وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ایک عرصے بعد ہفتہ کے روز لاہور آئے، جہاں انہوں نے شہبازشریف کے طوفانی انداز میں لاہور کے گرد و نواح کے دورے کیے اور وہ باتیں کیں جو خود کسی طوفان سے کم نہیں، یا آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ ضرور بن سکتی ہیں۔ انہوں نے لاہور کے قریب واقع سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ملک کے پہلے سی سی وی لائن اور ایلومینیم الوئے مینوفیکچرنگ پلانٹ کا افتتاح کیا اور قوم کو بتایا کہ اس پلانٹ کی تنصیب سے بجلی کے پیداواری اخراجات اور ترسیل کے نقصانات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے شہبازشریف سے ایک قدم آگے بڑھ کر اعلان کیا کہ آئندہ پندرہ سال کے لیے بجلی کی ضروریات کے پیداواری منصوبے مکمل کرلیے گئے ہیں۔ تاہم جس وقت وہ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں یہ اعلان کررہے تھے اُس سے چند میل کے فاصلے پر موجود لاہور اور رائے ونڈ کی کئی بستیوں اور آبادی میں بجلی غائب تھی۔ وزیراعظم یہاں سے سکھوں کے مذہبی مقام اور اپنے پرانے ساتھی اور کبھی مسلم لیگ کے دفتر میں اخبار اکٹھے کرنے والے صدیق الفاروق کی سرکاری و سیاسی تجربہ گاہ ننکانہ صاحب پہنچے جہاں انہوں نے دریائے راوی پر تعمیر ہونے والے 612 میٹر طویل رائے منصب علی خان کھرل پل کا افتتاح کیا۔ یہاں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف صرف اپنی کارکردگی کی وجہ سے عوام میں موجود ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ جو کام کرتے ہیں وہ پیشیاں بھی بھگتتے ہیں، جبکہ ملک کے لیے کام نہ کرنے والے ملک سے باہر آرام سے بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی پالیسیوں کو سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے نہیں بدلنا چاہیے۔
سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں خطاب کرتے ہوئے جہاں اُن کے بقول وہ 20 سال بعد آئے تھے، انہوں نے ایک ایسا سیاسی دھماکا کردیا جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں۔ ایک منتخب وزیراعظم کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ نما دھماکا اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے کسی لگی لپٹی کے بغیر دوٹوک انداز میں مطالبہ کیا کہ حال ہی میں منتخب ہونے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹایا جائے اور اُن کی جگہ متفقہ چیئرمین سینیٹ لایا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کی عوام میں کوئی عزت نہیں، ووٹ خرید کر انہیں اس عہدے پر لایا گیا۔ چیئرمین سینیٹ کااس طرح کا انتخاب بے عزتی ہے، اس لیے ایسی بے عزتی سے بچیں، اور صادق سنجرانی کو ہٹاکر متفقہ چیئرمین سینیٹ لائیں۔
ایک وزیراعظم کی طرف سے ایسا مطالبہ، اور ایک منتخب چیئرمین کے انتخاب کو بے عزتی قرار دیتے ہوئے انہیں ہٹانے کا مطالبہ اتنا بڑا مطالبہ ہے کہ اپوزیشن بھی ایسا مطالبہ کرنے سے گریز کرتی ہے، اور شاید ماضی میں کسی اپوزیشن نے کسی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا، چہ جائیکہ یہ مطالبہ ایک وزیراعظم کی جانب سے کیا جارہا ہے جو پورے سیاسی نظام کا کسٹوڈین ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو رفتہ رفتہ بااختیار وزیراعظم بنتے جارہے ہیں اور سیاسی معاملات میں بھی اپنی ایک رائے رکھتے ہیں، جس کا وہ بارہا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، اُن کے حالیہ مطالبے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ یہ مطالبہ کس سے کررہے ہیں؟ صادق سنجرانی کو سینیٹ کے ارکان نے چنا ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے براہِ راست منتخب ارکان کا انتخاب ہیں۔ انہوں نے یہ بات مخفی رکھی ہے کہ ان کا مطالبہ کس سے ہے؟ کیونکہ ان کا مطالبہ ارکانِ سینیٹ سے بنتا ہی نہیں ہے۔ ان ارکان نے تو نئے چیئرمین کو اپنا ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ پھر کیا وہ یہ مطالبہ سیاسی جماعتوں سے کررہے ہیں جنہوں نے خاصا ہوم ورک کرکے اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے ووٹوں کو اکٹھا کیا اور اپنا چیئرمین لے آئیں۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف جماعتیں یہ بکھرے ہوئے ووٹ اکٹھے نہیں کرسکیں یا انہیں ایسا کرنے نہیں دیا گیا، حالانکہ ماضی میں ایسے تمام بکھرے ووٹ حکمران مسلم لیگ (ن) آسانی سے اکٹھے کرلیتی تھی۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم چیئرمین سینیٹ سے مطالبہ کررہے ہیں جو خاصی محنت اور تگ و دو کے بعد منتخب ہوئے ہیں، اور ان کے انتخاب میں کسی نے دھاندلی کا الزام بھی نہیں لگایا؟ تو بھلا ایوانِ بالا کا اعتماد جیتنے والا شخص کیوں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے گا؟ وزیراعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں اس عہدے سے ہٹایا جائے۔ گویا یہ ہٹانے کا کام کسی اور کو کرنا ہے، صادق سنجرانی کو نہیں۔ لیکن وزیراعظم بھی بہت بھولے ہیں۔ جنہوں نے صادق سنجرانی کو سنجرانی ہائوس سے نکال کر چیئرمین سینیٹ کی مسند پر بٹھایا ہے کیا وہ اپنی ساری محنت بلاوجہ اکارت کرلیں گے؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ تو پھر وہ کون ہے جس سے اس ملک کا مقتدر وزیراعظم سوالی کی طرح مطالبہ کررہا ہے؟ وہ یقینی طور پر اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کا گلہ وزیراعظم کررہے ہیں اور دبے لفظوں میں اپنا بڑھایا ہوا قدم واپس لینے کی بات کررہے ہیں۔ یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے بارے میں تین بار کے وزیراعظم اور اب نااہل وزیراعظم نوازشریف پوچھتے ہیں کہ وہ کون ہے جس کے اشارے پر بنی گالہ والے، بلاول ہائوس اور خیبر پختون خوا والے قافلوں کی شکل میں سنجرانی ہائوس پہنچے ہیں اور وہاں جاکر سجدہ ریز ہوگئے ہیں؟ انہوں نے اس وقت یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ یہ کون ہے اور اس کی ملک کے لیے کیا خدمات ہیں؟ نوازشریف اس کھیل کو خوب سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس کھیل کا حصہ رہے ہیں، صرف اِس بار وہ اس کھیل سے باہر ہیں، اور آصف زرداری فیورٹ گھوڑے کی طرح اِن ہیں۔ چنانچہ عددی پارلیمانی برتری نہ رکھنے کے باوجود اب تک زرداری صاحب کامیاب جارہے ہیں۔ انہوں نے پہلے بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرائی، پھر اس کا کریڈٹ بھی لے لیا۔ اس دوران بلوچستان کی پوری کابینہ نے بلاول ہائوس حاضری دے کر ان کے اس دعوے کو سچا بھی ثابت کردیا۔ پھر سینیٹ کے الیکشن میں زرداری صاحب اپنے اصل حجم سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر جب بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے اپنے ووٹ زرداری صاحب، اور تحریک انصاف نے اپنے ووٹ وزیراعلیٰ بلوچستان کے حوالے کردیے تب سیاسی طور پر زرداری صاحب کا قد کاٹھ ایک بادشاہ گر کے برابر ہوگیا۔ پھر اس گیم میں وہ خوبصورتی سے اپنا ڈپٹی چیئرمین بھی منتخب کراکر لے گئے۔ یہی نہیں، اب انہوں نے ایوانِ بالا میں قائدِ حزبِ اختلاف کی اہم ترین نشست بھی شیری رحمن کے لیے بآسانی جیت لی ہے جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہنے کے باعث یقینی طور پر زرداری صاحب کے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اس صورت حال میں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا وزیراعظم کا مطالبہ ایک طرف بے بسی کا اظہار ہے کہ وہ وزیراعظم ہوتے ہوئے کسی اور سے یہ کام کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، دوسری جانب حکومت کا سینیٹ کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے جہاں ڈپٹی چیئرمین اور لیڈر آف دی اپوزیشن دونوں ان کی حریف جماعت سے ہیں، جبکہ چیئرمین کے انتخاب کو بے عزتی قرار دے کر وہ اُن کے ساتھ بھی حالتِ جنگ میں آگئے ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ایک اور ادارے کے خلاف نیا محاذ کھولنا ہے۔ اس سے پہلے وہ پارٹی جو وفاق اور پنجاب کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اقتدار میں ہے، وہی پارٹی ملک بھر میں اپوزیشن کی طرح جلسے کرتی پھر رہی ہے۔ اس کے قائد عملاً قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برسرپیکار ہے جس کی مدد سے وہ ماضی میں بار بار اقتدار میں آتی رہی ہے، اور دوسری جانب عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے، حالانکہ یہی عدلیہ ماضی میں اِن ہی نوازشریف کی حکومت بحال کرچکی ہے جسے اُس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے برطرف کیا تھا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی تقریر کا سب سے اہم جملہ یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ووٹ خرید کر اس عہدے پر لایا گیا، اس طرح کا انتخاب بے عزتی ہے۔ یہ الزام کوئی اور نہیں اس ملک کی حکمران جماعت کا نامزد وزیراعظم لگا رہا ہے، اور یقینا ان کے الزام کی بنیادہوگی۔ اس لیے الیکشن کمیشن وزیراعظم کو طلب کرکے ووٹ خریدنے کے عمل اور طریقے کے بارے میں تفتیش کرے، اور یہ درست وقت ہے جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرلیا جائے۔ یہ الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے ہیں، اِس بار بھی مختلف حلقوں کی جانب سے لگائے گئے ہیں جس پر الیکشن کمیشن نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو جنہوں نے یہ الزامات لگائے تھے، ثبوت فراہم کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔ اب معاملہ بہت سنگین ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن وزیراعظم سے ثبوت مانگے جن کے پاس یقینا ٹھوس شواہد موجود ہوں گے۔ دوسرے، چیئرمین سینیٹ سے پوچھے کہ انہیں مختلف جماعتوں اور افراد نے کس زبانی یا تحریری معاہدے اور کن شرائط پر ووٹ دیے ہیں۔ اگر اس حساس اور باوقار عہدے کے لیے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے تو یہ کس نے کی ہے، یہ سرمایہ کس نے فراہم کیا، ووٹ فروخت کرنے والے کون ہیں اور وہ کس قیمت پر بکے؟ اور خریدنے والے کون سے ساہوکار ہیں اور انہوں نے کن مقاصد کے لیے یہ بھاری بھرکم سرمایہ کاری کی؟
الیکشن کمیشن لگے ہاتھوں سینیٹرز کے انتخاب میں بھی خرید و فروخت کی تفتیش کرے، جیتنے والوں سے بھی پوچھے کہ انہیں اتنے ووٹ کس نے اور کیوں دیے، یا کس قیمت یا کس وعدے پر دیے؟ مثلاً پنجاب میں چودھری سرور سے تحقیقات کی جائے کہ ان کی پارٹی کے 31 ووٹ تھے، انہیں 47 ووٹ کیسے ملے؟ اسی طرح پیپلزپارٹی نے خیبر پختون خوا میں زائد ووٹ کس طرح حاصل کیے؟ اور جب تک یہ معاملہ طے نہ ہوجائے مشتبہ سینیٹرز کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینا چاہیے کیونکہ دہری شہریت کے حامل سینیٹرز کے بیانِ حلفی پر الیکشن کمیشن نے اکتفا کرلیا ہے۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ ان کی دہری شہریت کے کاغذات اور دہری شہریت سے دست بردار ہونے کے کاغذات اور شہریت دینے والے ملک کی جانب سے دہری شہریت ختم کرنے کا سرٹیفکیٹ طلب کیا جاتا۔ ان دستاویزات کے ذریعے ہی یہ فیصلہ ہوسکتا تھا۔ بیانِ حلفی تو ہمارے ہاں ہر طرح کے معاملے میں دینے کا رواج ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم کے بیان پر الیکشن کمیشن تحقیقات کرے اور سپریم کورٹ اس سارے معاملے کی نگرانی کرے کہ اتنے باوقار ادارے کی سربراہی اگر خرید و فروخت کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے تو اس سے بڑا قومی المیہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔