فضل حق میر ’’تعمیر نوکالج‘‘ کے پرنسپل تھے۔ اہلِ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں کے صاحبانِ علم اور عام لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوگا کہ فضل حق میر کون تھے، تعمیرنو کالج کیسے بنا اور اس کا آغاز کیسے ہوا۔ تعمیرنوکالج سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا اسکول تھا۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالعزیز مرحوم کے ذہن میں یہ خیال سما گیا کہ کوئٹہ میں جماعت اسلامی پبلک اسکول کھولے جہاں سے اسلامی ذہن کے طالب علم معاشرے کا حصہ بنیں۔ کوئٹہ میں کچھ مسلم لیگی حضرات نے تقسیم سے قبل اسلامیہ اسکول کی بنیاد رکھی۔ بہادر یار جنگ اپنے دورۂ بلوچستان کے دوران اس اسکول میں تشریف لائے۔ مولانا عبدالعزیز اسلامیہ عربی اسکول میں استاد تھے۔ انہیں ایک کمیونسٹ استاد سے اختلاف کی بنیاد پر اسکول چھوڑنا پڑا، اور اس استاد کو بھی اسکول سے فارغ کردیا گیا۔ مولانا عبدالعزیز مرحوم کے ذہن میں اسکول کا خاکہ اسلامیہ اسکول میں تدریس کے دوران بنا۔ آپ نے اپنے ہم عصر ساتھیوں کی مدد سے اس مہم کو سر کیا۔ اسکول کے لیے جگہ کا انتخاب سب سے پہلا مسئلہ تھا۔ جس دور کا ذکر ہے اُس وقت کوئٹہ ایک چھوٹی آبادی کا شہر تھا۔ یہاں خالی پلاٹ خاصی تعداد میں موجود تھے۔ مولانا نے ایک پلاٹ ڈھونڈ لیا اور وہاں اسکول قائم کردیا۔
مولانا عبدالعزیز کے تعلقات حاجی مراد خان جمالی سے بہت قریبی تھے، وہ جمعہ کی نماز مولانا عبدالعزیز مرحوم کی اقتداء میں پڑھتے تھے۔ مولانا نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ جمالی خاندان کے بچوں کو اسکول میں داخل کریں۔ وہ آمادہ ہوگئے۔ اس طرح کرایہ کی ایک عمارت میں تعمیرنو اسکول قائم ہوگیا۔ اب اس پلاٹ پر لیاقت مارکیٹ بن گئی ہے۔
مولانا نے اساتذہ کی تلاش شروع کی تو انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کے بعض طالب علم مل گئے۔ ان میں فضل حق، عبدالستار کاکڑ اور حیات صاحب شامل تھے ۔ یوں اسکول کا آغاز ہوگیا۔ مولانا نے کالج کو خیرباد کہا اور اسکول میں استاد بن گئے۔ مظاہر صاحب اسکول کے سینئر اساتذہ میں تھے اور ہندوستان سے ایم اے انگریزی ادب تھے۔ انہیں اسکول کا سربراہ بنایا گیا۔ ابتدا میں 10 سے 15 طالب علم تھے۔ تعمیر نو اسکول اسلامیہ اسکول کے بعد دوسرا تعلیمی ادارہ تھا جہاں اسلامی ذہن سازی کا منصوبہ موجود تھا، اور پھر ان اساتذہ کی محنت اور مولانا عبدالعزیز و جماعت اسلامی کے ساتھیوں نے بہت جلد اس کو تعلیمی دنیا میں ایک اہم مقام پر پہنچادیا۔ ابتدا میں جس شخص کو ہیڈ ماسٹر بنایا گیا تھا اُس نے کچھ عرصے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا اور مسلم ہائی اسکول کے نام سے اپنا اسکول قائم کیا جو چل نہ سکا اور بند ہوگیا، جبکہ تعمیرنو اسکول ترقی کرتا گیا اور طالب علم اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ والدین کو بھی اندازہ ہوگیا کہ جماعت اسلامی کا اسکول ایک کامیاب اسکول ہے، یہاں بہترین نظم و ضبط ہے اور اساتذہ بھی انتہائی محنتی اور بااخلاق ہیں۔ عوام میں اس کی پذیرائی شروع ہوگئی۔ اور یوں ہائی اسکول کے لیے اب جگہ کی تلاش تیز تر ہوگئی اور ایک متروکہ خالی پلاٹ پر ہائی اسکول کی تعمیر شروع ہوگئی۔ یوں پرائمری سیکشن اور ہائی سیکشن علیحدہ ہوگئے۔ جب ہائی اسکول کی عمارت قائم ہوگئی تو وہاں فضل حق میر کو پرنسپل بنادیا گیا جبکہ محمد حیات ان کے معاون بنائے گئے۔ محمد حیات اس سے پہلے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کی جگہ عبدالستار خان کاکڑ کو پرائمری اسکول کا پرنسپل تعینات کیا گیا۔ وہ اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے۔
فضل حق میرکو اچھی اورباصلاحیت ٹیم میسر آگئی تو انہوں نے اسکول کے بعد کالج کا سوچا، اور پھر تعمیرنو کالج بن گیا۔ اس کی پشت پر جماعت اسلامی تھی اور وہ اس کی نگرانی کررہی تھی۔ اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
فضل حق میر جماعت کے رکن نہ تھے۔ عبدالستار خان جماعت اسلامی کوئٹہ کے رکن تھے، بعد میں وہ صوبہ بلوچستان جماعت کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ محمد حیات صاحب بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے، وہ کچھ عرصہ جماعت اسلامی کوئٹہ کے امیر بھی رہے۔ تعمیرنو اسکول کے اساتذہ کا تعلق زیادہ تر اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے تھا۔ ابتدا میں مولانا مودودی کی کتاب ’’دینیات‘‘ اسکول کے نصاب میں شامل تھی۔ بھٹو دورِ حکومت میں تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا لیکن اس عمل میں عیسائی تعلیمی اداروں کو چھوڑ دیا گیا، اس لیے کہ بھٹو صاحب امریکہ اور یورپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جب بھٹو نے تعمیرنو اسکول اورکالج کو سرکاری تحویل میں لے لیا تو جماعت کے ارکان نے اپنی رکنیت ختم کرلی اور کچھ ارکان نے جماعت کو نہیں چھوڑا۔
بھٹو نے تعمیرنو کالج کی زمین کو بھی سرکاری قبضے میں لے لیا۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تو انہوں نے تمام ادارے واپس کردیے۔
آج کینٹ سے ملحقہ علاقے میں تعمیرنو کالج کی شاندار عمارت کھڑی ہے جو علم کی روشنی پورے صوبے میں پھیلارہی ہے۔
فضل حق میر نے تعمیر نوکالج کو اپنی محنت اور بہترین ٹیم کی بدولت پورے صوبے میں ایک اعلیٰ مقام پر پہنچادیا۔ اس کالج کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں میرٹ کو داخلے کے لیے پیمانہ بنایا گیا۔ اس سے تعمیرنوکالج ایک اعلیٰ مقام پر پہنچ گیا اور اس کے طالب علموں نے پاکستان بھر میں اپنا مقام بنالیا۔ سیاست کا میدان ہو یا عدالتی دنیا، فوج ہو یا کوئی اور شعبہ… تعمیرنو کالج کے طالب علم ہر جگہ نمایاں نظر آئے۔
اس کالج کے ساتھ فضل حق میر نے ایک گرلزکالج کی بنیاد رکھی، ایک علیحدہ پرائمری سیکشن بھی بنایا۔ اب ان کے ذہن میں یونیورسٹی کا نقشہ تھا، مگر وہ اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ حکومت نے انہیں تمغائِ حسن کارکردگی سے نوازا۔ یہ ان کی علمی خدمات کا اعتراف تھا۔
مجھے بھی تعمیرنو پرائمری سیکشن میں پڑھانے کا اعزاز حاصل رہا۔ سابق سینیٹر عبدالرحیم میرداد خیل، ممتاز عالم دین مولانا عبداللہ خلجی اس اسکول میں شعبۂ تدریس سے منسلک رہے۔ فضل الٰہی قریشی (مرحوم) بھی سائنس کے استاد تھے۔ محمد آصف صاحب اسکول کے پرنسپل ہیں، انہوں نے بھی اس تعلیمی ادارے کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
فضل حق میر کی علمی خدمات کو اہلِ بلوچستان فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اس تعلیمی ادارے کی عمارت ان کی یاد کو دلوں میں روشن رکھے گی۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں ہاتھ فضل حق میر کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں گے۔ اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین