طہارت کا حکم

’’اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں‘‘۔ (البقرہ: 222:2)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو، سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھولیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہوجائو۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے، یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اس پر ہاتھ مارکر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیرلیا کرو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے، شاید کہ تم شکر گزار بنو‘‘۔
(المائدۃ5: 6-5)

طہارت کا جامع مفہوم

’’اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو‘‘۔
(المدثر74: 5-4)
بدنی طہارت: یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم و لباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت اور نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپؐ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپؐ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ ٔ جاہلیت کے عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو ’’طہارت‘‘ کا ہم معنی ہو۔
بخلاف اس کے اسلام کا یہ حال ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
نظافتِ لباس: دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ میلا کچیلا ہو، اتنا ہی زیادہ مقدس ہوتا ہے۔ اگر کوئی ذرا اجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیادار انسان ہے، حالانکہ انسانی فطرت میل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔
اخلاقی عیوب سے پاکی: تیسرا مفہوم اس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو، تمہارا لباس ستھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور، ریا اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کرلیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ رئیسوں اور نوابوں کے لباس، مذہبی پیشہ وروں کے لباس، متکبر اور برخود غلط لوگوں کے لباس، چھچھورے اور کم ظرف لوگوں کے لباس، بدقِوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرتاً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کرلے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے۔
پاک دامنی: چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ابن عباسؓ، ابراہیم نخعی، شعبی، عطا، مجاہد، قتادہ، سعید بن جبیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں: فُلَانٌ طَاہِرْ الثِّیَابِ وَفُلَانٌ طَاہِرُ الذَّیْلِ۔ فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے، اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اس کے برعکس کہتے ہیں: فُلَانٌ دَنِسْ الثِّیَابِ۔ اس شخص کے کپڑے گندے ہیں، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بدمعاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
گندگی سے مراد ہر قسم کی گندگی ہے، خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو یا اخلاق و اعمال کی، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچاکر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن برائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا جاتا ہے۔
(تفہیم القرآن، ششم، ص143۔ 145، المدثر، حاشیہ 4، 5)

اللہ سے محبت

٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اُسے بتائے کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (ابودائود۔ عن مقدام بن معدیکربؓ)
٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوست صرف مومن انسان کو بنائو، اور صرف پرہیزگار آدمی ہی تمہارا کھانا کھائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابودائود ۔ عن ابی سعید خدریؓ)
٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر (بھوک کی وجہ) اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرو جو بول نہیں سکتے۔ ان پر اُس وقت سواری کرو جب وہ سواری کے قابل ہوں، اور ان کو اس حال (کمزوری) میں چھوڑ دو تاکہ وہ (کھاپی کر) اچھے ہوجائیں۔‘‘(ابودائود۔ عن سہل بن حنظلیہؓ)
٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس آدمی نے ماں اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی ڈالی، قیامت کے دن اللہ اس کے اور اس کے محبوبوں کے درمیان جدائی ڈالے گا۔‘‘ (ترمذی، دارمی۔ عن ابی ایوبؓ)