آج اپنی غلطیاں پکڑنے سے پہلے بیرونی تعاون حاصل کرتے ہیں اور ایک بار پھر ممبئی کے سینئر صحافی ندیم صدیقی کی طرف چلتے ہیں۔ اردو قبیلہ ممبئی کی پیشکش ان کی کتاب ’پرسہ‘ میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں انہی میں اردو زبان و املا کے حوالے سے ان کا مضمون ہے ’’ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیے صاحب‘‘۔ اس کا حوالہ پہلے بھی دیا تھا، اب اس سے مزید استفادہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’ہمارے بعض اخباری ساتھی انگریزی کے جانے کس لفظ کا ترجمہ کرتے تھے کہ ممبئی کے ہینڈلوم ہائوس میں عظیم آتشزدگی یا عظیم المیہ۔ ’عظیم‘ مثبت معنی کا حامل لفظ ہے، کسی حادثے یا سانحے کے ساتھ اس کا لکھنا غلط ہوگا، مگر واقعہ یہ ہے کہ ’سانحۂ عظیم‘ تو ہمارے علمائے کرام تک لکھتے اور بولتے رہے ہیں جب کہ یہاں بدترین استعمال ہونا چاہیے۔‘‘
عظیم کے استعمال کے بارے میں ندیم صدیقی سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی تحریر سے ظاہر ہے کہ وہ خاصے مومن بندے ہیں، قرآن کریم تو ضرور پڑھا ہوگا۔ اس میں کئی جگہ ’عظیم‘ منفی معنوں میں آیا ہے۔ مثلاً سورہ لقمان (آیت:13) ’’شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘‘ سورہ یوسف (28) ’’ان کیدکنّ عظیم‘‘ (عورتوں کی) چالاکیاں عظیم ہوتی ہیں۔ سورہ نور میں ہے ’’یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔‘‘ سورہ شعراء میں ہے ’’عذاب یومٍ عظیم۔‘‘ یعنی عظیم دن کا عذاب۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم میں کئی جگہ عظیم مثبت معنوں میں نہیں آیا بلکہ شرکِ عظیم، کہیں ظلمِ عظیم، یا عورتوں کی عظیم چالاکیاں۔ چنانچہ یہ اعتراض بجا نہیں کہ علمائے کرام تک سانحۂ عظیم لکھتے اور بولتے ہیں۔
ندیم صدیقی نے لفظ ’’غیرشادی شدہ‘‘ پر بجا طور پر اعتراض کیا ہے کہ یہ ترکیب غلط ہے۔ ’شدہ‘ کے معنی ’ہوا‘ یا ’ہوئی‘ لیے جاتے ہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ اس کے ساتھ ’غیر‘کا استعمال چہ معنی؟ اس کے متبادل کے لیے ندیم صدیقی نے لغت سے لفظ ’ناکتخدا‘ ڈھونڈ نکالا جو اسی معنیٰ کا حامل ہے۔ ندیم صدیقی نے بہت صحیح لفظ تلاش کیا، لیکن ذرا اپنے اطراف میں لوگوں سے اس کا مطلب بھی پوچھ دیکھیں۔ عام آدمی کے لیے تو اس کا تلفظ ہی شادی یعنی ’کتخدائی‘ سے مشکل ہوگا۔ ممکن ہے یہ پریشانی بھی ہو کہ کت خدا میں خدا کہاں سے آگیا! اب تک تو یہ ناخدا اور دیہہ خدا میں آتا تھا۔ یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ ’خ‘ پر زبر نہیں پیش ہے۔ ارے بھائی، غیر شادی شدہ کے لیے ’کنوارا‘ کا لفظ تو سامنے کا ہے، گو کہ ہندی کا ہے لیکن اردو میں عام ہے۔ ہندی میں اس کا املا ’’کوآرا‘‘ بھی ہے یعنی وہ مرد جس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ لڑکیوں کے لیے کنوارپن اور کنواریت یعنی دوشیزگی۔ ایک محاورہ ہے ’’کنواری ارمان، بیاہی پشیمان‘‘۔ یہ کنوارے کے لیے بھی ہے۔ کہتے ہیں ’’شادی بور کے لڈو، جو کھائے سو پچھتائے، نہ کھائے تو بھی پچھتائے‘‘۔ جس پر کسی سیانے نے کہا تھا کہ جب پچھتانا ہی ہے تو کیوں ناں کھا کر پچھتائے۔
چلیے، اب کچھ گھر کی بات کرتے ہیں۔ جسارت میں خواتین کے لیے ہر ہفتے ایک صفحہ ’’نصف الدنیا‘‘ کے عنوان سے نکلتا ہے۔ اس کا مطلب پتا نہیں کیا ہے تاہم اس کی جو نگراں ہیں وہ بڑی سینئر صحافی اور ادیب (یا ادیبہ) ہیں لیکن اب تک ’عنہ‘ اور ’عنہا‘ کا فرق معلوم نہیں ہوسکا۔ یہ حیرت نہیں افسوس کا مقام ہے۔ کسی سے پوچھ ہی لیا ہوتا۔ گزشتہ پیر کی اشاعت میں کئی صحابیات کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا گیا ہے مثلاً خدیجۃ الکبریٰ، اُم رومان، حضرت عائشہ، فاطمہ بنتِ اسد وغیرہ… سب کے ساتھ ’’عنہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ سنڈے میگزین کے پچھلے شمارے میں افشاں نوید کا صحابیات کے حوالے سے مضمون چھپا ہے جس کی پہلی سطر ہی میں حضرت عائشہ کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لکھا گیا ہے لیکن مجھ سمیت ہر ایک شاید صرف اپنی ہی تحریر پڑھتا ہے۔ ایک ترکیب یا جملہ بہت عام ہے ’’بہترین نعم البدل‘‘۔ نعم البدل کا تو مطلب ہی اچھا بدل، نیک عوض، بہتر بدل وغیرہ ہے۔ بہتر ہے کہ ’نعم‘ کے استعمال سے پہلے اس کا مطلب بھی دیکھ لیا جائے۔ رشک کا شعر ہے:
دیا تھا سب کو آرام اب اس کا نعم البدل پایا
نہیں ہیں گور میں، سوتے ہیں ہم آغوشِ مادر میں
اسی املا سے ’نعم‘ کے مزید دو مطالب ہیں۔ نِعَم (بکسر اول و فتح دوم) نعمت کی جمع ہے۔ نعم البدل میں ’ع‘ پر زیر نہیں بلکہ جزم ہے یعنی نِعْم۔ اور نَعَم (بفتح اول و دوم، یعنی ’ن‘ اور ’ع‘ دونوں پر زبر) یہ کلمۂ ایجاب یعنی ’ہاں‘ ہے، اور اس کا دوسرا مطلب چوپائے ہے۔ عوام کالانعام تو سنا ہی ہوگا یعنی چوپایوں جیسے عوام۔ شاید اسی لیے بھیڑ چال بھی کہا جاتا ہے۔
نصف الدنیا پر ’قمیص‘ تو اِس بار بھی ’’قمیض‘‘ ہے۔ چلیے قمیص میں ایک بٹن اضافی سہی۔ ایک بڑے اخبار میں ہر ہفتے کے دن بچوں کا صفحہ شائع ہوتا ہے جس کی نگران ایک ’آپی‘ ہیں۔ 24 مارچ کے صفحے میں آپی نے بچوں کے نام پیغام کا آغاز ’اسلام وعلیکم‘ سے کیا، یعنی اسلام (دین) اور تم سب۔ اس کو پڑھ کر کیا بچے یہی املا درست نہیں سمجھیں گے؟ جبکہ صحیح تو السلام (ال سلام) علیکم ہے، بیچ میں ’و‘ نہیں۔ ’و‘ کا مطلب ہے ’اور‘۔ کیا یہ بات ہم سب کے لیے باعثِ شرم نہیں کہ ہم السلام علیکم بھی صحیح طرح نہیں لکھ سکتے!
معروف کالم نگار حامد ریاض ڈوگر اپنے کالم میں شعر لکھتے ہوئے خیال رکھیں کہ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی نظر پڑ گئی تو وہ فوراً شعر کی تصحیح کے لیے خط لکھ دیں گے، گو کہ ان کو شکوہ ہے کہ پروفیسر انور مسعود کے سوا کسی نے جواب تک نہ دیا۔ حامد ریاض ڈوگر نے پچھلے شمارے میں اپنے کالم میں غالب کی مٹی خراب کی ہے (صفحہ 40)
’’اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا‘‘
پہلے مصرعے میں تیرے نہیں ’ترے‘ ہے، اور دوسرے مصرعے میں ’بھی‘ کی ضرورت نہیں تھی گو کہ نثر میں اس سے زور پڑتا ہے۔ چلیے، حق بحقدارم رسید پر تو کیا اعتراض کرنا، لیکن اچھا تھا کہ حق بغیر ’م‘ کے دے دیا جاتا یعنی بحقدار۔ دارم کا مطلب تو کچھ اور ہے۔
جسارت کے ایک کالم نگار لکھتے ہیں ’’فی الحال ابھی نتائج سامنے نہیں آئے‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ’فی الحال‘ اور ’ابھی‘ میں سے کوئی ایک حذف کردیتے کہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ 23 مارچ کے حوالے سے ایک خاتون کا مضمون ’’قرارداد والا پاکستان زبوں حالی کا شکار‘‘ چھپا ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں ’’ہم جیسی عوام بھی ناقص العقل ٹہری… جھوٹے وعدوں پر بہل جاتی ہے۔‘‘ اُن تک ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی کہ ’عوام‘ مذکر ہیں، مونث نہیں۔ جانے عوام کب مذکر ہوں گے۔ یہ اس بری طرح مونث اور واحد ہوئے ہیں کہ ان کا بحال ہونا مشکل ہے۔ عوام عامہ کی جمع، مطلب ہے عام لوگ۔ عوام کو جمع مذکر بنانے کی ایک اور کوشش کر دیکھتے ہیں۔