رواں ہفتے میں تین مختلف مقامات پر بے دردی، سفاکی اور درندگی سے مسلمانوں کا خون بہادیا گیا۔ 30 مارچ کو یوم الارض کے موقع پر فلسطینی مسلمان اپنی سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے خلاف پُرامن احتجاج کرتے ہوئے میدان میں نکلے تو اسرائیلی فوج نے پانچ مختلف مقامات پر فائرنگ اور شیلنگ کرکے نہتے مظاہرین کو خون میں نہلادیا۔ اسرائیلی فوج نے نہتے مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ کرتے ہوئے صرف ایک دن میں 20 فلسطینیوں کو شہید کردیا جبکہ 1400 سے زائد فلسطینی باشندے شدید زخمی کردیے گئے۔ فلسطینیوں نے ’’یوم الارض‘‘ منانے کا فیصلہ 1976ء میں کیا تھا، جب اسرائیل نے فلسطین کی 15 لاکھ ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ شروع کیا تھا۔ فلسطینیوں کی شہادت اور بے گھری کا سلسلہ جاری ہے اور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ ابھی فلسطینیوں کے قتلِ عام سے عام مسلمان صدمے کا شکار تھے کہ اسرائیل کے اتحادی ملک بھارت نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہی دن میں 20 کشمیری نوجوانوں کو شہید جبکہ 200 سے زائد مظاہرین کو پیلٹ گنوں سے زخمی کردیا۔ حالیہ برسوں میں کشمیر میں ایک ہی دن میں یہ سب سے زیادہ جانی نقصان بتایا جاتا ہے۔ صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زبانی ہی سہی، اقوام متحدہ اور عالمی تنظیمیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شوپیاں، پلوامہ اور سری نگر میں بھارتی فوج کی درندگی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ بھارتی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر عالمی عدالت میں مقدمہ درج کرائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ مشن کی نمائندہ تنظیموں کو صورتِ حال کا مشاہدہ کرنے کے لیے جانے کی اجازت دی جائے۔ لیکن بھارت کی حکومت اور اُس کی عالمی سرپرست طاقتیں ایسا نہیں ہونے دیں گی تاکہ بھارت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہوسکے۔ فلسطین اور کشمیر کے بعد افغانستان کے شمالی علاقے قندوز میں ایک مدرسے پر فضائی بمباری کردی گئی۔ اس وقت مدرسے میں فارغ التحصیل طلبہ کی دستار بندی کی تقریب جاری تھی جس میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔ ذرائع کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں اموات کی تعداد 170 سے متجاوز ہے جن میں طلبہ، اساتذہ اور عام شہری شامل ہیں۔ قندوز کے ضلعی گورنر نے 70 علماء و طلبہ اور عام شہریوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق اسے مقامی کسان نے بتایا کہ مدرسے میں ہونے والی تقریب میں بڑی تعداد میں عام شہری موجود تھے جن کی بڑی تعداد طلبہ یعنی بچوں پر مشتمل تھی۔ افغانستان پر امریکہ 17 برسوں سے جدید جنگی ٹیکنالوجی کی مدد سے قابض ہے۔ یہ افغانستان کی صرف ایک دن کی روداد ہے، جس سے صورتِ حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ صرف ایک ہفتے کے اندر تین مختلف مقامات فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے نہتے مسلمانوں کے خلاف انسانیت کُش اور اسلام و مسلم دشمن طاقتوں نے درندگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغانستان پر امریکہ براہِ راست قابض ہے اور وہ غیرت مند اور آزادی پسند افغانوں کا قتلِ عام کررہا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی بھی امریکہ کررہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے اندر فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں عام مسلمانوں کو خون میں نہلا کر یہ پیغام دیا گیا کہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، مسلمان اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، باعمل ہوں یا بے عمل… دنیا کے ہرخطے میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جنگ تیز کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کو کھل کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ تو اُس وقت سے موجود ہے جب اقوام متحدہ کے نام سے ایک عالمی ادارہ قائم کیا گیا تھا، اور اس دعوے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ دنیا میں امن کا دور آگیا ہے، جنگوں کا دور ختم ہوگیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہ ادارہ پانچ عالمی طاقتوں کی مصلحت کا پابند ہے۔ مسئلہ کشمیر اوّل دن سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے، اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرارداد کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ انہی عالمی طاقتوں نے فلسطین کی سرزمین پر یورپ سے صہیونی یہودیوں کو لاکر آباد کیا ہے اور ایک ناجائز ریاست قائم کی ہے۔ امریکی اور یورپی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کی فوج اور حکومت نے اپنے بے بس شہریوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ وہ عالمی طاقتیں اور ادارے جنہوں نے دہشت گردی کو سب سے بڑا عالمی مسئلہ بنایا ہوا ہے انہوں نے ظالم اور غاصب حکومتوں کو اپنے ہی شہریوں کا قتلِ عام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے، صرف اجازت ہی نہیں دی ہے بلکہ یہ کام ان کی سرپرستی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ مسئلہ اب فلسطین اور کشمیر کا نہیں رہا، افغانستان اور عراق پر تو براہِ راست قبضہ کیا ہوا ہے۔ کسی بھی ملک میں مسلمانوں کو سکون سے جینے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام مسلمان حکومتیں اپنے اقتدار کے لیے عالمی طاقتوں کی محتاج ہیں۔ جس طرح شام، لیبیا اور یمن میں آمریتوں کے خلاف عوامی سیاسی تحریک کو خانہ جنگی میں تبدیل کیا گیا ہے، اس میں مدد مسلم حکمرانوں نے کی ہے۔ اب تو امریکہ اور بھارت میں ٹرمپ اور مودی جیسے حکمران سامنے آگئے ہیں جو کھل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی دشمنی کا اعلان کررہے ہیں، لیکن کسی بھی مسلمان حکومت کی جانب سے کسی قسم کی بھی عملی مزاحمت نظر نہیں آرہی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ معمولی سی بھی مزاحمت کرنے والے حکمرانوں کو نشانِ عبرت بنادیتا ہے۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صرف مزاحمت میں ہی زندگی ہے، اس لیے کہ اصل قوت و طاقت رب العالمین کے پاس ہے۔ کسی فرعون اور نمرود کو مستقل اقتدار اور حکومت نہیں دی گئی۔ مسلم حکمران امریکہ اور یورپ کی طاقتوں سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی وجہ سے اُن کے مسلم دشمن اور اسلام دشمن ایجنڈے سے واقف ہیں لیکن وہ اپنا کردار ادا نہیں کررہے، اس لیے خونِ مسلم کی ارزانی کے اصل ذمے دار بھی وہی ہیں۔