جان بولٹن، صدر ٹرمپ کے نئے مشیر

گزشتہ نشست میں ہم نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی بصد سامانِ رسوائی برطرفی کا ذکر کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ میں ایک مخصوص نقطہ نظر کے لوگوں کے اجتماع کا تذکرہ کیا تھا۔ اسی ضمن میں یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کی تنظیمِ نو میں مصروف ہیں اور بہت جلد قومی سلامتی کے مشیر جنرل ڈاکٹر مک ماسٹر، وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی، ریٹائرڈ فوجیوں یا ویٹرن امور (Veteran’s Affairs) کے وزیر David Shulkin اور اٹارنی جنرل جیف سیشنز کا جانا بھی ٹھیر گیا ہے… اور حسبِ توقع جمعرات کو صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی کے لیے اپنے مشیر جنرل ڈاکٹر مک ماسٹر کو برطرف کردیا۔ اُن کی جگہ آنے والے جان بولٹن (John Bolton) ٹرمپ اقتدار کے تیسرے مشیر قومی سلامتی ہوں گے۔ سب سے پہلے نامزد کیے جانے والے جنرل مائیکل فلن بیچارے تو صرف 3 ہفتے چل سکے۔ جنرل مک ماسٹر کی برطرفی کی افواہ بہت عرصے سے گرم تھی، اور وجہ بھی وہی، جس کی بنا پر ریکس ٹلرسن نوکری سے نکالے گئے، یعنی صاحب سے عدم اتفاق۔
صدر ٹرمپ نے جنرل مک ماسٹر کی جگہ انتہائی قدامت پسند، قوم پرست، جنگجو صفت، اسلام مخالف جان بولٹن کا انتخاب کیا ہے۔ 69 سالہ بولٹن ایک وکیل، سفارت کار، سیاسی بلکہ نظریاتی تجزیہ نگار اور بین الاقوامی سیاسیات کے ماہر ہیں۔ اس وقت وہ فاکس (FOX) ٹیلی ویژن پر تبصرہ نگار کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بولٹن صاحب فاکس کے ملازم ہیں یا اعزازی تجزیہ نگار؟ ریکس ٹلرسن کی برطرفی کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ فی الحال اپنی ٹیم میں کسی فوری تبدیلی کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ اور صدر کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے اُن کی ترجمان محترمہ سارہ سینڈرز نے نام لے کر کہا کہ صدر ٹرمپ کو جنرل مک ماسٹر پر مکمل اعتماد ہے، جنرل صاحب کی کارکردگی سے امریکی صدر بہت مطمئن ہیں، لہٰذا جنرل مک ماسٹر کی رخصتی کی باتیں بے بنیاد اور ایک افواہ کے سوا کچھ نہیں۔ محترمہ نے افواہ کے لیے “Fake News” کا لفظ استعمال کیا۔ صدر ٹرمپ FOX کے سوا تمام دوسرے ٹیلی ویژن اور اخبارات کو حقارت سے Fake News کہتے ہیں۔ صدر کے قریبی حلقوں کے مطابق جناب ٹرمپ بہت عرصے سے مسٹر بولٹن سے رابطے میں تھے اور شرائطِ ملازمت طے بھی ہوچکی تھیں، لیکن جمعرات کو صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری ہونے والی ٹوئٹ خود جناب بولٹن کے لیے بھی حیران کن تھی، اور اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اپنی تقرری کی اطلاع انھیں بھی اس ٹوئٹ ہی سے ملی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جان کیلی پروانۂ برطرفی کے اجرا سے پہلے جنرل مک ماسٹر کو بتا چکے تھے، لہٰذا انھوں نے اس خبر کا بہت ہی خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور جنرل صاحب نے مشیر کی حیثیت سے استعفے کے ساتھ امریکی فوج سے بھی ریٹائرمنٹ لے لی۔
جان بولٹن ایک سکہ بند قدامت پسند ہیں۔ ایوانِ سیاست میں انھیں سابق صدر ریگن نے متعارف کروایا جب 1988ء میں انھیں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا۔ اس دوران انھوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران جاپانی نژاد امریکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویّے کے ازالے کے لیے تاوان کی ادائیگی کی مخالفت کی۔ دوسری جنگِ عظیم میں پرل ہاربر پر مبینہ جاپانی حملے کے جواب میں امریکہ نے ایک سے سوا لاکھ جاپانیوں کو گرفتار کرکے بیگار کیمپوں میں نظربند کردیا تھا۔ یہ سارے لوگ امریکی شہری تھے جو تقریباً 4 برس کیمپوں میں بند رہے اور اس دوران ان کے گھروں اور جائدادوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ 1962ء کی شہری آزادی تحریک کے دوران مظلوم جاپانیوں کے حق میں بھی تحریک چلی اور کانگریس میں قرارداد پیش کی گئی کہ زندہ رہ جانے والے متاثرین کو تاوان ادا کیا جائے۔ جناب بولٹن نے اس کی مخالفت کی، لیکن کانگریس سے منظوری کے بعد خود صدر ریگن نے تاوان کی ادائیگی کے بل پر دستخط کیے۔
اگست 2005ء میں سابق صدر بش نے مسٹر بولٹن کو اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقررکیا۔ اُس وقت امریکی سینیٹ تعطیل پر تھی۔ امریکی قانون کی رو سے سفارت کاروں کی تقرری سے پہلے ان کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے، لیکن اگر سینیٹ تعطیل پر ہو تو صدر عارضی تقرری کرسکتا ہے جس کی تعطیل ختم ہوجانے پر سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ چنانچہ انھوں نے سینیٹ کی توثیق سے پہلے ہی اپنا عہدہ سنبھال لیا۔ تقرری کے فوراً بعد موصوف نے دنیا کو اقوام متحدہ کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
’’یہ اقوام متحدہ نہیں۔ یہ تو بس بین الاقوامی انجمن ہے جسے کبھی کبھی دنیا کی واحد طاقت یعنی امریکہ ہانکتا ہے (وہ بھی اُس وقت) جب یہ ہمارے مفاد میں ہو کہ دنیا کو اپنے آگے لگایا جائے‘‘۔
سینیٹ کی تعطیل ختم ہونے پر توثیق کے لیے سماعت کا آغاز ہوا۔ ابتدائی چند دنوں میں اندازہ ہوگیا کہ مسٹر بولٹن کے متکبرانہ رویّے کی بنا پر ان کی توثیق ممکن نہیں تو صدر بش کی سفارش پر انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
مسٹر بولٹن امریکہ کے چند انتہائی قدامت پسند مراکزِ دانش (Think Tanks) سے وابستہ ہیں جن میں امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ (AEI) بھی ہے جس کی سرگرم رکن افریقہ نژاد عیان حرثی علی ہیں، جو ہیں تو پیدائشی مسلمان لیکن اب وہ فخر سے کہتی ہیں کہ انھوں نے جہالت یعنی اسلام کو ترک کردیا ہے۔ AEI ایک انتہائی قدامت پسند مرکزِ دانش ہے جو امریکہ کو فوجی اعتبار سے انتہائی مضبوط بنانے کا حامی ہے۔ موصوف کمیشن برائے مذہبی آزادی (United States Commission on International Religious Freedom) کے سرگرم رکن ہیں۔ اس کمیشن کے اہم اہداف میں پاکستان سے ناموسِ رسالت اور پاکستانی آئین سے ختمِ نبوت ترمیم کو ختم کرانا ہے۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز ایک اور قدامت پسند مرکزِ دانش Project for the New American Century (PNAC) بھی تھا۔ اب یہ ادارہ عملاً معدوم ہوچکا ہے۔PNAC دنیا بھر میں بدمعاش (Rogue) حکومتوں کے خاتمے پر کام کررہا تھا جس کے لیے”Regime Change” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ PNACکا کلیدی ہدف ایران تھا۔ ماضی میں صدام و قذافی سے چھٹکارا، مصر کی اخوانی حکومت کے خاتمے اور غزہ میں حماس اقتدار کو مفلوج کرنے کی مہم کامیابی سے سرانجام دی جاچکی ہے۔ مسٹر بولٹن Jewish Institute for National Security of America(JINSA) میں بھی بہت سرگرم ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ امریکہ اور ساری دنیا میں صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ JINSA کا سب سے اہم ہدف اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنا تھا جس میں انھیں کامیابی ہوگئی۔ جان بولٹن امریکہ کی امن کمیٹی برائے خلیج (Committee for Peace and Security in the Gulf(CPSG) کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ 39 رکنی CPSG ری پبلکن اور ڈیموکریٹ رہنمائوں پر مشتمل ہے۔ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار یا WMD کا شوشہ CPSG ہی نے چھوڑا تھا۔
مسٹر بولٹن American Freedom Defense Initiative (AFDI)کے غیر اعلانیہ سرپرست ہیں جس کی بانی محترمہ پامیلا گیلر (Pamela Geller) اور جناب رابرٹ اسپنسر (Robert Spenser) ہیں۔ AFDI کو امریکہ میں اسلام کی بیخ کنی کا ادارہ کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں شہری آزادی اور انسانی حقوق کے ایک انتہائی مؤقر ادارے Southern Poverty Law Center نے AFDIکو نسل پرست اور متعصب انجمن قرار دیا ہے۔ AFDI کی جانب سے شائع کردہ چند کتابوں سے اُس کی فکر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ صرف چار کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
٭ عدم برداشت کے علَم بردار مذہب کے بانی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں چند حقائق
٭سیاسی اسلام اور صلیبی جنگ
٭امریکہ میں تیزی سے رینگتی شریعت
٭Stop Islamization of America
پامیلا نے 2015ء میں نبی مہربانؐ کے کارٹون کا مقابلہ منعقد کیا جہاں ہنگامہ ہوا اور پولیس نے فائرنگ کرکے دوافراد کو ہلاک کردیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان دونوں کا تعلق داعش سے تھا۔
2010ء میں پامیلا اور اسپنسر نے The Post- American Presidency:The Obama Administration’s War on America کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں ’شک‘ ظاہر کیا گیا کہ سابق صدر اوباما مسلمان ہیں اور وہ مسلمانوں کے بنائے منصوبے کے تحت امریکہ کو تباہ کررہے ہیں۔ اس کتاب کا پیش لفظ مسٹر بولٹن نے لکھا اور تقریبِ رونمائی میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے انھوں نے بھی اوباما پر مسلمان ہونے کا ’الزام‘ لگایا۔
مسٹر بولٹن فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے واشنگٹن ٹائمز میں شائع ہونے والے ’’مشرق وسطیٰ کا پُرامن حل۔ تین قومی ریاست‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے فلسطین اور اسرائیل پر مشتمل دو قومی ریاست کو غیر فطری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ اور غربِ اردن کی آبادیوں کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں اور نہ یہ علاقے ایک ریاست کی حیثیت سے قائم رہ سکتے ہیں۔ انھوں نے غزہ کا مصر، اور غربِ اردن کا اردن سے ادغام تجویز کرتے ہوئے اسرائیل، مصر اور اردن پر مشتمل تین قومی ریاست کو مسئلے کا پائیدار حل قرار دیا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو روزنامہ واشنگٹن ٹائمز 16 اپریل 2014ء۔
ایران کے بارے میں مسٹر بولٹن کا رویہ بے حد سخت اور متعصبانہ ہے۔ وہ ایران کی دہشت گرد تنظیم مجاہدینِ خلق کے زبردست حامی ہیں۔ مجاہدینِ خلق بم حملوں میں اعلیٰ پائے کے ایرانی سیاست دانوں سمیت ہزاروں ایرانیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ مسٹر بولٹن کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایران میں حکومت کی تبدیلی ضروری ہے، جس کے لیے طاقت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ وہ شمالی کوریا کے جوہری مسئلے کو بھی طاقت سے حل کرنے کے حق میں ہیں، ان کا خیال ہے کہ کم جونگ جیسے مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ہوگا۔
گزشتہ ایک ہفتے میں صدر ٹرمپ اپنی ٹیم میں کلیدی تبدیلیاں لائے ہیں۔ نامزد وزیرخارجہ جان پومپیو اور سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل کے بعد قومی سلامتی کے لیے جان بولٹن کی نامزدگی سے دنیا کا امن سخت خطرے میں نظر آرہا ہے۔ تینوں صدر ٹرمپ کی طرح نظریاتی طور پر حد درجہ قدامت پسند، نسل پرستی کی حد تک قوم پرست، جنگجو اور شدید مسلم مخالف ہیں۔ مستقبل میں جو خطرات سامنے نظر آرہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
٭شمالی کوریا کو جوہری پروگرام سے دست برداری اور Roll Back کے لیے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں جنگ کی دھمکی بھی شامل ہے۔
٭دوسرے ملکوں خاص طور سے چین، جنوبی کوریا، جاپان اور یورپی یونین سے تجارتی معاہدوں پر نظرثانی کرکے درآمد و برآمد میں توازن کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭امریکہ ایران جوہری معاہدے سے دست بردار ہوکر تہران پر نئی پابندیاں عائد کرے گا۔
٭ایران میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں تیز کردی جائیں گی۔
٭ مشرق وسطیٰ میں فلسطینیوں کو اسرائیل کی شرائط ماننے پر مجبور کیا جائے گا۔ خیال ہے کہ سعودی عرب، مصر اور اردن جان بولٹن کے تین ریاستی فارمولے کے حامی ہیں۔
٭اخوان المسلمون اور دوسری عوامی جماعتوں کو کچلنے اور ان کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے مربوط کوشش کی جائے گی، جس میں نصاب کی تبدیلی، علما کی تربیت اور سماجی تبدیلیاں شامل ہیں۔
٭سعودی عرب کو لبرل و آزاد خیال بنانے کی کوششیں تیز کردی جائیں گی۔
٭افغانستان میں مکمل فتح اب شاید نیا ہدف ہو۔
٭ترکی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کردش ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کے ذریعے اس کے دہشت گرد ونگ YPGکو شامی سرحد پر آگے بڑھایا جائے گا۔ ابھی شمالی شام کے علاقے عفرین سے پسپا ہوتے ہوئے YPG نے گوریلا مزاحمت شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ صدر اردوان نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ اور فرانس YPG دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔
٭پاکستان پر ناموسِ رسالت قانون کی منسوخی اور ختمِ نبوت ترمیم کو کالعدم قراردینے کے لیے دبائو بڑھایا جائے گا۔
٭جنوبی بحرالکاہل، بحر جنوبی چین اور بحرہند میں چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور اسے محدود کرنے پر توجہ دی جائے گی، اس ضمن میں ہندوستان سے روابط مزید بہتر و مربوط کیے جائیں گے۔
وزیرخارجہ اور سی آئی اے کے لیے سینیٹ سے توثیق ضروری ہے، لیکن قومی سلامتی کے مشیر کا منصب کابینہ کا حصہ نہیں، اس لیے مسٹر بولٹن کو سینیٹ کی توثیق سے استثنیٰ حاصل ہے۔ وہائٹ ہائوس کے اعلان کے مطابق وہ 6 اپریل سے اپنا عہدہ سنبھال لیں گے۔
22 مارچ کو رواں مالی سال کے لیے جو اخراجات (Spending Bill) منظور کیے گئے ہیں اس میں دفاع کے لیے700 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 61 ارب ڈالر زیادہ اور کُل اخراجات کا 54 فیصد ہے۔ بل پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے نئے جوہری اسلحہ کی تیاری اور پہلے سے موجود ذخیرے کی تنظیمِ نو پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکی فوج کو دنیا کی سب سے مضبوط، منظم اور ہلاکت خیز فوج بنایا جائے گا۔ دفاعی بجٹ میں تربیت، تنخواہوں میں اضافے، اسلحہ کی خریداری، تحقیق و جستجو کے علاوہ 65 ارب ڈالر امریکہ سے باہر آپریشن کے لیے رکھے گئے ہیں۔ غالب خیال یہی ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ افغانستان جنگ پر خرچ ہوگا۔ افغانستان کے لیے خطیر رقم مختص کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ اس مسئلے کو بہت جلد فیصلہ کن انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے شگوفے پھوٹتے رہیں گے لیکن افغانستان میں مکمل عسکری فتح امریکہ کا نیا ہدف معلوم ہوتا ہے۔