوئی ماں یہ شکایت کرتی ہے کہ بھوک نہیں لگتی اور بچہ شکایت کرتا ہے کہ اسے گھبراہٹ ہوتی ہے، دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ کبھی شکایت ہوتی ہے کہ بچے کو آنکھوں کے سامنے اندھیرا محسوس ہوتا ہے، چکر آتے ہیں، معدے میں کوئی شے چاٹتی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ مائیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ بچہ رات کو بستر پر پیشاب کرتا ہے۔
یہ تمام شکایات عام معالج کو دھوکا دیتی ہیں۔ وہ معدے کا علاج، خون کی کمی کو دور کرنے کے لیے فولاد کے مرکبات کا استعمال یا معدے کے درد اور بھوک کی دوائیں استعمال کراتا ہے، لیکن اس کی ساری محنت ضائع ہوجاتی ہے۔ درحقیقت یہ ساری علامات بچوں کے پیٹ اور انتڑیوں میں مختلف کیڑوں کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں۔ دیدانِ اعضاء (پیٹ کے کیڑے) ایسا مرض ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اب خصوصاً یہ بچوں کا مرض نہیں بلکہ کیچوے اور چنونے تو ایسے کیڑے ہیں جو ایک سال کی عمر کے بچوں سے لے کر سن رسیدہ افراد تک میں پائے جاتے ہیں۔ اس میں عورت اور مرد کی تخصیص بھی نہیں، بلکہ بچے، بوڑھے، مرد، خواتین میں عمر کی قید کے بغیر ان کیڑوں کی موجودگی پائی جاتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، بچوں میں 90 فیصد اور بڑوں میں 50 سے 60 فیصد لوگوں کے پیٹ میں یہ کیڑے اپنی ’’بستیاں‘‘ آباد کیے ہوئے ہیں۔
پیٹ کے کیڑوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض:
یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ پیٹ کے کیڑوں کی موجودگی کون کون سے امراض کو جنم دیتی ہے، لیکن چند ایسے امراض ہیں جن کا بنیادی سبب یہی کیڑے ثابت ہوتے ہیں۔ بچوںکے منہ سے رال کا ٹپکنا، سوتے میں بے قراری، چنونوں کے کاٹنے سے متعدی خارش (خصوصاً کم عمر کے بچے جو مرض بیان نہیں کرسکتے)، بھوک کی وجہ سے گھبراہٹ کا ہونا، سوتے میں خوف اور ڈرائونے خوابوں کا آنا، بچوں کا ناخن کاٹنا، رنگ کا زرد ہونا، سر درد کی اکثر شکایت، بے ہوشی اور مرگی کے دورے… بعض خواتین میں لیکوریا، بڑوں میں مقعد کی خارش، پیٹ میں درد کا اٹھنا، اپھارہ کا ہونا، بچوں کا بستر پر پیشاب کرنا… یہ چند امراض ہیں جن کا اگر پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ کرکے علاج کیا جائے تو بہت جلد کامیابی ہوتی ہے۔
پیٹ کے کیڑوں کی اقسام:
اگرچہ مختلف علاقوں، مختلف ممالک اور مختلف موسمی حالات، اور خوراک کے ناقص ہونے کی وجہ سے پیٹ کے کیڑوں کی بہت سی اقسام ہیں، تاہم پاکستان کے اکثر علاقوں میں پائے جانے والے اہم کیڑے حسب ذیل ہیں:
-1 کیچوے (کلپ) Round Worm
-2 چنونے (چھونے) Thread Worm
-3 کدو دانے (حب اتوع) Tape Worm
-4 کنڈی دار کیڑے Hook Worm
کیچوے (کلپ):
گندی زمین کو کھودنے سے جس طرح لمبے کیچوے زمین سے بل کھاتے نکلتے ہیں، اسی طرح کیچوے امعاد مستقیم میں موجود ہوتے ہیں۔ عام مریض کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے پیٹ میں کیچوے ہیں، لیکن قدرتی طور پر یا کسی غذا کے کھانے سے ردعمل کے طور پر یہ کیچوے ایک دو نکلتے ہیں جن کی لمبائی بعض دفعہ ایک فٹ تک بھی ہوتی ہے اور اکثر سانپ کی طرح قدرے موٹے اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں، کبھی خون پینے کی وجہ سے سرخ ہوتے ہیں، کبھی سیاہی مائل۔ بچے تو بچے ہیں، بڑے بھی پاخانہ میں کیچوے کو تڑپتے دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اکثر یہ نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ ایک کیچوا نکلتا ہے تو چند دنوں کے بعد دوسرا بھی نکلتا ہے، یا مریض خوف زدہ ہوکر دوا کھاتا ہے تو باقی ماندہ کیچوے بھی مر کر نکلتے ہیں۔
کیچوے موجود ہوں تو بھوک زیادہ لگتی ہے۔ اگر مریض خالی معدہ ہو تو خوراک کی تلاش میں کیچوے امعاد مستقیم سے معدہ تک آجاتے ہیں اور مریض شکایت کرتا ہے کہ کوئی اس کے کلیجے کو چاٹتا ہے۔ اکثر صبح کو اٹھتے ہی مریض کو بھوک کی وجہ سے کپکپی محسوس ہوتی ہے۔ جوں ہی وہ کچھ خوراک لے لیتا ہے اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ کیچوے ’’جوان‘‘ ہوکر یا کسی دوا کے کھانے سے نکل جائیں تو آنتوں کی حرارت اور رطوبت اس کے انڈوں سے بچے نکالنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کردیتی ہیں۔ چند دنوں کے بعد کیچووں کی نئی نسل پروان چڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔
-2 چنونے (چھونے):
سفید رنگ کے ایک ملی میٹر سے لے کر 2 سینٹی میٹر تک سفید دھاگے کے رنگ کے یہ کیڑے انتڑیوں اور معدے کی چنوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی تعداد بعض اوقات سینکڑوں تک ہوجاتی ہے۔ ان کیڑوں کا درمیانی حصہ قدرے موٹا اور دونوں طرف سے باریک سرے ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات پاخانہ سے پہلے سرِشام اور سونے سے پہلے زیادہ تر بچوں، اور کبھی کبھی بڑوں میں یہ مقعد کا رخ کرتے ہیں۔ بچہ مقعد میں کھجلی کرتا ہے اور یہ حرکت میں محسوس ہوتے ہیں، اور کبھی کاٹنے کی شکایت کا سبب بنتے ہیں۔ بچہ پیٹ میں اور مقعد میں درد کی شکایت کرتا ہے۔ ان کی ’’بستیاں‘‘ آباد ہوتی ہیں اور ان کی نشوونما بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں قسم کے کیڑے خوراک بھی چٹ کر جاتے ہیں اور اپنے Host کا خون بھی پیتے ہیں۔ پنجاب کے اکثر علاقوں میں 80 فیصد سے زائد بچوں میں یہ کیڑے موجود ہیں۔
کدودانے:
یہ اگرچہ کم مریضوں میں پائے جاتے ہیں لیکن کیچووں اور چنونوں کی نسبت یہ زیادہ ہٹیلی قسم ہے اور بہت سے دیگر امراض کا سبب بنتی ہے۔ جب یہ پاخانہ میں خارج ہوتے ہیں تو چھوٹے مٹر کے دانے کے برابر سفید رنگ کے گول انڈے معلوم ہوتے ہیں لیکن جلد ہی پھیل کر نیچے سے چوڑے، اوپر سے دندانے دار ہوجاتے ہیں۔ چونکہ ان کی شکل کدو کے دانے کی طرح ہوتی ہے اس لیے انہیں کدو دانے کہا جاتا ہے۔
کدو دانے (Tape worm )دراصل فیتے کی طرح کٹ کر پاخانہ میں خارج ہوتا ہے۔ ماہرینِ طب کا خیال ہے کہ جب تک اس کا سر کچلا نہ جائے یہ فیتہ نما کیڑا زندہ رہتا ہے، اور جتنا حصہ خارج ہوتا ہے دوبارہ بن جاتا ہے۔ طبی روایت یہ ہے کہ یہ موروثی طور پر منتقل ہوتا ہے۔
کنڈی دار کیڑے:
ان کیڑوں کی بناوٹ سر کی طرف کنڈی دار ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ خطرناک کیڑا اپنی کنڈی کو خون کی شریانوں میں پیوست کرتا ہے اور خون پیتا ہے۔ جب بچہ صبح اٹھتا ہے، خالی معدہ ہوتا ہے تو یہ کیڑے اس کا خون پیتے ہیں۔ اکثر ناف کے قرب و جوار میں مریض شدت کا درد محسوس کرتا ہے۔ جوں ہی کوئی خوراک لی جاتی ہے یہ کیڑے کنڈی نکال کر خوراک کو جذب کرنا شروع کرتے ہیں۔ جب بچہ شکایت کرے کہ صبح اٹھتے ہی اسے پیٹ میں درد ہوتا ہے اور ناشتا کرنے کے بعد درد ختم ہو جاتا ہے تو بلا تردد Hook Worm کا علاج کرنا چاہیے۔
دیدان امعاء کے اسباب:
پیٹ کے کیڑوں کے اسباب کے بارے میں قدیم و جدید طب متفقہ رائے رکھتی ہے کہ گندے اور آلودہ ہاتھوں سے کھانا (اسلام میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی، ہاتھ دھوکر کھانے کی تلقین کی اہمیت کی سائنس نے تصدیق کردی ہے) اور ہمارے ہاں پینے کا گندا پانی ان کیڑوں کو دوسروں تک منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اکثر محققین کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو سبزیاں مثلاً گاجر، مولی، شلجم، کدو، بھنڈی، ٹنڈے وغیرہ استعمال کیے جارہے ہیں ان کی پرورش کے لیے جو پانی بڑے شہروں کے قریب گندی نالیوں اور نالوں کے ذریعے دیا جارہا ہے وہ پیٹ کے کیڑوں کے انڈوں سے لبریز ہے۔ جس پانی سے ان سبزیوں کو دھویا جاتا ہے وہ آلودہ ہے (پرانے دور کا کسان رمبٹ کے تازہ پانی سے سبزیوں کو دھوتا تھا)۔ برتن جو ہوٹلوں میں، بینکویٹ ہالوں میں اور اکثر گھروں میں رواجاً ملازموں سے لاپروائی سے دھلوائے جاتے ہیں اُن کے ذریعے ان کیڑوں کے انڈے منتقل ہوتے ہیں۔
جن مریضوں کے پیٹ میں کیڑے ہوتے ہیں، جب وہ اجابت کے بعد آب دست کرتے ہیں تو ان کیڑوں کے انڈے ناخنوں کے ذریعے خوراک میں منتقل ہوتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ خواتین جن کے رواجاً لمبے لمبے ناخن ہوتے ہیں یا مصنوعی ناخن لگواتی ہیں (جو شرعاً حرام اور طبی نکتہ نظر سے نقصان دہ ہے) جلد ان کیڑوں کو پرورش دینے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
علاج:
کیڑوں کی تشخیص اگرچہ عام علامات سے ہوتی ہے، لیکن جدید لیبارٹری کے ذریعے پاخانہ کا چیک کرانا علاج میں معاون ہے۔ یہ طے کرنا کہ کون سے کیڑے ہیں، اس کے مطابق دوا کا استعمال زیادہ مفید ہے۔ قدیم طب میں جو ادویہ مذکور تھیں اولاً تو وہ خالص نایاب ہیں، دوم وہ اتنی کڑوی اور کسیلی ہیں کہ بچے کھا ہی نہیں سکتے یا قے آجاتی ہے۔ باڑبڑنگ کا تذکرہ قدیم طب میں ہے، اگر یہ خالص مل جائیں تو کیپسول بھر کر بڑوںکو دی جاسکتی ہیں جو جدید ادویہ کی نسبت زیادہ مؤثر اور سائید افیکٹ سے پاک ہیں۔
پیٹ کے کیڑوں کے بارے میں یہ تصور کہ ایک بار دوا سے ختم ہوں گے، غلط ہے۔ ایک دفعہ دوا دینے کے بعد بیس یوم کے بعد دوبارہ دوا دیں تو ممکن ہے کہ احتیاط کرنے کے بعد دوبارہ نہ ہوں۔ تاہم چند مجرب نسخے درج ہیں:
-1 آڑد کے پتے گھوٹ کر چینی ملاکر پلانا ہر قسم کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے۔
-2 ہوالشافی: انار کے درخت کی چھال کا اندرونی حصہ کوٹ کر سفوف بنا لیں۔ گڑ کی مدد سے گولیاں بنائیں اور روزانہ رات کو مسلسل ایک دو گولی دیں، مکمل خاتمہ ہوگا۔
-3 باڑبڑنگ: کالی مرچ کے سائز کے دانے بنا لیں، پھر اس کو کوٹ کر یا پیس کر گڑ سے گولیاں تیار کرکے لمبے عرصے تک دیں۔